اللہ ربّ کریم نے جہاں عورت میں اپنے خاندان اور معاشرے کو سنورانے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھی ہے وہیں عورت اپنا خاندان ہی نہیں بلکہ پوری قوم کو بگاڑ سکتی ہے۔
عصرِ حاضر میں سب سے بڑی تحریک جو ہمارے خاندان، سماج اور انسانی تعلقات کی تمام بنیادوں پر ضرب در ضرب لگا رہی ہے‘ وہ حقوق نسواں کی تحریک ہے۔ بظاہر عورت کی مظلومیت یا عورت پر تشدد کے خلاف اٹھائی جانے والی یہ تحریک جتنی آگے بڑھ رہی ہے مساوات اور ترقی کے نام پر شہوانیت اور بے حیائی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ استعمار کی ساری کوششیں اس خاندانی نظام کو جو تمدن کی بنیاد ہے منہدم کرنے پر لگ رہی ہیں۔
بیسویں صدی کے نصف آخر میں ملحد فیمینسٹ ہی نہیں اسلامی فیمینسٹ بھی میدان میں آگئے‘ وہ سارا زور اس بات پر لگانے لگے کہ اللہ عادل و منصف ہے‘ وہ دو صفوں کے لیے امتیازی قوانین کیوں بھیجے گا؟ اس لیے مسلم دنیا کے اسکالرز سامنے آنے لگے کہ کچھ حدود و قوانین خاص دور نبویؐ کے لیے تھے اور قرآن کی من مانی تاویلوں سے پردہ، تعدد ازواج اور عورت کی نصف شہادت وغیرہ پر ہر طرف ’’اجتہاد‘‘ کے دروازے کھل گئے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اللہ نے جس بصیرت سے مالا مال کیا تھا انہوں نے اس سیلابِ بلاخیز کی تباہ کاریوں کا بروقت ادراک کیا۔ یہ وہ دور تھا جہاں ایک طرف اسلام اور ہندوانہ تہذیب خلط ملط ہورہی تھی۔ دوسری طرف مغربی تہذیب کے اثرات سے چھٹکارا ممکن نہ تھا۔ اس دورِ غلامی کے اثرات سماج اور بالخصوص خواتین پر کیا مرتب ہوئے اس کا اندازہ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔
سید مودودیؒ کے لٹریچر نے مسلمان خواتین کی رہنمائی کر کے انہیں گم گشتہ منزل کا سراغ دکھا کر ایک عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا۔ آپ تہذیبوں کی تعمیر میں عورت کے کردار کی اہمیت سے بہ خوبی آگاہ تھے۔ مولانا کے لٹریچر نے خواتین کے مائنڈ سیٹ کو بدل دیا۔ انہیں حلال و حرام کی تمیز آئی، انہوں نے اپنی قوت کو پہچانا اور ہر میدان میں اسلامی حدود کی پاسداری کے ساتھ ان کی کارکردگی نمایاں ہوتی چلی گئی۔ مولانا کے لٹریچر سے نہ صرف ان کے خاندان تبدیل ہوئے بلکہ حق کی راہی بن کر وہ لادینیت اور مادہ پرستانہ سوچ کے آگے بند باندھنے میں بھی کامیاب ہوسکیں۔
تحریکِ نسواں کے پس منظر میں خواتین کے حقوق کا راگ الاپ کر جن ایجنڈوں کے لیے راہ ہموار کی جارہی تھی اس پر مولانا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’بہرحال دونوں گروپوں نے کام ایک ہی کیا ہے اور وہ یہ کہ اپنی تحریک کے اصل محرکات کو چھپا کر ایک جذباتی تحریک کے بجائے ایک عقلی تحریک بنانے کی کوشش کی۔ عورتوں کی صحت، ان کے عقلی و عملی ارتقاء، ان کے فطری و پیدائشی حقوق، ان کے معاشی استقلال، مردوں کے ظلم و استبداد سے ان کی رہائی اور قوم کا نصف حصہ ہونے کی حیثیت سے ان کی ترقی پر پورے تمدن کی تحریک کا انحصار اور ایسے ہی دوسرے حیلے‘ جو براہِ راست یورپ سے برآمد ہوئے تھے‘ اس تحریک کی تائید میں پیش کیے گئے تاکہ عام مسلمان عورت کو اس روش پر چلا سکیں جس پر یورپ کی عورت چل رہی ہے اور نظامِ معاشرت میں ان طریقوں کی پیروی کی جائے جو اس وقت فرنگی قوموں میں رائج ہیں‘‘۔ (پردہ: صفحہ 44)
