بچے ہمارا مستقبل ہیں اور دنیا کی عقلمنداور باشعور قومیں اپنے اس سرمائے کی سب سے زیادہ قدر کرتی ہیں۔کیونکہ آج کا بچہ کل کا مفید شہری ہے ۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے ہمارے ہاں صورتِ حال بہت اچھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر افتخار کھوکھر بچوں کے ادیب ہیں۔ آپ کی بچوں کے ادب پر تقریباً پچاس کتابیںشائع ہوچکی ہیں۔
میں نے آپ سے پوچھا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بچوں کے ادب کی کیا اہمیت ہے تو اس پرآپ کا کہنا ہے کہ پہلے تعلیمی اداروں کا مشن تعلیم تھا مگر اب پوری انڈسٹری بن چکی ہے۔ اب ہر ادارہ کوشش کرتا ہے کہ بچہ اگر اسکول میں ہے تو صرف رٹا لگانا ہے، اسکول سے گھر گئے ہیں تو پھر ٹیوشن ہے، ٹیوشن کے بعد گھر میں بھی وہی کچھ ہورہا ہے، ماں باپ بھی اسی چکر میں لگے ہوئے ہیں کہ نمبر آنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ اگر اس بچے کو کوئی اور چیز مہیا بھی کی جائے گی تو اساتذہ اور والدین سمجھتے ہیں کہ یہ وقت کا ضیاع ہے۔ اس لیے جو کسی زمانے میں بچوں کے ادب کا مقام تھا،وہ اب نہیں رہا کوئی 40کے قریب بچوں کے رسالے شائع ہوتے تھے اب تو سکڑ کر18،20 رہ گئے ہیں اس لیے کہ وہ کلچر ہی تبدیل ہوگیا،اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بچے سماجی اور معاشرتی لحاظ سے نابلد ہیں۔ اچھے منصب پر تو وہ پہنچ جاتے ہیں مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ معاشرتی مسائل کیا ہیں۔غیرنصابی سرگرمیاں بالکل نہیں اور اسکول بھی ڈربے بنے ہوئے ہیں۔ چار پانچ کمرے ہیں اسی میں سارا نظام ہے رٹوں کے ذریعے نمبر لینے ہیں ان کی صحت کی نشو و نما اور باقی ساری سرگرمیاں بالکل نہیں ہیں۔
ہمارے گھرانوں میں عموی طور پر نصابی کتابو ں پر تو زور دیا جاتا ہے اور والدین کی اس پر بڑی توجہ بھی رہتی ہے لیکن غیر نصابی لڑیچر کہانی، افسانے، ناول کی ایک بچے کی زندگی میں کتنی اہمیت ہےتو اس پر ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کا کہنا تھا کہ جب کوئی بچہ درسی کتابوں کے ساتھ غیرنصابی کتابیں پڑھتا ہے یعنی ناول، رسائل وغیرہ، تو اس کی معلومات کا ذخیرہ بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ وہ تخیلاتی چیزیں دیکھ رہا ہوتا ہے، معاشرے میں اگر کسی سے کوئی زیادتی ہے تو اس کو محسوس کررہا ہوتا ہے، کوئی اچھا کام کررہا ہے اور اسے پذیرائی مل رہی ہے یہ ساری چیزیں اس بچے کے اندر کیفیات کو تبدیل کررہی ہوتی ہیں۔ ایک بچہ ہے جو راستے سے پتھر ہٹا دیتا ہے، ایک بچہ کسی بزرگ کی مدد کردیتا ہے تو دوسرے بچے میں یہ احساس ہوتا ہے کہ مجھے بھی یہ کرنا چاہیے۔ اگر کسی بچے کو غلط کام پر سزا ملتی ہے تو اسے بھی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ مجھے بھی بچ کر رہنا ہے۔ تو اس طرح سے ایک تربیتی عمل جاری رہتا ہے۔ اب والدین کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ جاب کا سلسلہ ہو۔ اب تو انٹرنیٹ، موبائل، کارٹونز کی وجہ سے ہر کوئی اپنی اپنی دنیا میں مگن ہے، کہیں بھی چلے جائیں بچے اپنی دنیا میں مست ہیں، ماں باپ اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ اب ہماری کوشش یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ کتاب نہیں بھی پڑھتا تو دو دو تین تین منٹ کے سبق آموز کلپس بنائے جائیں۔ کیونکہ اب بچوں کو اس طرح سے کتاب نہیں پڑھا سکتے۔ اب تو بڑوں میں بھی کتب بینی کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے۔ کتب بینی کا کلچر ہمارے ہاں بدقسمتی سے شروع سے ہی پروان نہیں چڑھ سکا۔ یورپ میں آج بھی آپ کسی ریلوے اسٹیشن پر چلے جائیں، ایئر پورٹ پر چلے جائیں، آپ کو کتاب پڑھتے ہوئے لوگ ملیں گے۔میں نے پوچھا کہ پوری دنیا میں بچوں کے ادب کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ اور ہمارے یہاں بھی بعض بڑے لکھنے والوں نے بچوں پر لکھا ہے، مثلاً علامہ اقبال، اسمٰعیل میرٹھی اور دوسرے لوگ ہیں جنہوں نے کام کیا، لیکن اتنا زیادہ کام نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے تھا۔ اس کا کیا سبب ہے؟ ہمارے لکھنے والوں نے بچوں کے ادب کو اتنی اہمیت کیوں نہیں دی تو آپ کا کہنا تھا کہ
ہمارے یہاں کئی لوگوں نے آغاز بچوں کے ادب سے ہی کیا، احمد ندیم قاسمی بڑا نام ہے، وہ ماہنامہ ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر رہے، غلام عباس بہت بڑا نام ہے وہ بھی ’’پھول‘‘ کے مدیر رہے۔ عطاء الحق قاسمی ہیں، اصغر ندیم سید ہیں… جتنے بھی لوگ ہیں انہوں نے آغاز بچوں کے ادب ہی سے کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بچوں کا ادب ریٹرن نہیں کرتا، یعنی اگر آپ اس کے لیے کہانی لکھیں گے تو نہ آپ کو کہانی کا معاوضہ ملے گا نہ وہ رسالہ آپ کو ملے گا جس میں وہ کہانی چھپی ہے۔ لکھنے والا یہی کہے گا کہ مجھے کم از کم کوئی رسالہ ہی دے دیں اعزازی طور پر۔ اگر رسالہ بھی اعزازی نہیں ملے گا، تو وہ کیا لکھے گا؟ جبکہ دوسرے میگزین میں اسے اس تحریر کا دو سے چار ہزار روپے معاوضہ ملے گا تو وہ اس کے لیے لکھے گا۔ ظاہر ہے صرف کہانیاں لکھنے سے تو پیٹ نہیں بھرے گا۔ یا تو پھر جو بڑوں کے ادب کو پے کررہا ہے و ہ بچوں کے ادب کو بھی کرے۔ بچوں کے رسائل کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تو وسائل ہی نہیں ہیں کہ ہم انہیں چھاپ سکیں، حالانکہ اس کے باوجود چھاپتے ہیں، لیکن لکھنے والوں کے لیے معاوضے اور اعزازی کاپی کے کوئی مواقع نہیں ہیں۔اسی پس منظر میں جب سوال کیاکہ بچوں کے ادب کے حوالے سے بیرونی دنیا میں ٹرینڈ ہے کہ وہ اپنی زبان کے کلاسک کو مختلف ذہنی سطح کے لیے بناتے ہیں، مثلاً پانچویں کلاس کے بچوں کے لیے الگ شیکسپیئر ہے، چھٹی جماعت کے لیے الگ، اور آٹھویں کلاس کے بچوں کے لیے الگ… تو بچہ شروع سے ہی مختلف مرحلوں میں شیکسپیئر کو پڑھتا آتا ہے۔ ہمارے اردو لٹریچر میں اس طرح کا تجربہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ کیا اس کو ہمارے یہاں شروع نہیں ہونا چاہیے، مثلاً پانچویں کا اقبال، میٹرک کا اقبال وغیرہ؟ تو
