ریڈ مودودی ؒ پراجیکٹ

386

یہی تھے پاسباں جو کل حرم سے باوفا ٹھہرے
یہی اہل محبت آج بھی دردِ آشنا ٹھہرے
ادارہ نور حق میں ریڈ مودودی پراجیکٹ کی جانب سے ہونے والے مقابلہ مضمون نویسی و مصوری کے تقسیم انعامات و اسناد کی بہت ہی خوب صورت محفل سجائی گئی جس میں تمام پوزیشن ہولڈرز کو ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں امیر جماعت اسلامی کراچی جناب حافظ نعیم الرحمن صاحب کے ہاتھوں بہترین انعامات و اسناد سے نوازا گیا۔
یہ تقریب کیا تھی گل و گلزار محفل تھی جہاں بہت سی جانی پہچانی اور ادبی شخصیات بھی مدعو تھیں جن میں سید مودودیؒ لائبریری کے بانی جناب حافظ غلام سرور، ریڈ مودودیؒ پراجیکٹ کا خیال پیش کرنے والے ڈاکٹر آفاق اختر، نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر محمد واسع شاکر، چیف ایڈیٹر روزنامہ جسارت و مصنف جناب شاہنواز فاروقی و دیگر شامل تھے۔ جبکہ حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی کراچی مہمان خصوصی تھے۔
پروگرام کا آغاز سورہ یاسین کی روح پرور تلاوت سے کیا گیا اور پھر نعت رسول مقبولؐ نے تو جیسے سماں باندھ دیا:
نام احمد یہ وہ نام ہے جو اگر
بے ارادہ بھی منہ سے نکل جائے گا
راہ کے سنگریزے بکھر جائیں گے
اہل بے درد کا دل پگھل جائے گا
پروگرام کا باقاعدہ آغاز ڈاکٹر واسع شاکر نے ابتدائی کلمات کے ساتھ ’’ریڈ مودودی پورٹل‘‘ کے تعارف سے کیا۔ اس کے بعد اعظم طارق کوہستانی نے ریڈ مودودیؒ پراجیکٹ کی تفصیلات بیان کیں۔
ریڈ مودودی پراجیکٹ دراصل ہے کیا؟
عصرِ حاضر کے عہد ساز مفکر و رہنما سید ابو الاعلیٰ المودودیؒ جن کی کتب کے آج کی دنیا میں کتنی ہی زبانوں میں ترجمے ہوئے، ان کا لٹریچر عام کرنے کے لیے کتنی ہی کوششیں کی گئیں۔ ان کا حق و صداقت کا پیکر بن جانا اور اس کی خاطر اپنی سوچ، فکر، زباں اور قلم کو اس راہ پر لگا دینا اور پھر اس معاملے میں لوگوں کی تنگ نظری۔
ایسے میں کسی ایسے پراجیکٹ کی تشکیل ضروری تھی جہاں سید مودودی ؒ کے تمام مواد کو یکجا کیا جائے اور عوام تک اس کی رسائی ممکن بنائی جائے۔ ریڈ مودودی پورٹل ایک ایسا ہی جیتا جاگتا خواب ہے جو سب سے بڑے پورٹل کی صورت مودودیؒ کو دنیا کے قریے قریے تک تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔
’’ریڈ مودودی‘‘ کا مشن کیا ہے؟
اس کا مشن ہے سید مودودیؒ کے حوالے سے دنیا کے سب سے بڑے پورٹل کا قیام۔
اعظم طارق کو ہستانی نے مزید بتایا کہ سید مودودیؒ کا کام دین و سیاست دونوں میں بے حد مقبول ہے اور اس کو یکجا کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے ’’ریڈ مودودیؒ‘‘ کے نام سے ایک بڑا پورٹل لانچ کیا گیا ہے جہاں مودودیؒ کا سارا مواد جس میں کتب ، کتابچے، مضامین ، آڈیو لیکچرز ، ویڈیو سیشنز، تبصرے ، اثرات ، مقابلے وغیرہ سب کچھ اس ایک ویب سائٹ کے لنک پر اکھٹا کیا ہے اور کیا جا رہا ہے۔
