منتخب غزلیں

1227

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
علامہ اقبال
ایک مرتبہ علامہ اقبال تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لکھنؤ گئے۔ اسی سفر کے دوران ہوا یوں کہ انہیں اردو کے مشہور فکشن رائٹر سید سجاد حیدر یلدرم کے ساتھ تانگے میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ دونوں حضرات پیارے صاحب رشید لکھنوی کے گھر پہنچے۔ دوران گفتگو اقبال نے اپنی یہ مشہور غزل انھیں سنائی اقبال کی اس غزل کو پیارے صاب رشید بڑی خاموشی سے سنتے رہے اور کسی بھی شعر پر داد نہ دی۔ جب وہ اپنی پوری غزل سنا چکے تو پیارے صاحب نے فرمایا،” اب کوئی غزل اردو میں بھی سنا دیجے۔ ” اس واقعے کو علامہ اقبال اپنے دوستوں میں ہنس ہنس کے بیان کرتے تھے۔ ۔ (Film: Dulhan ek raat ki (1966 حصہ سوم سے 1908ء( بانگ درا)بشکریہ ریختہ
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
…٭…
مولانا حسرت موہانی
عشقِ بُتاں کو جی کا جنجال کرلیا ہے
آخر یہ میں نے اپنا کیا حال کرلیا ہے
سنجیدہ بن کے بیٹھو اب کیوں نہ تم کہ پہلے
اچھی طرح سے مجھ کو پامال کرلیا ہے
نادم ہُوں جان دے کر، آنکھوں کو تُو نے ظالم
رو رو کے بعد میرے کیوں لال کرلیا ہے
تعزیز دل میں اتنی شدّت نہ کر جب اُس نے
خود جُرمِ عاشقی کا اِقبال کرلیا ہے
کیا کیا ہے شوق نازاں حسرت کہیں جو خوشبو
اُس کی جبینِ تر سے رومال کرلیا ہے
…٭…
فراق گورکھپوری
سر میں سودا بھی نہیں، دل میں تمنّا بھی نہیں
لیکن اِس ترکِ محبت کا بھروسہ بھی نہیں
دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اُس جلوہ گہہِ ناز سے اُٹھتا بھی نہیں
شکوۂ جور کرے کیا کوئی اُس شوخ سے جو
صاف قائل بھی نہیں، صاف مُکرتا بھی نہیں
مہربانی کومحبت نہیں کہتے، اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش بیجا بھی نہیں
بات یہ ہے کہ سکونِ دلِ وحشی کا مقام
کنجِ زنداں بھی نہیں، وسعتِ صحرا بھی نہیں
مدّتیں ہوئیں، تِری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور تمھیں بھول گئے ہوں کبھی، ایسا بھی نہیں
شکیل بدایونی
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
…٭…
جون ایلیا
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا اخلاص قربانی محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم
…٭…
بشیر بدر
یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلہ سے ملا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو جو سنا نہیں وہ کہا کرو
کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو
نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمیٔ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو
یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کر
…٭…
اشعار
ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی
ہوتی ہے دلبروں کی عنایت کبھی کبھی
ساحر لدھیانوی
…٭…
کم ہوئی بانگ جرس بھی یارب
ہم سے واماندہ کدھر جائیں گے
طالب علی خان عیشی

اشعار
مجھے خوشی کہ گرفتار میں ہوا تیرا
تو شاد ہو کہ ہے ایسا شکار اسیر مرا
قاسم علی خان آفریدی
…٭…
شراب ساقیٔ کوثر سے لیجو آفریدیؔ
یہ بادہ نوشئ دنیا ہے تجھ کو ننگ شراب
قاسم علی خان آفریدی

