منیر نیازی کا انٹریو

261

طاہر مسعود: آپ کن بنیادوں پر الزام عائد کرتے ہیں کہ گلڈ نے کوئی کام نہیں کیا؟
منیر نیازی: میں پوچھتا ہوں کہ آخر گلڈنے کام ہی کون سا کیا ہے؟ ہم انفرادی طور پر کوششیں کرتے رہے کہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر شاعروں کا معاوضہ بڑھا دیا جائے لیکن رائٹرز گلڈ نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر گلڈ کام کرتی تو ادیبوں کو کتابوں کی رائلٹی ملتی‘ ان کے مالی معاملات حل ہوتے۔ غرض کہ چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں جن سے مسئلہ حل ہوسکتا تھا۔
طاہر مسعود: اب ادیبوں کے مسائل کس طرح حل ہوں گے؟
منیر نیازی: جو بھی آئے گا اسے تباہ کر دیں گے‘ وہ بہت طاقت ور ہیں‘ ان کا گروپ مضبوط ہے‘ انہوں نے کالم نگاروںکو اپنا ہم نوا بنایا ہوا ہے۔ فرض کرو وہ ایک کالم نگارمیرے مؤقف کو درست تصور کرتاہے لیکن وہ اسے ادیب کے کھاتے میں پلاٹ دے دیتے ہیں تو وہ ان کے خلاف کیسے لکھے گا۔ انہوں نے تو پلاٹ بھی کسی اصل آدمی کو نہیں دیا۔ ٹیکسٹ بک بورڈکی کتابیں انہیں لاکھوں میں ریٹرن دیتی ہیں۔ ان کا پریس چلتاہے۔ انہوں نے اپنا امیج بنایا ہوا ہے جیسے وہ رائٹرزکے سردار ہوں اس لیے وہ جہاں بھی جاتے ہیں ان کی آئو بھگت ہوتی ہے‘ ان کی بات سنی جاتی ہے لیکن انہیں جہاں معلوم ہوگا کہ منیر نیازی کا کہیں رتبہ بن رہا ہے‘ وہ وہاں پہنچ جائیں گے۔
طاہر مسعود: رائٹرز گلڈ کو اکیڈمی آف لیٹرز میں ضم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے آپ کے ذہن میں کیا تھا؟
منیر نیازی: ہو سکتا ہے آگے چل کر اکیڈمی لیٹرز بھی ویسی ہی بن جائے لیکن میں ایک بات جانتا ہوں کہ اکیڈمی آف لیٹرز میں جو ایک شخص شفیق الرحمن ہے اس نے پبلشرز کے پہنچائے ہوئے دکھ جھیلے ہیں۔ اس کی کتابیں بیسٹ سیلرز رہی ہیں لہٰذا اسے یقینا ادیبوں سے ہمدردی ہوگی۔ میں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ تسلیم شدہ ادیبوں کی ایک بزمِ مشاورت بنا دی جائے اور پھر ادیبوں کے ویلفیئر کے بارے میں سوچنے اور فیصلہ کرنے کی ذمہ داری اس بزم مشاورت کو سونپ دی جائے۔ پھر دیکھتے ہیں حالات کیسے نہیں بدلتے ہیں۔
طاہر مسعود: لیکن کیا اس پوری لڑائی میں آپ تنہا ہیں؟
منیر نیازی: میں شروع سے ہی تنہا تھا وہ تو اسٹرٹیجی بنا کر آدمی کو تباہ کرتے ہیں۔
طاہر مسعود: کیا وہ کبھی دوستی کی بات نہیں کرتے؟
منیر نیازی: وہ مصالحت اور سمجھوتے کی بھی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’منیر آئو ہم لڑکپن میں لوٹ چلیں۔‘‘ لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ نہایت سنگ دل ہیں۔
طاہر مسعود: ادب کے سنجیدہ قارئین کا ایک بڑا حلقہ اکثر اس امر پر حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ آپ کو آج تک کوئی ادبی ایوارڈ نہیں دیا گیا جب کہ آپ سے کم تر درجے کے شعرا اس کے مستحق قرار پائے‘ اس پر آپ کا کیا تبصرہ ہے؟