ڈاکٹر محمد افتخار نے اس سوال کا جواب دیتے ہوے کہا کہ کراچی میں سندھ ایجوکیشنل کونسل نے’’میرا اقبال‘‘ کے نام سے کلاس ون، ٹو، تھری، فور اور فائیو کے لیے کتابیں چھاپی تھیں، اور اس حوالے سے اقبال اکیڈمی نے بھی کام کیا ہے۔ خود میری بھی کتاب ’’اقبال کہانی‘‘ کے پیش لفظ میں یہ تحریر ہے کہ اسلامیات، سیاسیات، معاشیات کے لحاظ سے باقاعدہ مضمون ہونا چاہیے اقبالیات کا، تاکہ کلاس ون سے بچے مضمون کے طور پر اس کو پڑھیں۔ اگر ہم اسے مضمون کے طور پر پڑھائیں گے تو ہی وہ جذبہ پروان چڑھ سکتا ہے جو اقبال چاہتے تھے شاہین کے حوالے سے، خودی کے حوالے سے۔ مگر ہمارے ہاں عمومی مزاج ہے عدم توجہی کا ہر سطح پر۔ میں نے پوچھا پھرعدم توجہی کی وجہ؟
اس پر آپ کا کہنا تھا کہ سبب صرف ایک ہے کہ یہ ملک تو بن گیا ہے ہم بحیثیت قوم ایک نہیں بن سکے۔ ہمارے اندر جو بھی لیڈرشپ آئی، قیادتیں آتی رہیں کبھی سول کبھی فوج۔ ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں ایک تسلسل رہا لیڈرشپ اور نظام میں، مگر ہمارے یہاں تسلسل ایسا نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک طرزِ تعلیم بھی جاری نہیں رکھ پائے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں کوئی بھی نظام تسلسل سے جاری نہ رہ سکا۔ ظاہر ہے اس سے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں ہائی لیول کے ٹیچر پرائمری لیول کے بچوں کو پڑھاتے ہیں کہ اگر ہم اپنی بنیاد استوار کرلیں گے تو آگے چل کر ہمارا سلسلہ ٹھیک چلے گا۔ مگر ہمارے یہاں اس کے الٹ ہے کہ جو بالکل نکمے ہیں، جنہیں کچھ نہیں آتا وہ اسکول چلے جاتے ہیں۔ جب انہیں خود کچھ نہیں آتا تو بچوں کو کیا سکھائیں گے! کراچی میں تو خیر بڑی تعداد چھوٹے چھوٹے اسکولوں کی ہے کہ انٹر یا بی اے پاس بچیوں کو چار یا پانچ ہزار روپے ماہانہ پر رکھ لیا جاتا ہے بطور ٹیچر، اور بچوں سے فی بچہ پانچ ہزار روپے لیا جاتا ہے۔ ہمارے نظام کا المیہ ہے کہ بچوں کو ہر سطح پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ والدین گھر کے اندر کیسے ایسا ماحول پیدا کریں کہ بچہ کتاب کی طرف آئے؟
