جیسے ہمارے دین میں مسلمان بھائی بھائی ہے تو اب مجھے وہ بات بالکل سچ لگ رہی ہے ہر شخص اپنے فرائص بہ خوبی نبھا رہا ہے- مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ میں نبی کریم ؐکے زمانے میں ہوں کیونکہ سب کا ایمان اتنا تازہ ومضبوط تھا جیسے نبی کریم ﷺکے زمانے میں ہر مومن شخص کا تھا-کیونکہ سب کو انگریزوں سے نجات ملی ہے مرد اپنے قوانین کے تابع ہیں عورتیں گھروں میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
اس تحریر کے بعد بہت سے اوراق خالی تھے اس کے بعد لکھا تھا:
11 اگست 1953
آج بھی میں اپنے گھر کے باہر گلی میں اپنی ویل چیئر پر بیٹھا ہوں اور نظارہ کر رہا ہوں لیکن آج کے منظر اور دو سال پہلے کے منظر میں زمین آسمان کا فرق ہے آج بھی وہی لوگ ہیں جو دو سال پہلے تھے آج بھی وہی مسجدیں ہیں جو چھ سال پہلے تھی لیکن لوگوں کی سوچ اور کاموں میں اتنا فرق آگیا ہے جو لوگ اذان سنتے ہی مسجد کی طرف دوڑ لگاتے تھے آج وہی لوگ کام میں اتنے مصروف ہیں کے اذان کا جواب بھی نہیں دیتے مرد اپنے احکام بھول گئے عورتیں بھی باہر نکلنے اور کام کرنے لگیں انگریزوں والا لباس اپنانے لگ گئیں۔
مسجدیں ویران ہونے لگ جاتی ہیں تو صرف ہم بزرگ لوگ اور چند ایمان والےمیرا ضمیر ملامت کرنے لگا کہ میں بھی تو ایک پاکستانی ہوں میں کیوں کچھ نہیں کر سکتا پاکستان کے لیے؟ کیا یہ صرف قائد اعظم کا کام تھا کے وہ اتنی جدوجہد کریں، ملک کے لیے لڑیں انہیں، کیا حاصل ہوا ان کا تو کوئی ذاتی مقصد نہیں تھا…..ہم بھی تو کچھ کر سکتے ہیں ہم بھی تو مسلمان ہیں پاکستانی ہیں لیکن میں اپنی بے بسی دیکھ کے بہت روتا ہوں میں اپنی معذوری کی وجہ سے اور کم تعلیم کی وجہ سے بہت بے بس ہوں ۔
کیا ہمیں پاکستان اس لیے آزاد ہو کر ملا ہے کے ہم پھر سے وہی روایات اپنائیں وہی طریقے اپنائیں جس کی وجہ سے آزادی مانگی تھی پر ہماری آزادی کا کیا فائدہ؟ کیوں ہم آزاد ہوئے؟ کیوں قائد اعظم نے ہمارے لیے مشقت کی….؟ تھوڑا سوچیں اپنے ضمیر کو جھنجھوڑیں ! دین و وطن کی مدد میں ہی مسلمان کی فلاح ہے ۔
میری یہ التجا ہے اس مسلمان بھائی سے جس کو یہ ڈائری ملے خدارا پاکستان کے لیے کچھ کیجیے گا۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
آپ کا مسلمان بھائی عبداللہ خان۔
………O………..
میں نے ڈائری پڑھی تو مجھے اندازہ ہوا کہ
…خواب…
ہمارا تعلق پاکستان سے تھا لیکن ہمارے دادا نے برطانیہ میں رہائش اختیار کرلی تھی ہمارا بچپن بھی وہیں گزرا ۔۔لیکن مجھے ہمیشہ پاکستان کے بارے میں جاننے کا بہت شوق تھا ایک دن میں برطانیہ کی نامور برٹش لائبریری میں پڑھ رہا تھا تو اچانک میری نظر ایک پرانی ڈائری پر پڑی- میں نے جب وہ ڈائری کھول کے دیکھی وہ کسی پاکستانی شخص کی تھی-میں وہ ڈائری پڑھنے کے لئے گھر لے آیا۔
جب میں نے گھر آ کر ڈائری کھول کے دیکھی تو وہ کسی عبداللہ نامی شخص کی تھی اس کے پہلے صفحہ پر لکھا تھا 13اگست 1947 کا دن ہے میں اپنے گھر کی گلی کے باہر اپنی ویل چیئر پر بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا- لوگ بہت خوش ہیں ہر طرف چہل پہل ہے۔ کچھ لوگ مسجدیں دھونے میں مصروف ہیں، کوئی مسجدوں کو سجا رہا ہے تو کوئی نئے کپڑے پہن کے نماز کے انتظار میں ہے-
میرے دل میں بھی آرزو ہے کے میں بھی ان کے ساتھ کام کرواؤں نیا پاکستان بننے کی خوشی میں چراغاں کروں لیکن میں بے بس ہوں کیونکہ میں چلنے سے قاصر ہوں۔
عصر کی اذان ہوئی سب لوگ مسجد کی طرف جانے لگے نوجوان بوڑھے بچوں کے ہاتھ پکڑے مسجدوں کی طرف بھاگتے ہوئے جا رہے تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے عید ہے یا پھر سب نئے مسلمان ہوئے ہیں پھر دوسرے ورق پر لکھا تھا 14 اگست1947کا دن ہے لوگ تبادلوں میں مصروف ہیں کوئی اپنا سامان لے کر ہندوستان سے پاکستان آرہا ہے تو کوئی پاکستان سے ہندوستان جا رہا ہے-
مسلمان اتنے خوش ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے ابھی اسلام وجود میں آیا ہے ہر کوئی اپنی محنت مشقت میں سچائی سے کام کر رہا ہے ۔بچوں اور بڑوں کے پاس پاکستان کا پرچم ہاتھ میں ہے جو لہراتے جا رہے ہیں۔
پھر ڈائری کے کچھ اوراق خالی تھے پھر ایک ورق پر لکھا تھا:
2ستمبر 1947
ہر پاکستانی اپنے پیشے کے ساتھ سچا ہیں
آپ کا مسلمان بھائی عبداللہ خان۔
میں نے ڈائری پڑھی تو مجھے اندازہ ہوا کہ میں بھی تو ایک پاکستانی ہوں میں بھی تو ایک مسلمان ہوں جن انگریزوں سے ہمیں قائداعظم نے نجات دلائی انھیں انگریزوں کی غلامی میں تو میں آج بھی ہوں پوری رات میں یہ باتیں سوچتے سوچتے پریشان رہا صبح ہوتے ہی میں نے پیکنگ کرنا شروع کی تو ابو امی حیران ہوگئے پوچھنے لگے اچانک کہاں جا رہے ہو تو میں نے کہا کہ میں پاکستان جا رہا ہوں عبداللہ کا خواب پورا کرنے اور اپنا فرض ادا کرنے-
امی نے کہا کے تم یہ کیسے کر سکتے ہو ابھی تمہیں سرجن کی پوسٹ ملی ہے اور اتنی بڑی پوسٹ چھوڑ کر تم پاکستان جاؤ گے-
میں نے کہا جی امی میرے لیے اب پاکستان کے آگے کوئی بھی پوسٹ معنی نہیں رکھتی، میں نے ٹھان لی ہے کہ میں پاکستان عبداللہ کا خواب پورا کرنے جا رہا ہوں کل صبح میری فلائیٹ ہے۔