عورت کی حیا اور اس کا کردار

184

میں آج کی عورت ہوں‘ میں وہ عورت ہوں جو بیٹی ہے‘ بہن ہے‘ بیوی ہے اور پھر ماں ہے۔ وہی عورت جسے رب نے تخلیق آدم کے ساتھ ہی کائنات کی ایک اہم ضرورت ہی نہیں بہت بڑی نعمت کے طور پر اس دنیا میں اتارا۔
معاشرہ کی تعمیر میں عورت کا کیا کردار ہونا چاہیے‘ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوچھا جارہا ہے کہ کیا معاشرے کی تعمیر میں مسلمان عورت کا کوئی عمل دخل اور ذمے داری ہے؟ اگر سوال یہ ہے تو اس کا جواب نہ صرف ہاں میں ہے بلکہ واقعہ یہ ے کہ عورت کا تو وجود ہی خود ایک بڑا کردار ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے میرے اردگرد کے ماحول میں ہر سال شور اٹھتا ہے‘ 8 مارچ عالمی یوم خواتین‘ خوب محفلیں سجتی ہیں‘ کانفرنس منعقد ہوتی ہیں‘ سیمینارز ہوتے ہیں‘ میڈیا پر حقوق نسواں کا پرچار کرنے والی این جی اوز زوروشور سے اپنے اپنے خیال کا اظہار کرتی ہیں اور 8 مارچ گزر جاتا ہے۔ ہر دن کی طرح‘ ہر شب کی طرح اور مٹی کی عورت آج بھی وہیں کھڑی ہے۔ خوف زدہ‘ بے اماں‘ مجسم سوال…لیکن میں وہی عورت ہوں جس نے برائی کو خود نمائی اور نظریۂ ضرورت کی شکل دے دی‘ وقت کی ضرورت فیشن کے نام پہ ہی اپنے ہاتھوں اپنی عزت و عصمت کی پامالی کی جس کی ضرب آج میرے اپنے خاندان پر لگی ہے۔
جب خواتین ہاتھوں پر پلے کارڈ اٹھائے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لیے میدان میں کود پڑیں۔ اے عورت تجھے دیکھ کر مرد کو ادب سے نظریں جھکانے کا حکم دیا گیا ہے نگاہ نیچی کر لو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادیاں آرہی ہیں نگاہ نیچی کر لو‘ فاطمہ کی بیٹی آرہی ہے‘ نگاہ نیچی کرلو‘ عائشہ کی بیٹی آرہی ہے اے عورت تُو تو عزت کے مقام پہ بٹھائی گئی ہے۔

حصہ