دبستان کراچی کے انتہائی سینئر شعرا کی صف میں شامل محسن اعظم ملیح آبادی لکھنو کے قصبے ملیح آباد میں پیدا ہوئے‘ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ 29 جولائی 2020ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ ان کے 35 شعری مجموعے شائع ہوئے۔ ان کی قادر کلامی میں کوئی شک نہیں‘ علمِ عروض پر دسترس کے ساتھ تنقیدی میدان میں بھی نام کمایا۔ ان خیالات کا اظہار رونق حیات نے گلستان جوہر میں محسن اعظم ملیح آبادی کے تعزیتی اجلاس میں کیا۔ تینوں حصوں پر مشتمل اس پروگرام کا اہتمام نیاز مندانِ کراچی اور جہانِ نعت و حمد کراچی نے کیا تھا۔ انہوں نے نعیم انصاری کے بارے میں کہا کہ ان کا حمدیہ شعری مجموعہ ’’باغِ حمد‘‘ ایک اچھی کتاب ہے‘ ان کا حمدیہ کلام اپنے طرزِ بیان میں بہت سے شعرا سے الگ نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں غنائیت اور روانی نمایاں ہے‘ وہ شاعری کے اسرار و رموز سے واقف ہیں ان کی ترقی کا سفر جاری ہے امید ہے کہ یہ بہت اعلیٰ مقام مقام پائیں گے۔ اس پروگرام کے مہمان خصوصی گجرانوالہ سے تشریف لائے ہوئے شاعر غلام زبیر نازش تھے۔ شارق رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ محسن اعظم ملیح آبادی کو منظومِ خراج تحسین پیش کرنے والوں میں شارق رشید‘ عبیداللہ ساگر‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ آسی سلطانی اور جمال احمد جمال شامل تھے جب کہ طاہر سلطانی‘ الطاف احمد‘ طارق جمیل اور زبیر نازش نے بھی محسن اعظم ملیح آبادی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ نعیم انصاری کی حمدیہ شاعری پر ڈاکٹر محمد سہیل شفیق‘ ڈاکٹر شہزاد اور حامد علی سید نے سیر حاصل تبصرے کیے۔ حمدیہ طرحی مشاعرے میں رونق حیات‘ زبیر نازش‘ حامد علی سید‘ یامین وارثی‘ طاہر سلطانی‘ جمال احمد جمال‘ آسی سلطانی‘ نجیب قاصر‘ یوسف اسماعیل‘ تاج علی رانا‘ تنویر سخن‘ شائق شہاب‘ یوسف چشتی‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ محمد اکرم اکرم‘ زبیر صدیقی‘ نعیم انصاری‘ شارق رشید‘ اکرم الحق اورنگ اور شجاع الدین نے طرحی کلام پیش کیا۔ طاہر سلطانی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ محسن اعظم ملیح آبادی‘ صاحبِ اسلوب شاعر تھے‘ ان کی شاعری فکر و خیال کی بلندی اور فنی صلاحیتوں کی آئینہ دار ہے۔ انہیں ہر صنفِ سخن پر عبور حاصل ہے۔ الطاف احمد نے کہا کہ محسن اعظم ملیح آبادی نے تمام عمر علم و ادب کی آبیاری کی ہے‘ ان کے شاگردوں میں کئی اہم شعرا شامل ہیں۔ طارق جمیل نے کہا کہ محسن اعظم ملیح آبادی کثیر الجہت شخصیت تھے‘ وہ شاعر‘ ادیب‘ نقاد‘ محقق اور ماہر تعلیم تھے۔ ان کے کلام میں فکر و نظر کی تازگی اور مسائل حیات کے خدوخال بکھرے ہوئے ہیں‘ انہوں نے خوب صورت الفاظ سے اپنی شاعری آراستہ کی۔ طارق جمیل نے نعیم انصاری کے بارے میں کہا کہ ان کا حمدیہ کلام اسلامی تعلیمات کا عکس ہے‘ انہوں نے شاعرانہ ہنر مندی سے اپنی شناخت بنائی ہے۔ نعیم انصاری نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ نیاز مندان کراچی اور جہانِ نعت و حمدیہ کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بابرکت تقریب سجائی‘ جس میں میرے دوسرے حمدیہ شعری مجموعے ’’باغ حمد‘‘ پر بھی گفتگو ہوئی۔