لگتا ہے مولانا مودودیؒ کے یہ الفاظ عورتوں پر تشدد کے نام سے جو تازہ لہر اُٹھی ہے اسی کے پس منظر میں کہے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگلے پچھلے گمراہوں کی ذہنیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ فساد کی جڑ وہی ہے صرف نئے سلوگنز کی ملمع کاری ہے۔
طالبان کے کابل پر قبضہ کے بعد بھی ایک سوال ’’جدید اذھان‘‘ کو مضطرب کر رہا ہے کہ اُن کے دورِ حکومت میں خواتین کا ’’اسٹیٹس‘‘ کیا ہوگا؟ بات اتنی سی ہے کہ ضرورت سے زیادہ خواتین کی آزادی کے طلب گار اس راستے کی اصل رکاوٹ مولوی کو سمجھتے ہیں۔ وہ اسلام کے بارے میں بغض نہیں نکال سکتے تو مولوی کی گردن پر ہاتھ جاتا ہے۔ وہ مسلم سماج کے لیے مغرب کی ترقی اور حقوق کی طرف دیکھتے ہیں اور فریب کاری کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک مسلم معاشرے میں عورت کی حیثیت کیا ہوگی یا ہونا چاہیے‘ اس پر مولانا دو ٹوک اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’مسلمان عورت دنیا اور دین میں مادّی، عقلی اور روحانی حیثیات سے عزت اور ترقی کے ان بلند سے بلند مدارج تک پہنچ سکتی ہے جن تک مرد پہنچ سکتا ہے۔ اس کا عورت ہونا کسی مرتبہ میں بھی اس کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ آج بیسویں صدی میں بھی دنیا اسلام سے بہت پیچھے ہے، افکار انسانی کا ارتقا اب بھی اُس مقام تک نہیں پہنچا ہے جس پر اسلام پہنچا ہے۔ مغرب نے عورت کو جو کچھ دیا ہے عورت کی حیثیت سے نہیں دیا بلکہ مرد بنا کر دیا ہے۔ عورت در حقیقت اب بھی اس کی نگاہ میں ویسی ہی ذلیل ہے جیسی پرانی دور جاہلیت میں تھی۔
گھر کی ملکہ، شوہر کی بیوی، بچوں کی ماں ایک اصلی اور حقیقی عورت کے لیے اب بھی کوئی عزت نہیں۔ عزت اگر ہے تو اس ’’مرد مونث‘‘ یا ’’زن مذکر‘‘ کے لیے ہے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت ہو مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو اور تمدن و معاشرت میں مرد ہی کے سے کام کرے۔ ظاہر ہے یہ انوث کی عزت نہیں، رجولیت کی عزت ہے پھر احساس پستی کی ذہنی الجھن (inferiority complex) کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ مغربی عورت مردانہ لباس فخر کے ساتھ پہنتی ہے۔ حالاں کہ کوئی مرد زنانہ لباس پہن کر برسرعام آنے کا خیال بھی نہیں کرسکتا۔ اسلامی تمدن عورت کو عورت اور مرد کو مرد رکھ کر دونوں سے الگ الگ وہی کام لیتا ہے جس کے لیے فطرت نے اسے بنایا ہے۔‘‘ (پردہ)
