شعرائے کرام کی افادیت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں‘ یہ معاشرے کے عروج و زوال میں شامل ہیں‘ ہر زمانے میں انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے ذہنی آسودگی اور علم و آگہی کی آبیاری کی۔ قیام پاکستان کے لیے شعرائے کرام کی خدمات بھی قابلِ ستائش ہیں۔ انہوں نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے لیے تحریکِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا‘ قید و بند کی تکالیف برداشت کیں لیکن آزادی کے ترانے لکھے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے ادارۂ فکرِ نو کراچی کے زیر اہتمام جشن آزادی مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے لیکن ہم دوسرے قوموں کے زیر اثر ہیں جب کہ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ جن قوموں کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا یعنی ان کا اپنا قومی تشخص ان کے بیانیہ سے واضح ہوتا وہ قومیں ترقی نہیں کرسکتیں۔ قاسم جمال نے کہا کہ ہم اردو زبان کے نفاذ کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں اردو کو قومی اداروں کی زبان بنائی جائے۔ اس موقع پر عاشق شوقی نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ہمارا مقصد علم و ادب کی ترقی ہے اور مشاعرہ زبان و ادب کے پھیلائو کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ 14 اگست کا دن بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمانانِ ہند نے اپنے لیے ایک الگ وطن قائم کیا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا‘ تمام مسلمانوں نے اس ملک کے لیے بے شمار قربانیاں دیں‘ اس ملک کی ترقی میں حصہ لینا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ آیئے ہم عہد کریں کہ ہم اپنے وطن کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کریں گے‘ اللہ تعالیٰ ہمیں قوت اور استقامت عطا فرمائے۔ تقریب کے نظامت کار شاہد اقبال تھے جب کہ وقار بیگ نے نعت رسولؐ کی سعادت حاصل کی اس مشاعرے میں شاداب احسانی‘ اختر سعیدی‘ سلیم فوز‘ سحر تاب رومانی‘ محمد علی گوہر‘ شاہد اقبال‘ نثار احمد نثار‘ انور انصاری‘ رانا خالد قیصر‘ گل انور میمن‘ کامران طالش‘ اسحاق خان اسحاق‘ علی کوثر‘ عاشق شوکی اور زبیر صدیقی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ محمد علی گوہر نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ قائداعظم نے ہمیں جو سنہرے اصول بتائے ہیں ہم ان کے ذریعے اپنے ملک کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