منیر نیازی: میری شاعری کا پہلا مجموعہ ’’جنگل میں دھنک‘‘ شائع ہوا جس کی آج بھی تعریفیں کی جاتی ہیں‘ میں نے اس کتاب کو مقابلے کے لیے بھیجا تھا کیوں کہ ہمیں بھی شوق ہے چاہے جانے کا‘ تسلیم کیے جانے کا۔ لیکن اس برس کہا گیا کہ شاعری کی کوئی اچھی کتاب مقابلے کے لیے آئی ہی نہیں اور اس کے مقابلے میں ’’تلاش بہاراں‘‘ کو ایورڈ دیا گیا جو قرۃ العین حیدر کے ناولوںکا بھدا عکس تھا۔ اس کے بعد میں نے بیان دیا کہ میں کبھی اپنی کتاب انعام کے لیے نہیں بھیجوں گا اور میں گلڈ سے مستعفی ہوتا ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں جو کچھ بھی گفتگو کرتا ہوں‘ اس کے سب ہم نوا ہو جاتے ہیں کیوں کہ لوگوں کے اندر سچائی موجود ہے لیکن اگر کسی کو پلاٹ مل جائے تو وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ پچھلے دنوں میں اور فیض سیالکوٹ سے آرہے تھے۔ جمیل الدین عالی بھی ساتھ ہو گئے۔ راستے میں عالی مجھے ایوارڈ ملنے کے بارے میں وضاحتیں پیش کرنے لگے اور کہنے لگے ’’منیر! آپ فیض صاحب سے پوچھیں یہ منصفین میں شامل تھے‘ آپ کو ایوارڈ نہ دینے میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ہے۔‘‘
طاہر مسعود: اگر آپ کو ایورڈ نہ دینے میں کوئی دھاندلی ہوئی ہے اور منصفین میں فیض صاحب بھی شامل رہے ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دھاندلی میں فیض صاحب بھی شریک رہے ہیں؟
منیر نیازی: فیض لاتعلق آدمی ہے اور رائٹرز گلڈ کے زعما منصفین کی کمیٹی میں فیض اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کو شامل کرکے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ منصفین مقابلے کے لیے آنے والی کتابوں کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے جس کی مثال یہ ہے کہ میرزا ادیب نے جو منصفین کی کمیٹی میں شامل رہے ہیں‘ ایک ایسے مصنف سے اس کی کتاب پڑھنے کے لیے مانگی جس کی کتاب مقابلے میں شریک تھی۔ اس مصنف نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب میرزا ادیب نے کتاب ہی نہیں پڑھی تو انعام دینے کا فیصلہ کیسے کیا؟
طاہر مسعود: آپ کی کتاب کو ایوارڈ نہ ملنے پر کسی حلقے نے کوئی احتجاج نہیں کیا؟
منیر نیازی: کسی کو کیا غرض ہے کہ وہ منیر نیازی کے لیے کام کرے۔ ہر شخص اپنے سیکٹرکے لیے کام کرتا ہے۔
طاہر مسعود: لیکن فیض صاحب جو زیادتی اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں‘ کیا انہیں اپنے اردگرد ہونے والی زیادتیوں کا احساس نہ تھا؟
منیر نیازی: میں نے کہا نا کہ فیض صاحب کو علم ہی نہیں ہوا کہ ان کے ساتھ کون سا گیم کھیلا گیا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم ایک Sadist معاشرے میں جی رہے ہیں‘ کوئی ہم پر براہِ راست حملہ کرتا ہے اور کوئی عدم توجہی سے مارتا ہے۔
طاہر مسعود: آپ پر ایک الزام یہ ہے کہ آپ اپنے بارے میں بہت تعلی سے کام لیتے ہیں اور خود پسند بھی ہیں‘ آپ کا اپنا خیال ہے؟
منیر نیازی: میری پنجابی غزل کا ایک شعر ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے ’’ہم ناآشنا لوگوں میں گم ہو جاتے ہیں لیکن ہماری خود پسندی ہم کو بچا لے گی۔‘‘ یعنی ہماری خود پسندی ہمارا دفاعی ہتھیار ہے۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارے دشمن ہمیں اپنا جیسا بنا لیں گے اور پھر ہمارے بارے میں اس نوع کی باتیں پھیلانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا امیج تباہ کیا جائے۔
طاہر مسعود: لیکن اگر شاعر تعلی اور خود پسندی سے کام لینا شروع کر دے تو معاملات گڑبڑ نہیں ہو جائیں گے؟
