نہ جانے کیوں؟

448

جلدی جلدی ناشتے کے برتن سمیٹ کر وہ کچن کی طرف لے جارہی تھی کہ نیچے سے ماجدہ آپا نے آواز لگائی ’’ثمینہ! آج ماسی نہیں آئے گی، ابھی اُس کی پڑوس والی ماسی بتاکر گئی ہے۔‘‘
اُف اب کیا کروں…؟ کل بھی ماسی نہیں آئی تھی۔ ’’باجی! کیوں نہیں آئے گی؟ کل اتوار ہے اور اس نے جمعہ کو بھی چھٹی کی تھی۔‘‘ ثمینہ سے رہا نہ گیا۔ اگرچہ وہ جانتی تھی کہ ماسی نہیں آئے گی تو بس اب نہیں آئے گی، پھر بھی دل مچل گیا کہ معلوم تو ہو یہ غم ہم پر کیوں ٹوٹ پڑا ہے!
’’اُس کی پڑوسن کہہ رہی تھی کہ اس کا چھوٹا بچہ بیمار ہے، بہت بخار ہے بے چارے کو۔‘‘ ماجدہ آپا بڑے دکھ سے کہہ رہی تھیں۔
’’انہیں بڑا غم لگا ہے شنو ماسی کا… ماسی کا تو یہی کام ہے روز چھٹی کرنا۔‘‘ ثمینہ کو سخت غصہ آرہا تھا۔
’’چھوڑو ثمینہ دل برا نہ کرو، ہوسکتا ہے اللہ ہمارے بچوں کو بیماری سے بچا رہا ہو، ذرا سا کام ہی تو زیادہ کرنا پڑے گا۔ اللہ بے چاری کے بچے کو اچھا کردے۔‘‘ ماجدہ آپا نے ثمینہ کو سمجھانا چاہا۔
’’جی آپا…‘‘ وہ چپکی ہوگئی۔
’’ہاں بھئی آپ کرسکتی ہیں ہمدردی۔ آپ کی تو دو دو بچیاں ہیں نا، سلیقہ مند۔ ایک ہم ہیں، تین شریر بچوں والے جو ہر چیز کو الٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمارا گھر پھیلا پڑا ہے۔ خیر سے سعد کی چھٹی ہے، ویسے بھی دن گزارنا مشکل تھا کہ اب مزید مشکل ہوگیا۔‘‘
’’امی… امی ! جلدی آئیں۔‘‘ زینب کی آواز پر وہ سوچوں سے لمحے بھر میں باہر نکل آئی۔ ’’کیا ہوا زینب؟‘‘
’’امی، وہ بلال نے…‘‘ اب کچھ مزید بتانے کی ضرورت نہ تھی، کیوں کہ بلال نے اس قدر Lose Motion کیا تھا کہ پیمپر کی برداشت سے باہر ہوا جارہا تھا، اس پر سعد اسے مستقل چھیڑ رہا تھا، کبھی وہ دائیں گرتا کبھی بائیں۔
’’سعد چھوڑ دو اس کی جان… تم کیا کررہے ہو!‘‘ ثمینہ چلاّئی۔
’’امی میں اس کی کوالٹی چیک کررہا تھا۔‘‘
’’اوہ میرے خدا…‘‘ ثمینہ بھاگ کر بلال کو پکڑ چکی تھی۔ زینب نے ہنسی چھپانے کو منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ ’’بھائی! کوالٹی کنٹرول میں ہے کیا؟‘‘ چار سال کی زینب خبرنامہ سن سن کر سب جان گئی تھی شاید۔ اور سعد… اس نے تو پانچ سال کی عمر میں فوڈ انسپکٹر کی ڈگری لے لی تھی۔
