بارش کے ننھے قطرے شاہ زمان کے پژمردہ چہرے سے ٹکرائے۔ اس نے پریشان ہوکر آسمان کی جانب دیکھا۔ کالے بادل برسنے کو تیار تھے۔
’’یارب! آج بارش نہ برسانا، میں خالی ہاتھ گھر لوٹنا نہیں چاہتا۔‘‘ سخت محنت اور جفاکشی سے اس کے چہرے کی سلوٹوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اسی کی طرح کے بہت سے دیہاڑی دار مزدور شکن آلود بوسیدہ کپڑے، ہاتھوں میں بیلچے کدالیں اور دیگر اوزار تھامے چوراہے کے دائیں جانب قطار میں بیٹھے تھے۔
دو دن سے جاری بارش کے باعث سڑکیں اب تک پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ صبح بارش کے تھمتے ہی مزدور کام کی آس میں اوزار لیے اپنی مخصوص جگہ پر آبیٹھے تھے۔
’’بابا! مجھے پاکستان کا جھنڈا لا دو گے نا؟‘‘ اس کے کانوں میں اپنی اکلوتی معذور بیٹی کی آواز گونجی۔
’’اِن شاء اللہ… میں اپنی بیٹی کو پیارا پاکستانی پرچم ضرور لاکر دوں گا۔‘‘
آٹھ سالہ روشانے پیدائشی طور پر مہروں میں خلا کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور تھی۔ شاہ زمان اور اس کی بیوی گل رخ اللہ کی رضا سمجھ کر اپنی بچی کی دیکھ بھال دل و جان سے کرتے تھے۔ گھر میں غربت و افلاس کے ڈیرے ہونے کے باوجود صبر اور شکر سے زندگی پُرسکون تھی۔
بارش تیز ہوچکی تھی، مزدور مایوس ہوکر گھروں کو لوٹنے لگے۔ سب نے اس سے بھی چلنے کو کہا، مگر شاہ زمان برستی بارش میں بیٹھا رہا، نہ جانے اسے کون سی طاقت جکڑے ہوئے تھی!
’’بابا! آج آخری دن ہے، کل تو سب جشنِ آزادی منائیں گے… تم میرا پرچم کب لاؤ گے؟‘‘ ایک سوال پھر سے کانوں میں گونجا…آنکھوں میں بے بس، معذور بیٹی کے چہرے کا عکس لہرا گیا۔
تیز رفتار موٹر کار پانی اچھالتی چوراہے سے گزری۔ سڑک پر موجود کیچڑ اچھل کر اس کو سر سے پاؤں تک تربتر کرگئی۔
شاہ زمان پھر بھی نہ اٹھا۔ موسلا دھار بارش جاری تھی… بادلوں کی گرج سے دل ہول رہے تھے، سڑکیں ویران تھیں۔
نہ جانے کتنا وقت بیت گیا۔ گھر میں گل رخ ہاتھ اٹھائے پریشانی کے عالم میں دعائیں مانگ رہی تھی ’’اے مالک! میرے شوہر کی حفاظت کرنا، خیریت سے گھر لوٹانا۔‘‘
…٭…
کوئی اسے دیکھتا تو پاگل سمجھتا، یا پھر نشے میں بیٹھا مست ملنگ… پَر وہ تو آج نہ جانے کیسے جذب کے عالم میں تھا، سڑک کنارے بارش میں بھیگتا جاتا اور اپنے رب سے فریاد کرتا جاتا ’’میرے رب! میری پکار سن لے، مجھے روزگار دے دے… میں خالی ہاتھ گھر لوٹنا نہیں چاہتا… میرے پیارے رب! میری پکار سن لے۔‘‘ آبدیدہ آنکھیں، مضطرب دل اور لرزتی آواز… نہ جانے وہ کتنی دیر اس بے خودی کے عالم میں بیٹھا رہا۔
اچانک ایک موٹر سائیکل موڑ کاٹتے ہوئے بے قابو ہوکر پھسلتی ہوئی دور جا گری۔ موٹر سائیکل سوار اور اس کے بیوی بچے سب پانی میں گر گئے۔ شاہ زمان دوڑ کر اُن کی مدد کو لپکا۔
فٹ پاتھ کا کنارا لگنے سے آدمی کے سر پر چوٹ لگی تھی اور تیزی سے خون بہہ رہا تھا۔ عورت بدحواس تھی اور روتے ہوئے دونوں بچوں کو اٹھاکر فٹ پاتھ پر کھڑا کررہی تھی۔ لڑکی کی عمر تین سال اور لڑکا تقریباً نو سال کا ہوگا۔
شاہ زمان اس آدمی کو سہارا دے کر فٹ پاتھ پر لگے درخت کے نیچے لے آیا۔ عورت نے اپنی اوڑھی ہوئی چادر کا کونہ پھاڑ کر شوہر کے سر پر پٹی باندھی۔
شاہ زمان دور الٹی پڑی موٹر سائیکل اٹھا لایا۔ حادثے کے وقت اس شخص کا بٹوا بھی پانی میں گر گیا تھا، شاہ زمان نے وہ لاکر اس کے حوالے کردیا۔ دونوں میاں بیوی نے شاہ زمان کا شکریہ ادا کیا۔ کچھ دیر میں ان کے اوسان بحال ہوئے۔ اب بارش تھم چکی تھی۔
آدمی نے اسے بتایا کہ بچوں کی ضد پر یوم آزادی کے لیے جھنڈیاں خریدنے گئے تھے کہ واپسی پر تیز بارش شروع ہوگئی۔
بچے نے اپنے تھیلے سے ایک پیکٹ نکال کر شاہ زمان کو دیا۔ اس میں پاکستان کا خوب صورت سبز ہلالی پرچم تھا، اور کہنے لگا ’’انکل آپ بہت اچھے ہیں، کیا آپ میرے دوست بنیں گے؟ میری دادی کہتی ہیں اچھے لوگ دنیا میں بہت کم ہوگئے ہیں… جہاں بھی ملیں انہیں فوراً اپنا دوست بنا لو۔‘‘
حیرت زدہ شاہ زمان کبھی بچے کو اور کبھی پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو دیکھ رہا تھا، اتنی عزت اور احترام سے تو عرصے بعد کسی نے اسے پکارا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک گئے۔
بچے کے والد نے شاہ زمان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا ’’میرے بھائی! اشعر ٹھیک کہہ رہا ہے، آپ واقعی بہت اچھے ہیں، اس قدر خراب موسم کے باوجود آپ اپنے گھر والوں کے لیے روزی کمانے نکلے ہیں تو آپ یقینا بے حد ضرورت مند ہوں گے، آپ چاہتے تو میرا بٹوا رکھ سکتے تھے، ہمیں پتا بھی نہ چلتا، مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ میں ایک انجینئر ہوں، میری کمپنی کو آپ جیسے اچھے اور ایمان دار افراد کی ضرورت ہے۔ آپ کل ہی میرے دفتر آکر ملیے گا۔‘‘
اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ پیارے رب نے دل سے نکلی دعا اتنی جلدی قبول کرلی… احساسِ تشکر سے اس نے آسمان کی جانب نگاہیں اٹھائیں۔
بادلوں کی زوردار گرج سنائی دی، پَر اب ان بادلوں کی گرج شاہ زمان کو خوشیوں بھری شہنائی لگ رہی تھی۔