منیر نیازی: خود پسندی کا شکار صرف وہی ہو سکتا ہے جو اس کا اہل ہو۔ یہ سیلف ڈیفنس میکانزم ہے اور حساس آدمی اپنی جان بچانے کے لیے سب کچھ کرتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی چھوٹا آدمی بڑے آدمی کی توہین کرے۔ ہم نے شاعروں کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا ہے کوئی ترقی پسند شاعر ہے‘ کوئی داخلیت پسند ہے‘ کوئی انقلابی شاعرہے اور کوئی عوامی۔ حالاں کہ یہ سب غلط ہے۔ شاعر صرف شاعر ہوتا ہے۔ باقی معذرتیں ہیں۔ شاعر اپنا وژن پیش کرتا ہے اور ایک نیا جہان پیدا کرکے دکھاتا ہے۔
طاہر مسعود: دیکھنے میں آیا ہے کہ ادیب چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ افتخار جالب گروپ‘ انتظار حسین گروپ‘ سلیم احمد گروپ‘ قمر جمیل گروپ‘ وزیر آغا گروپ وغیرہ۔ ادیبوں کی اس گروپنگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہیں۔ کیا یہ ادب کے حق میں مفید یا نقصان دہ ہے؟
منیر نیازی: مجھے اپنا گروپ بنانے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ تم آگئے ہو تو مجھے ایسا لگتاہے کہ تم میرے گروپ کے ہو۔ صابر ظفر میرے پاس بیٹھا ہے۔ اسے دیکھتا ہوں تو یہ بھی مجھے اپنا گروپ اور اپنے قبیلے کا آدمی محسوس ہوتا ہے۔ گوپی چند نارنگ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بھارت سے صرف منیر نیازی کی تعریف کرنے پاکستان آئے ہیں۔ بھارتی قونصل جنرل کے دفتر میں تقریب ہوئی نارنگ نے تقریر کرتے ہوئے کہا ’’مجھے نہیں معلوم کہ منیر کے ساتھ پاکستان میں کیا سلوک ہو رہا ہے لیکن بھارت میں تو وہ دیوتا کی طرح ہے۔‘‘
طاہر مسعود: ادیبوں کے مختلف گروپوں میں یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کون سا گروپ درست ہے اور کون سا غلط؟
منیر نیازی: کیا تم نہیںجانتے۔ آخر تم نے اس گروپنگ کی شناخت کیسے کی اور تمہیں یہ بھی پتا ہے کہ سچا شاعر کون ہے۔ یہ صرف تمہارے دل میں ہے۔ شاعر اور گروپوں کی پہچان صرف دل سے ہوتی ہے۔
طاہر مسعود: لیکن ادب میں اس گروپنگ کو جو خالصتاً فکر اور ایپروچ کی بنیاد پر تشکیل پائے یعنی چند ہم خیال ادیب جمع ہو کر اپنا گروپ بنا لیں تو کیا اسے بھی غلط کہا جائے گا؟
منیر نیازی: یہ تو خیر خاندان کا معاملہ ہے‘کوئی سودا کی تعریف کر رہا ہے اور کوئی میر کو بڑا بنا رہا ہے جیسے شیر کے بچے ایک دوسرے کو کاٹتے اور آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ ایک خیال کو جب پیکر میں ڈھلنا ہے تو چھوٹے چھوٹے تصادم تو ہوں گے۔ (فرش پر چہل قدمی کرتے ہوئے) میرے دل میں سب سے پہلے غلیظ آدمی کے خلاف بے زاری کا ردعمل ہے۔ ایسی چیزوں کو دیکھ کر میرے اندر کراہیت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اگر میں قطرے میں دجلہ دیکھوں تو لگتاہے پورا معاشرہ ہی ایسا ہے جس میں ایک عیار آدمی دوسرے آدمی کا حق کھا جاتا ہے۔
طاہر مسعود: معاشرے کو غلاظت سے پاک کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا؟
منیر نیازی: یہ پیغمبرانہ کام ہے اورمیں اس کا اہل نہیں ہوں۔ جی میں تھا کہ ایسا کروں لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ ایڈمنسٹریشن اور منتظمین کے فرائض فکر کے رویے میں خلل انداز ہوتے ہیں۔ Tense آدمی فائٹر بن جاتا ہے جب کہ ہمیں متشدد سوسائٹی کو نارمل کرنا ہے۔ جب میرے خلاف کالم لکھے گئے تو میرا جی چاہتا تھا کہ میں بھی کالم لکھوںلیکن ان سے لڑنے میں میرا کیا فائدہ تھا۔
