اہلِ مغرب اور قبولِ اسلام کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ وہ کتابیں ہیں جو مغربی مصنفین بغض اور تعصب میں ڈوب کر لکھتے ہیں جن میں یا تو اسلام کی تعریف ایسے بھونڈے اور مضحکہ خیز انداز میں کی جاتی ہے کہ پڑھنے والا ان سے منفی تاثر لیے بغیر نہیں رہتا یا پھر مسلمان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو اسلام کے سر منڈھ کر ایک بھیانک اور خوف ناک تصویر پیش کی جاتی ہے۔
الحمدللہ میرا معاملہ اس عام روش سے مختلف رہا۔ میں ان کتابوں سے ہٹ کر بھی غور کرنے کا عادی تھا اور صرف میں ہی نہیں یورپ میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو عیسائیت کو قابلِ قبول نہیں سمجھتے۔ وہ دل سے اسلامی تعلیمات کے بہت قریب ہیں مگر چونکہ انہوں نے کبھی اسلام کی سادگی و پُرکاری کا مشاہدہ نہیں کیا اس لیے وہ اسے قبول کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ تاہم اسلام قبول کرنے والوں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ایک ’’ضابطۂ حیات‘‘ کی تلاش میں ہوتے ہیں اور زندگی کی بے مقصدیت سے تنگ آچکے ہوتے ہیں۔میرا معاملہ اس سے کچھ مختلف ہے۔ میں نے اسلام کی کبھی طلب نہیں کی تھی۔ میں انگلستان کے ’’عیسائی‘‘ معاشرے میں پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑھا۔ یہ معاشرہ کہنے کو تو عیسائی معاشرہ ہے مگر حقیقی زندگی کے تصور سے بہت دور ہے۔ ایک ایسا تصور جو شاذ ہی کہیں نظر آتا ہے۔ تاہم جزوی طور پر اسے سمجھنے کی ناکام سی کوشش ضرور کی جاتی ہے۔ اگرچہ وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو عیسائی بھی ہیں اور انسانیت کی فلاح و ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے افریقہ اور یورپ کے ممالک کی خوب سیر کی۔ براعظم افریقہ کا کوئی ملک ایسا نہ تھا جہاں میں نے سفر نہ کیا ہو۔ میرا ردعمل یہ تھا کہ یورپین اقوام اور معاشرے کے مقابلے میں جہاں جہاں لوگ مسلم سوسائٹی کے تحت زندگی گزارتے ہیں‘ وہاں خلوص اور زندگی کی دل کشی کا ایک خاص اور نمایاں انداز ملتا ہے۔ چنانچہ میں شمالی نائیجریا کے شہر کانو کی عظیم الشان مسجد سے بے پناہ متاثر ہوا اور وہاں کے دوستوں میں جو خلوص اور محبت اور ایثار نظر آیا‘ اس کا تجربہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ خوش قسمتی سے مجھے اس کے بعد سری نیا (Sirinia) کے خالص مسلم معاشرے میں لمبی مدت تک ٹھہرنے کا موقع ملا۔ مسلمانوں کے حوالے سے اسلام کے لیے میرے دل میں جو نرم گوشتہ پیدا ہو گیا تھا‘ اس میں گہرائی اور وسعت آگئی اور میں قبولِ اسلام کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے لگا۔تاہم میں نے اپنی زندگی کا یہ اہم ترین فیصلہ کرنے سے پہلے مختلف مذاہب کا تقابلی مطالعہ خوب توجہ سے کیا۔میں اس معاملے میں مبالغے سے کام نہیں لے رہا۔ آج بھی سائوتھ وارک (انگلستان) کے بشپ اور امریکا کے ڈاکٹر میلچی کی مثال سامنے ہے جو ہر طرح کے توہمات سے بچ کر صرف خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان رکھتے ہیں۔ بہرحال میں آخر کار شرحِ صدر کی منزل پر پہنچ گیا اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔جہاں تک میرا اندازہ ہے یورپ میں اشاعتِ اسلام کے حیرت انگیز امکانات ہیں۔ محمد جان دیبسٹر اس سلسلے میں بہت کام کر رہے ہیں اور اس کے خوش گوار نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ خود میں ایک یونیورسٹی میں یہی خدمت انجام دے رہا ہوں اور میرے تاثرات یہ ہیں کہ یورپ میں اسلام کا فروغ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کی وساطت سے ہوگا جب کہ اس کے برعکس جو لوگ عیسائیت قبول کرتے ہیں وہ ابتد امیں انجیل کی اس تعلیم سے متاثر ہوتے ہیں کہ نجات کے لیے ایمان ضروری ہے‘ عمل نہیں۔ لیکن اس عقیدے کا اثر ہپناٹزم سے ملتا جلتا ہے۔ چنانچہ جب بھی انسان حقائق کی دنیا میں آتا ہے اور شعور سے کام لیتا ہے تو اپنے آپ کو ایک ایسے لق و دق صحرا میں پاتا ہے جہاں سرابوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