یہاں سید مودودیؒ نے کتنی واضح اور پُراثر بات کی۔ امتِ مسلمہ کے زوال کے جو اسباب ہیں‘ آپ نے ان اسباب کی جڑوں پر کاری ضرب لگائی۔ ان کی یہی بے ساختگی اور راست بازی ان کے قارئین کے پہلے سے منجمد خیالات کو پگھلا کر رکھ دیتی ہے۔ یہ افکار اس کی ذہنی ساخت میں رچ بس جاتے ہیں۔ مولانا کے ستر اور اسی برس پرانے افکار بھی اس زمانے کے موافق ہیں۔ ان کی فکری وسعت ان کی تحریروں کو ہمیشہ تازہ رکھے گی۔
’’حقوقِ نسواں‘‘ کے نام سے جو تحریک برپا ہوئی‘ جس کی بنیاد مساواتِ مرد و زن تھی‘ مولانا نے اس کا جذباتی ردِ عمل پیش کرنے کے بجائے عقلی دلیل سے اس پر کاری ضرب لگائی۔ فرماتے ہیں ’’یہ نظریہ محض ایک فریب ہے جس کے ذریعے مردوں نے عورتوں کے کاندھوں پر اپنی ذمے داریوں کا بار بھی ڈال دیا اور گھر سے باہر لا کر اپنے عیش و عشرت کا سامان بھی کرلیا۔ اس کومعاشی خود کفالت کا سبق پڑھا کر دفتروں، کارخانوں میں لا بٹھایا، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی فطری ذمے داریاں بھی پوری کرنے پر مجبور ہے کیوں کہ بہرحال بچوں کی پیدائش، رضاعت اور پرورش تو صرف عورت ہی کرسکتی ہے مرد نہیں۔ تو پھر یہ کیسی مساواتِ مرد و زن ہے…؟ عورت سے ان فطری ذمے داریوں کا مطالبہ بھی کیا جائے جس میں مرد اس کا شریک نہیں ہے اور پھر تمدنی ذمے داریوں کا بوجھ بھی اس پر مرد کے برابر ڈال دیا جائے۔ اُس سے کہا جائے کہ تُو وہ ساری مصیبتیں برداشت کر جو فطرت نے تیرے اوپر ڈالی ہیں اور پھر ہمارے ساتھ آکر روزی کمانے کی مشقت بھی اُٹھا۔ سیاست، عدالت صنعت و حرفت، تجارت و زراعت‘ قیامِ امن اور مدافعت وطن کی خدمتوں میں بھی برابر کا حصہ لے۔ ہماری سوسائٹی میں آکر ہمارے دل بھی بہلا اور ہمارے لیے عیش و مسرت اور لطف و لذت کا سامان بھی فراہم کر۔ یہ عدل نہیں ظلم ہے۔ مساوات نہیں صریح نامساوات ہے‘‘۔ (پردہ صفحہ 163)
مساوات کے یہی نعرے آج بھی عورتوں کے حقوق کی عَلم بردار این جی اوز سڑکوں پر پلے کارڈز اُٹھائے لگاتی نظر آتی ہیں کہ میں مرد سے کم درجے کے کام کیوں کروں۔ میں بڑی سماجی خدمات انجام دے سکتی ہوں تو گھر کے ’’ادنیٰ‘‘ کام کیوں کروں؟ سید مودودیؒ نے اس فریبِ نظر سے پردہ اٹھایا کہ مساوات کے نام پر تمہیں عدم مساوات کی کھائی میں دھکیل دیا گیا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے عظیم الشان لٹریچر چھوڑا مگر اس کے باوجود آپ محض ایک محقق، مصنف اور خطیب نہ تھے بلکہ آپ اقامتِ دین کی ایک عظیم الشان تحریک جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ آپ نے خواتین کے متعلق جن آراء کا اظہار کیا اور جس مطلوبہ کردار کی بات کی اپنی تحریک میں خواتین کو ان کے مطلوبہ مقام پر پورے عزت و وقار سے سرفراز فرمایا۔ بہنو! ہمارے اس کام میں عورتوں کی شرکت اور تعاون کی اتنی ہی ضرورت ہے۔ جتنی مردوں کی شرکت اور تعاون کی ہے۔ انسانی زندگی میں آپ برابر کی حصہ دار ہیں اور زندگی کے جو پہلو آپ سے تعلق رکھتے ہیں وہ ان پہلوئوں سے کسی طرح بھی اہمیت میں کم نہیں جو مردوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسلام جس خدا کی بندگی کی طرف بلاتا ہے وہ عورتوں کا بھی ویسا ہی خدا ہے جیسا مردوں کا ہے۔ وہ جس دین کو حق کہتا ہے وہ عورتوں کے لیے بھی ویسا ہی حق ہے‘ جس نجات کو مقصود قرار دیتا ہے اُس کی ضرورت عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی ہے جتنی مردوں کے لیے ہے‘ جس جنت کی امید دلاتا ہے وہ عورتوں کو بھی اپنی ہی کوشش سے مل سکتی ہے جس طرح مردوں کو اپنی کوشش سے۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ عورتوں اور مردوں کو یکساں اپنی اپنی نجات کی فکر ہو۔ ہر ایک دل و جان سے وہ خدمت بجا لائے جو اسے خدا کی سزا سے بچائے اور اس کے انعام کا مستحق بنائے‘‘۔ (خطاب اپریل 1947ء روداد جماعت اسلامی حصہ پنجم)
جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے جب اقامت دین کی اس تحریک پر لبیک کہا تو نہ صرف ان کی فکر، ان کا رہن سہن، ان کے سماجی تعلقات، ان کی ترجیحات کا تعین بدلا، ان کو زندگی کا مقصد ملا بلکہ انہوں نے مولانا کے لٹریچر سے اطراف کے ماحول پر بھی اَن مٹ نقوش مرتب کیے۔
انہوں نے ایک طرف اپنی ذاتی تذکیر کی فکر کی تو دوسری طرف اپنے حلقہ ہائے اثر کو بڑھایا اور اس روشنی سے منور کیا۔ اس طرح مولانا نے اپنے لٹریچر سے مردوں، عورتوں، جوانوں بلکہ پورے پورے خاندانوں کو نہ صرف شعوری اسلام کی طرف بلایا بلکہ ایک پاکیزہ لٹریچر کے ساتھ ایک پاکیزہ معاشرت بھی تشکیل کرکے دکھائی۔ آج ملک کے طول و عرض میں لاکھوں خواتین اقامت دین کی اس تحریک کا پرچم اٹھائے اپنے شعوری مسلمان ہونے کی گواہی دے رہی ہیں۔
الحمدللہ جماعت اسلامی 80 برس کا سفر طے کرچکی ہے۔ جس نے اس راستے کا انتخاب کیا وہ فوزعظیم کی راہوں کا یوں راہی بنا کے واپسی کی سب کشتیاں جلا دیں۔
آج خواتین کو جن چیلنجز کا سامنا ہے اس میں فکرِ مودودیؒ سے رہنمائی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ فکرِ مودودیؒ بنیادی طور پر فکرِ قرآنی ہے۔ وہ اس عہد کے مجتہد اور مفکر ہیں جو عصرِ حاضر کے تمام مسائل کا حل قرآن کی زبان میں پیش کرکے قرآن کو ایک زندہ کتاب ثابت کرتے ہیں۔
سید مودودیؒ کے وہ الفاظ جو زبان زد عام رہے کہ ’’قوت ڈھل جانے کا نہیں ڈھال دینے کا نام ہے‘‘۔
ضرورت ہے کہ ہم خواتین اپنی قوت کو پہچانیں اور اپنے خاندانوں اور اگلی نسلوں کو دجالی فتنوں سے بچانے کی فکر کریں۔
ہم خواتین پر سید مودودیؒ کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے گم کردہ راہوں کو اپنے لٹریچر کے ذریعے دوبارہ آشکارا کیا اور ہمیں زندگی کے مقصد و مشن سے روشناس کرایا۔
آسمان تری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگرانی کرے