طاہر مسعود: فیض احمد فیض نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ شعری کو سیاست سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا‘ آپ کیا سوچتے ہیں؟
منیر نیازی: فیض نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ شاعر سوسائٹی کا حصہ ہے۔ اسے ایک بے ہیئت معاشرے کو ہیئت دینا ہے۔ ویسے میرے نزدیک انقلابی شاعری بے معنی ہے۔ شاعری کا مطلب نیک دلی ہے یعنی انقلاب بھی لاتا ہے تو رحم سے اور خوب صورت طریقے سے اور اگر خون بہانے کی ضرورت پیش آئے تو بالکل آخری حد پر۔ شاعر جمالیاتی طریقے سے انقلاب لاتا ہے تاکہ خون نہ بہے۔ مجھے بھی اس ظالم معاشرے سے نفرت محسوس ہوتی ہے اور اسی لیے میں نے اپنے شعر میں کہا ہے کہ:
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اُڑا دینا چاہیے
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں اس وقت پاکستان میں شاعری کی دیوی سب سے زیادہ کس پر مہربان ہے؟
منیر نیازی: کبھی کبھی میں سوچتا ہوں میں ہی اکیلا ہوں۔ پھر سوچتا ہوں کہ شاید سب ہی اپنی اپنی سطح پر کچھ لکھ رہے ہیں‘ پیدا کر رہے ہیں۔ مشرقی پنجاب سے پچھلے دنوں ایک سکھ آیا اور کہنے لگا کہ ’’منیر نیازی صاحب! آپ نے دو نسلیں خراب کر دی ہیں۔‘‘ میں نے کہا کہ آپ اس طرح کیوں سوچتے ہیں کہ صرف میں بول رہا ہوں‘ سب بول رہے ہیں۔ میں تو ایک خوب صورت خیال پیدا کر رہا ہوں۔ آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ میں نے نسلیں کھا لی ہیں‘ میری ایک نظم ہے ’’ہر مکھ پر خوب صورتی کا مقام‘‘ جس کا پہلا مصرع ہے کہ:
ہر کسی کے چہرے میںایک ضیا سی ہوتی ہے
طاہر مسعود: بعض شاعر بہ حیثیت شاعر اہم نہیں ہوتے لیکن انہیں شہرت بہت ملتی ہے‘ ان میں خصوصاً سیاسی موضوعات پر لکھنے والے شعرا قابل ذکر ہیں مثلاً حبیب جالب۔
منیر نیازی: سب نقلی ہے۔ ہر پولیٹیکل پارٹی کو ایک ترجمان کی ضرورت ہوتی ہےاور وہ اس مقصد کے لیے شاعروں کو استعمال کرتے ہیں (تھکے ہوئے لہجے میں) ان دنوں میں ایک غم میں ہوں۔ میرے عذاب کو شیئر کرو۔ مجھے پے در پے شکستیںہوئی ہیں۔ میرے آس پاس موت اور بیماریاں ہیں‘ میں تھک سا گیا ہوں۔ تم نے دیکھا نا کہ میں پچھلے برس کے مقابلے میں مضمحل ہو گیا ہوں۔ مجھے ہر چیز کی نفی کرنے والا اور ایجی ٹیٹر کی حیثیت سے پینٹ کر دیا گیا ہے۔ بڑے ظالم لوگ ہیں۔ دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ اکیلا آدمی ہوں۔ کبھی کبھی گھبرا جاتا ہوں‘ سوچتا ہوں کہ اگر کسی کو رہبر بنا لیتا تومحفوظ رہ جاتا۔
طاہر مسعود: کسی کو رہبر کیوں نہیں بنایا؟
منیر نیازی: میری ایک پنجابی نظم ہے جس میں‘ میں نے کہا ہے کہ رہبروں کے بنا چلنا کٹھن کام ہے لیکن اگر رہبر بنا لیتے تو گم ہوجاتے۔ (رک کر) کاش کسی ہاتھ پر بیعت کر لیتے۔ (ہنس کر):
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
طاہر مسعود: آپ کا ذریعہ آمدنی کیا ہے؟ گو شاعر سے اس کا ذریعہ آمدنی دریافت کرنا نہایت بد مذاقی کی بات ہے۔