اسلام اس کے برخلاف شعور اور عقل کو اپیل کرتا ہے شاید ہی کسی نے راتوں رات اسلام قبول کیا ہوگا اور یہی بات اسلام کے حق میں جاتی ہے۔ یہاں ادراک اور حسیات کو پسِ پشت نہیں ڈالا جاتا۔ چنانچہ جب ایک مرتبہ کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی صداقت کا معترف ہو جاتا ہے تو اس کے بعد جو غور و فکر بھی کیا جائے گا اور جو اعتراض بھی پید اہوگا وہ یقین اور ایمان کو مزید پختہ کر چلا جائے گا اور یہ اسلام کی مبنی برحق ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔بہرحال میری روح پیاسی تو تھی ہی‘ اس لیے پوری توجہ سے صداقت کی تلاش میں منہمک ہوگیا۔ متذکرہ دونوں باتوں نے مجھے بہت سہارا دیا۔ عربی پہلے سے جانتا تھا۔ اسلامی تہذیب و ثقافت سے بھی کچھ نہ کچھ واقفیت تھی‘ چنانچہ میں نے سب سے پہلے اسلام کی طرف رجوع کیا اور یورپین مصنفین کی بجائے براہِ راست صحیح اسلامی ماخذوں سے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس کے لیے میں نے ساری دنیائے اسلام میں مختلف اداروں سے رابطہ قائم کیا۔ اسی سلسلے میں کراچی کے انگریزی جریدہ ’’مسلم نیوز انٹرنیشنل‘‘ (نومبر 1974ء) میں میرا ایک خط چھپا۔ میں نے برسلز کے مقامی مسلمانوں سے بھی بات کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ٹانگا نیکا سے سنگاپور اور پاکستان سے سعودی عرب تک مختلف لوگوں نے مجھے خطوط بھی لکھے اور کتابیں بھی ارسال کیں۔لیکن میں نے اسلام فوراً ہی قبول نہیں کرلیا۔ منطق و دلیل کی سخت رہنمائی میں‘ میں نے مہینوں تک اسلام کے ایک ایک پہلو کا مطالعہ کیا‘ مختلف اصحاب سے گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہا اور اس کے لیے میرے مسلم دوستوں نے بہت تعاون کیا۔ چنانچہ اسلام کی تعلیم میں نےبتدریج حاصل کی۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے میں نے اللہ کی وحدانیت اور اس کے ننانوے اسمائے مبارکہ کا یقین حاصل کیا۔ دوسرے مرحلے پر میں نے یہ ادراک حاصل کیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے سچے نبی اور آخری پیغمبر ہیں۔ تیسرے نمبر پر میں نے یہ اذہان پایا کہ قرآن واقعتاً اللہ کا کلام ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کیا گیا اور یہی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور چوتھے درجے میں‘ میں اس وثوق تک پہنچا کہ قرآن ہر قسم کی تبدیلی سے پاک بالکل اسی حالت میں چلا آرہا ہے جس حالت میں یہ آج سے چودہ سو سال پہلے تھا۔
اس کے ساتھ ہی میرا دل اس امر پر کامل مطمئن ہو گیا کہ صرف اسلام ہی وہ سچا مذہب اور مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہر دور میں نوع انسانی کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ چنانچہ مندرجہ بالا تعلیمات پر میں نے ایک ایک کرکے عمل شروع کیا۔ میں نے اپنے آپ کو اچھی طرح سمجھا لیا کہ مسلمان ہونے کے بعد مجھے بہت سی باتوں کو ترک کرنا ہوگا اور بہت سے اعمال کو اختیار کرنا پڑے گا۔ مجھے اپنی زندگی کو مکمل تبدیل کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ میں نے ایسا کرنا شروع بھی کر دیا اور جب میں نے مقبول باتوں کو اختیار کر لیا اور مردود کو چھوڑ دیا تو ایک روز میں نے باقاعدہ اسلام قبول کرلیا اور نام بدل کر اسلام کے زیرِ سایہ ملتِ مسلمہ کا کارکن بن گیا۔
میں جانتا ہوں کہ بات محض قبولِ اسلام پر ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ تو اللہ کے راستے میں ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور جہاد کے ذریعے اپنی رضا کو پانے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین۔