ذرائع ابلاغ کو افراد کی ذہنی نشوونما‘ سیاسی بصیرت‘ سماجی شعور کی بیداری اور کردار سازی بالخصوص رائے عامہ کی تشکیل میں ہمیشہ سے بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ذرائع ابلاغ نے عوام میں سماجی اور سیاسی شعور بیدار کیا اور اشاعت ِ اسلام‘ نظریاتی تحفظ‘ قومی یک جہتی اور سالمیت کے فروغ اور ناخواندگی کے خاتمے کے لیے بھی قابل قدر خدمات سرانجام دیں لیکن بدقسمتی سے آج میڈیا مغرب کی نقالی کرتے ہوئے مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل میں مصروف ہے۔
آج ذرائع ابلاغ کی غلط روش کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل اپنے آپ سے بے خبر نہ ختم ہونے والی مادّی خواہشات کی تکمیل میں اپنی زندگی کا مقصد بھول گئی ہے‘ ہمارے ملک میں بے روزگاری کا تناسب بڑھا ہوا ہے اور جب یہ نوجوان طبقہ میڈیا پہ پیسہ کمانے کے غلط طریقہ دیکھتے ہیں تو اسے حاصل کرنے کی جہد میں اپنے ضمیر کا سود کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
پاکستان کے آئین اور قانون میں فحاشی کو پھیلانے کی ممانعت اور ایساکرنے والوں کے لیے سزائیں مقرر ہیں مگر افسوس آئین اور قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے دن رات ذرائع ابلاغ کھلم کھلا بے حیائی کا پرچار کرنے میں مصروف ہیں اور کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔
ہمارا میڈیا ایسا ہونا چاہیے جہاں عقل و دانش کے پھول کھلیں‘ ایسا چراغ ہو جس سے لاتعداد چراغ روشن ہوں‘ ایسا آبِ حیات ہو جو قوم کو زندگی بخشے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ نسلی اور مذہبی اختلافات مٹانے اور علاقائی وصوبائی تعصب ختم کرنے‘ نفرت‘ محاذ آرائی اور کشیدگی کی فضا ختم کرکے قوم‘ ملت اور اسلامی بھائی چارے کا تصور اجاگر کریں‘ انہیں وقت کے تقاضوں کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق پورا کرنا ہوگا۔