قتیل شفائی
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂ ارباب وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں
ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
…٭…
چیک کرلینا لگے نہ ہوں اور جو بچ جائیں محفوظ
…٭…
یہ سب سے پہلے انٹرو کے ساتھ ایسے ہی لگے گی ۔
…٭…
اشعار
بے سبب غنچے چٹکتے نہیں گلزاروں میں
پھر رہا ہے یہ ڈھنڈھورا تری رعنائی کا
ارشد علی خان قلق
اشعار
اگر نہ جامۂ ہستی مرا نکل جاتا
تو اور تھوڑے دنوں یہ لباس چل جاتا
ارشد علی خان قلق
اشعار
گھاٹ پر تلوار کے نہلائیو میت مری
کشتۂ ابرو ہوں میں کیا غسل خانہ چاہئے
ارشد علی خان قلق

اشعار
زمین پاؤں کے نیچے سے سرکی جاتی ہے
ہمیں نہ چھیڑئیے ہم ہیں فلک ستائے ہوئے
ارشد علی خان قلق

عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید
خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا
…٭…
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
…٭…
قیس ہو کوہ کن ہو یا حالیؔ
عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں
…٭…
یروشلم/نعیم صدیقی

یروشلم یروشلم تو ایک حریم محترم
تیرے ہی سنگ در پر آج منہ کے بل گرے ہیں ہم
تجھے دیا ہے ہاتھ سے بزخم دل بچشم نم
یروشلم یروشلم یروشلم یروشلم
…٭…

دلاور فگار
عجب اخبار لکھا جا رہا ہے
کہ منشا وار لکھا جا رہا ہے
لکھی ہے حال دل میں ہائے ہوز
یہ حال زار لکھا جا رہا ہے
کہیں گولی لکھا ہے اور کہیں مار
یہ گولی مار لکھا جا رہا ہے
میں رشتہ دار ہوں اس کا سو مجھ کو
سرشتہ دار لکھا جا رہا ہے
مزاج یار برہم ہے کہ اس کی
مجاز یار لکھا جا رہا ہے
سمندر پار پڑھنے جا رہا ہوں
سمندر پار لکھا جا رہا ہے
…٭…
ابن انشا
انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا
اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا
اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا
…٭…

اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا

تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں

میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا

مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر

راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا

ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا

اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا
ہنس کے بولا کرو بلایا کرو

آپ کا گھر ہے آیا جایا کرو

مسکراہٹ ہے حسن کا زیور

مسکرانا نہ بھول جایا کرو

حد سے بڑھ کر حسین لگتے ہو

جھوٹی قسمیں ضرور کھایا کرو

تاکہ دنیا کی دل کشی نہ گھٹے

نت نئے پیرہن میں آیا کرو

کتنے سادہ مزاج ہو تم عدمؔ

اس گلی میں بہت نہ جایا کرو

اتنا چپ چاپ تعلق پہ زوال آیا تھا

دل ہی رویا تھا نہ چہرے پہ ملال آیا تھا

صبح دم مجھ کو نہ پہچان سکا آئینہ

میں شب غم کی مسافت سے نڈھال آیا تھا

پھر ٹپکتی رہی سینے پہ یہ شبنم کیسی

یاد آئی نہ کبھی تیرا خیال آیا تھا

کہکشاں میرے دریچوں میں اتر آئی تھی

میرے ساغر میں ترا عکس جمال آیا تھا

اب نہ وہ ذوق وفا ہے نہ مزاج غم ہے

ہو بہو گرچہ کوئی تیری مثال آیا تھا

اکبر الہ آبادی کے منتخب اشعار
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
…٭…
عشق نازک مزاج ہے بے حد
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا
…٭…
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
…٭…
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
…٭…
جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر
ہنس کے کہنے لگا اور آپ کو آتا کیا ہے
…٭…
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
…٭…
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
…٭…
اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
…٭…
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
…٭…

میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ

بی.اے. بھی پاس ہوں ملے بی بی بھی دل پسند
محنت کی ہے وہ بات یہ قسمت کی بات ہے

لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے
نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے
۔۔
غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے
میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے
۔۔۔
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
۔۔۔
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
۔۔۔۔۔

حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے
۔۔۔۔
جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے
۔۔
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا

…٭…

حصہ