اس کے بعد ریڈ مودودیؒ کا خیال پیش کرنے والے ڈاکٹر آفاق اختر نے گفتگو کی اور بتایا کہ کیسے وہ مودودیؒ کی کتب پڑھ کر ان کے قریب ہوتے گئے اور اب وہ دوسروں کو اس کی ترغیب دینے کے لیے اس پراجیکٹ پر کام کروا رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ سید مودودیؒ مشرق کی طرح مغرب میں بھی بہت مشہور ہیں، ان کے مرتب کردہ تفہیم القرآن اور لٹریچر پر تھیسز تیار کیے جاتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی ان کتب سے فائدہ اُٹھانا چاہیے اور اپنی سوچ اور تحریک کو مزید توانا کرنا چاہیے۔ پورٹل یا ویب سائٹ بظاہر ایک چھوٹی سی چیز ہے جو ایک کلک پر مہیا ہوجاتی ہے لیکن اس کے پیچھے ایک بڑی محنت ہوتی ہے، دن رات کی لگن ان چیزوں کو ممکن بناتی ہے۔
شاہنواز فاروقی نے اپنی گفتگو میں اہم باتوں پر توجہ دلائی۔ اُنھوں نے کہا کہ مسلمانوں نے تاریخ میں جو بھی کارنامے انجام دیے ان کی دو بنیادیں ہیں ایک تو تقویٰ کہ انسان کی زندگی تقویٰ کے بغیر کچھ نہیں۔ جس شخص کے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت کا عنصر موجود ہو وہ متقی ہے اور جس شخص میں تقویٰ ہوتا ہے وہ قیادت کرتا ہے۔ جس شخص کے قلب میں تقویٰ موجود ہوتا ہے وہ قلوب کو مسخر کرتا ہے۔ ہمیں سید مودودیؒ کے کردار میں تقویٰ نمایاں نظر آتا ہے۔ دوسری بات علمی قابلیت پر کی کہ انسان کو اللہ نے علم کی طرف اُبھارا ہے۔ مسلمانوں کی علمی قابیلیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کیوں کہ علم اذہان کو مسخر کرتا ہے۔ سید مودودیؒ کے لٹریچر میں ہمیں یہ دونوں بنیادیں گندھی ہوئی ملتی ہیں۔ مزید یہ کہ سید مودودیؒ پر لکھنا آسان نہیں۔ اُنھوں نے اپنے احساسات، تجربات اور علم دوسروں تک پہنچایا۔
شاہنواز فاروقی کی پوری گفتگو میں ایک جملہ بہت ہی معنی خیز تھا او روہ تھا۔Read to Lead ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص پڑھتا ہے وہی زمانے کی قیادت کرتا ہے۔ آج کے دور میں لکھنے والے موجود ہیں لیکن پڑھنے والے ناپید ہیں۔ ہم کتابیں خریدتے ہوئے کتراتے ہیں جب کہ مہنگے جوتے خریدتے ہوئے ہمیں کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
یاد رہے کہ علم ہی ہے جو شخصیت کو نکھارتا ہے۔ اسی لیے مولانا مودودیؒ سے متعلق بنائے گئے پورٹل کو عام کرنے کی اور اس کے ساتھ جڑنے کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد حافظ نعیم الرحمن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ریڈ مودودی پراجیکٹ سے منسلک لوگوں کو سراہا اور کہا کہ سید مودودیؒ کی کتب بینی کرواکر مقابلہ کرانا وقت کی ضرورت ہے جس سے سید مودودیؒ کو پڑھنے کا رجحان بڑھے گا۔ آخر میں انعامات تقسیم کیے گئے اور یوں یہ محفل اختتام پذیر ہوئی۔
بظاہر یہ ایک چھوٹا سا مقابلہ تھا جس کے اعزاز میں یہ تقریب رکھی گئی تھی لیکن میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا اور مجھے فخر محسوس ہوا کہ میں نے سید مودودیؒ کے لیے لکھا‘ ان کو پڑھا اور مضمون کی شکل دی۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس ریڈ مودودیؒ پراجیکٹ کو ایسے ہی کامیابیاں دے اور کام کو آسان کرے۔ آمین۔

حصہ