منیر نیازی: میں نے مختلف کام کیے ہیں۔ ابتدا میں صحافت کی لیکن جب محسوس ہوا کہ رسالے کی پالیسی حاوی ہونے لگی ہے تو میں نے اسے خیرباد کہہ دیا۔ میں نے فلموں کے لیے گیت لکھے لیکن جب فلم پروڈیوسر کہنے لگا کہ ’’اُف اللہ اور ہائے اللہ‘‘ لکھوں تو میں نے فلمی گیت لکھنے چھوڑ دیے۔ اب دوستوں کی مہربانی سے سابق وزیر اطلاعات و نشریات نے ٹیلی ویژن پر اعزازی ملازمت دلا دی ہے جہاں سے مجھے پندرہ سو روپے ماہانہ ملتے ہیں جس میں 743 روپے ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کو دے دیتا ہوں۔ میں ایک مکان تعمیر کر رہا ہوں‘ جو ادھورا ہے‘ اس کے پیچھے ویرانی ہے۔ میں ایک باغ بنانا چاہتا ہوں جس میں صرف گلاب کے پھول کھلے ہوں لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میں بیمار ہو جائوں دوائی کے لیے پیسے نہیں لا سکتا۔ حنیف رامے نے اپنے دور حکومت میں دوسرے ادیبوں کے ساتھ مجھے بھی ایک مربع زمین دی تھی۔ دوسروں نے اپنی زمینیں بیچ ڈالیں۔ میں سوچتا ہوں اس میں کلچرل سینٹر بنائوں گا لیکن موجودہ حکومت نے یہ زمین بھی واپس لے لی اور مجھ سے کہا کہ ثابت کیجیے کہ یہ زمین آپ نے سیاسی دبائو سے حاصل نہیں کی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ یہ تو آپ ثابت کریں۔ حکومت نے کہا اگر انصاف چاہتے ہیں تو اپیل کریں۔ میں نے کہا میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ بتائو مجھ سے کتنا غلط سوال کیاگیا۔ اس پر میں نے کہا:
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ یہیں آجائوں اور ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کھول لوں اور پھر ہم عجلت سے پیسے جمع کریں۔ خوب اچھا سا مکان بنائیں۔ (قہقہ لگا کر) اور عجلت پسند ادیبوں کا ایک گروہ اکٹھا کریں۔
طاہر مسعود: ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لیے آپ کیا اقدامات تجویز کرتے ہیں؟
منیر نیازی: اگر سنجیدگی سے اقدامات کیے جائیں تو رائٹرز کی بنیادی ضروریات آسانی سے فراہم کی جاسکتی ہیں‘ مثلاً افسانہ نگاروں کی کہانیوں اور شاعروں کی نظموں کے کیسٹ تیار کیے جائیں۔ ریڈیو سے کہا جائے کہ آپ نے مشاعرے میں شاعر کا معاوضہ صرف ایک سو روپے رکھا ہے اسے پانچ سو روپے کریں۔ ان پبلشروں کی گردنیں پکڑی جائیں جو کتابیں چھاپ چھاپ کر خود لکھ پتی بن گئے ہیں اور بے چارہ ادیب قلاش ہے۔ میرا ایک پبلشر جسے میری کتابیںچھاپتے ہوئے اکیس برس ہو گئے ہیں مجھ سے ملا اور کہنے لگا خدا آپ کی عمر خضر سے دراز کرے۔ اگرآپ کا انتقال ہو جائے تو بھی پچاس ساٹھ سال تک آپ کی کتابوں کے جملہ حقوق میرے نام محفوظ رہیں گے۔ اس پبلشر نے دس سال قبل میری کتاب چھاپنے کے مجھے پانچ سو روپے دیے تھے اور اب وہ لاکھوں میں کھیل رہا ہے۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وکیل کرکے اس کے خلاف مقدمہ لڑوں اور اس سے اپنے پیسے نکلوائوں۔ آخر رائٹرز گلڈ ان زیادتیوں کے خلاف کوئی نہیں لڑتا اور کوئی لڑے بھی کیوں‘ یہاں تو سیاست ہو رہی ہے۔ گوپی چند نارنگ آئے تو لاہور ٹیلی فون کیا گیا کہ گوپی چند آرہا ہے‘ اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا اور لاہور میں گوپی چند کے استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں کسی کو سچے شاعروں اور ادیبوں کی ویلفیئر کا بھلا کیا خیال آسکتا ہے؟

حصہ