پریوں کی دنیا

205

’’تم نے میری پنسل کیوں توڑی؟‘‘ عائشہ بہت غصے میں تھی۔ اس کی چھوٹی بہن سارہ اس کی پنسل سے لکھ رہی تھی اور اس سے عائشہ کی پنسل ٹوٹ گئی۔‘‘
’’سوری اپیا! مجھ سے غلطی سے ٹوٹ گئی۔‘‘
’’نہیں تم نے جان بوجھ کر توڑی ہے، اب تم مجھ سے بات نہ کرنا۔‘‘ عائشہ یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور رونا شروع کردیا۔
بات یہ تھی کہ عائشہ ابھی 8 سال کی تھی، وہ اپنی چیزیں بہت سنبھال کر رکھتی تھی لیکن وہ ہر چھوٹی بات پر روتی اور ناراض ہوجاتی۔
’’اب میں آئندہ اپنی کوئی چیز سارہ کو نہیں دوں گی، وہ میری ساری چیزیں توڑ دیتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر عائشہ دوبارہ رونے لگی۔ روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ یہ کمرہ اس کا نہیں بلکہ یہ تو پھولوں سے سجا ہوا ہے۔ اس کا فرنیچر بالکل ہی الگ ہے۔ ’’یہ میں کہاں آگئی ہوں؟ یہ میرا کمرہ تو نہیں لگتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بیڈ سے اٹھ کر شیشے کی طرف جانے لگی۔ ’’یہ کیا…؟‘‘ شیشے کو دیکھ کر اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ’’یہ میں ہی ہوں؟ میں ایک پری بن گئی؟ مجھے یقین نہیں آرہا‘ میرے پری جیسے کپڑے، میرے پَر… لیکن یہ میرے سر پر تاج کیوں ہے؟ میں کہیں پریوں کی رانی تو نہیں؟‘‘ ابھی عائشہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔
’’کون…؟ اندر آجائو۔‘‘
’’پریوں کی رانی ناشتا لگ چکا ہے، آپ باہر آجائیں…‘‘
’’ہوں! ابھی آتی ہوں۔‘‘ وہ پری دروازہ بند کرکے باہر چلی گئی۔ ’’عائشہ تم اب پریوں کی رانی بن گئی ہو۔‘‘ عائشہ اپنے کمرے سے باہر نکلی، وہ چلنے کے بجائے اُڑ رہی تھی۔ ’’بہت مزا آرہا ہے۔‘‘ عائشہ آگے جانے لگی تو اس نے دیکھا کہ ایک بڑا سا ہال ہے جہاں پریوں کی رانی کی ایک خوب صورت اور سجی ہوئی کرسی رکھی تھی۔ ایک بڑی سی ٹیبل بھی تھی جس پر ناشتا لگا ہوا تھا۔ ’’پریوں کی رانی شروع کیجیے۔‘‘ عائشہ کو ’’پریو ں کی رانی‘‘ سننا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ وہ ناشتے کی میز پر آئی، اس کے ساتھ اور بھی پریاں تھیں۔ ناشتے کے بعد ایک پری عائشہ کی ساتھی بن گئی، اس نے عائشہ کو پورے محل کی سیر کرائی۔
عائشہ کو بہت مزا آیا۔ رات ہونے والی تھی کہ اچانک عائشہ کی آنکھ کھل گئی ’’کیا یہ میرا خواب تھا؟‘‘
’’کیسا خواب؟‘‘ عائشہ کی امی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں امی! سارہ کہاں ہے؟‘‘
’’اپنے کمرے میں ہوگی… اچھا تم جلدی سے منہ دھوکر کچھ کھا لو۔ صبح سے رات ہوگئی تم نے کچھ نہیں کھایا۔‘‘
’’اچھا امی میں ابھی آتی ہوں۔‘‘ عائشہ نے سارہ کے کمرے میں جاتے ہوئے کہا۔
’’میری پیاری بہن سارہ تمہیں جو چاہیے وہ تم لے سکتی ہو۔‘‘
’’شکریہ اپیا، میں اب آپ کی چیز کبھی نہیں توڑوں گی۔ ویسے اپیا! ایک بات بتائیں، آپ صبح مجھ سے ناراض تھیں اب مجھ پر کیسے پیار آگیا؟‘‘
’’یہ سب چھوڑو، تم یہ بتائو میری پاکٹ منی سے آئسکریم کھائو گی؟‘‘
’’جی ہاں بالکل…‘‘ سارہ نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر چلو…‘‘ عائشہ نے سارہ کو خوش ہوتے دیکھ کر کہا۔
اس طرح دونوں بہنوں کی دوبارہ پکی دوستی ہوگئی۔ عائشہ اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہ ہی روتی ہے اور نہ ناراض ہوتی ہے۔

حصہ