تو آپ نے عرض کیا عام طور پر ہمارا جو متوسط اور خوشحال طبقہ ہے وہ اپنے بچوں کی سالگرہ مناتا ہے۔ اس میں یہ طے ہو کہ ان کے جتنے بھی دوست احباب آئیں وہ کیک نہ لائیں، کچھ اور تحفے نہ لائیں، بلکہ کتابیں تحفے میں دی جائیں۔ جب کتابیں آئیں گی تو بچے کو احساس ہوگا کہ یہ اتنی اہم چیز ہے کہ میری سالگرہ پر تحفے میں دی گئی ہے۔ بلکہ یہ بھی ہو کہ سب آپس میں طے کرلیں کہ ایک ہی موضوع پر کتابیں نہ ہوں، اور بچہ سمجھ جائے کہ میرے جو چاہنے والے ہیں کتاب اُن کے لیے عزیز ہے تو وہ اسے پڑھے گا۔ طے کرلیں کہ ہمیں ہر حال میں، ہر صورت میں بچے تک اس کلچر کو فروغ دینا ہے تب کلچر بنے گا۔اسی گفتگو میں یہ بات بھی پوچھ لی کہ آج ماضی کی بہ نسبت والدین بچوں کے حوالے سے زیادہ سوچتے ہیں، اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ اچھا پڑھنے والا اور بااخلاق ہو۔ لیکن بچہ تو بچہ ہوتا ہے، وہ ان کے خواب اور خواہش کو اہمیت نہیں دیتا تو ایسے میں والدین کیا کریں اور کہاں سے رہنمائی حاصل کریں؟ تو ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر نے فرمایا کہ سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچوں کے اندر امانت، دیانت، سچائی آئے تو خود والدین کو اس پر عمل کرنا ہوگا، اور پھر یہ بھی طے کرلیں کہ مثلاً اگر گھر میں کوئی چیز کسی سے ٹوٹتی ہے، وہ ماں باپ سے بھی ٹوٹ سکتی ہے تو وہ کیا کرتے ہیں؟ لیکن اگر بچہ توڑے گا تو سزا ملے گی۔ تو جب اگلی مرتبہ ٹوٹے گی تو وہ جھوٹ بولے گا ناں، کہ بھائی نے توڑی ہے، بہن نے توڑی ہے۔ کوشش کی جائے کہ انہیں صرف یہ احساس دلایا جائے کہ یہ اہم چیز تھی، اس سے ہمارا نقصان ہوا ہے، اور کوشش کریں کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ اس کا اثر دیرپا ہوگا۔ لیکن اگر آپ ماریں گے اور سزا دیں گے تو اس کا نتیجہ غلط نکلے گا اور بچہ جھوٹ بولنا سیکھے گا۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے ایک دوستانہ ماحول بنائیں۔ بات چیت کے ذریعے اپنے تجربات کی مدد سے انہیں قائل کریں۔ جس گھر میں ڈانٹ ڈپٹ، لڑائی جھگڑے کا ماحول رہتا ہے وہاں اولاد بھی اس سے متاثر ہوتی ہے اور آگے ان کی شخصیت اسی طرح سے پروان چڑھتی ہے۔ جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو وہ چیزیں ان میں منتقل ہوچکی ہوتی ہیں۔ والدین کی تربیت اور رہنمائی کے حوالے سے اب اردو میں بھی کچھ لٹریچر ملنا شروع ہوگیا ہے، اگر یہ والدین تک پہنچیں اور وہ انہیں پڑھیں تو ضرور فائدہ ہوگا۔”
کہتے ہیں بچے کا دل و دماغ ہر قسم کے نقش و نگار سے خالی ہوتا ہے اس پر کچھ بھی نقش کیا جا سکتا ہے۔ اس لیےضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بھیم، موٹو پتلو، ٹام اینڈ جیری، ننجا بوائے، ہنو مان، ہیری پوٹر ا،ڈراموں اور وڈیو گیمز سے بچائیں اور اس کی اخلاقی، تہذیبی، لسانی اور معاشرتی ومعاشی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں اور ساتھ ڈیجٹل دنیا کے بھرپور انقلاب کے باوجود بچوں کو ادب اور کتاب کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جس معاشرے میں کتاب کلچر نہیں ہوتا وہ جرائم کلچر کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