ثمینہ نے بلال کو واش روم کی طرف لے جاتے ہوئے غصے سے دونوں کو گھورا۔ ماسی کے نہ آنے کا زخم ابھی مندمل بھی نہ ہوا تھا کہ یہ قطرہ قطرہ ٹپکتا نیا ڈراما کمرے سے گزر رہا تھا۔ توبہ ہے، یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے! کیا کیا سپنے دیکھے تھے اس نے شادی سے پہلے… مگر اب تو بس ایک ہی کام رہ گیا ہے، اِسے دھلائو… اُسے اٹھائو… کسی طرح کھانا کھلائو… ہوم ورک کروائو اور پھر کسی طرح شاہ رخ کے آنے سے پہلے سارا گھر سمیٹو۔ شریروں کے منہ دھلائو… ایسے میں اپنا منہ دھونا بھی کبھی کبھی بھول جاتی تھی۔ سب سہیلیاں میری ڈریسنگ اور میچنگ کی کس قدر تعریفیں کرتی تھیں، سب خواب ہوگیا۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر حقیقت کی دنیا میں لوٹ آئی۔
سعد بیڈ پر اچھل رہا تھا اور زینب اس سے ٹریننگ لے رہی تھی۔
’’توبہ… کیا کررہے ہو سعد بیٹا۔ زینب! تم تو اچھی بچی ہو نا… شاباش، بلال کے کپڑے لائو۔ بیٹا ماسی بھی نہیں آئی ہے، اب ہمیں صفائی بھی کرنی ہے۔‘‘
کچھ دیر کو سعد سنجیدہ بن کر ثمینہ کو دیکھنے لگا، پھر بڑے غم سے بولا ’’زینب! امی تو ماسی آنٹی کے بغیر بڑی اداس ہوگئی ہیں، وہ امی کی سہیلی ہیں کیا؟ بڑی یاد آتی ہیں بھئی۔‘‘
’’ابھی بتاتی ہوں تمہاری سہیلی… اور پہیلی…‘‘ ثمینہ اسے پکڑنے کو بھاگی تو وہ ایک چھلانگ میں چھلاوا بن کر بیڈ سے کود گیا اور ثمینہ ’’یااللہ یہ بچے کیوں اتنا تنگ کرتے ہیں… پتا نہیں لوگ لڑکوں کے لیے کیوں مرتے رہتے ہیں، بیٹا ہوجائے، بیٹا ہوجائے۔‘‘
’’بڑی مشکل سے وہ زینب کو اپنے کمرے کی جھاڑو لگانے پر آمادہ کرکے خود لائونج اور ڈرائنگ روم میں صفائی کرنے لگی کہ زینب منہ بسورے کھڑی ہوگئی۔
’’امی! بھائی مجھے ماسی ماسی کہہ رہا ہے۔‘‘
’’سعد ایسے نہیں کہتے بیٹا۔ اپنا کام تو کرنا ہوتا ہے نا، چلو تم ڈسٹنگ کرو۔‘‘ ثمینہ نے سعد کو کپڑا پکڑایا۔ اسے مصروف کرنے کی قیمت وہ اچھی طرح جانتی تھی، تھوڑی ہی دیر میں دھڑادھڑ کی آوازیں سعد کی ڈسٹنگ کی قیمت خود اپنے منہ سے بتا رہی تھیں۔ ’’توبہ، یہ لڑکا بھی بس جان لے گا میری۔‘‘
’’امی! بھائی…‘‘ زینب چار بار چیزیں واپس جگہ پر رکھ چکی تھی، مگر بلال کا خوشی سے تالیاں بجانا صاف بتا رہا تھا کہ ایک سعد اور تربیتی مراحل میں ہے۔ دن گزرا، جیسے تیسے رات بڑی مشکل سے آئی۔ بستر پر لیٹے وہ سوچ رہی تھی کہ جن لوگوں کو ہم اپنی زندگی میں ذرا بھی وقعت نہیں دیتے، اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے بہت فروتر ہیں، وہ ہماری زندگی میں کس قدر دخل رکھتے ہیں۔ ان کے نام سے ہم صبح کرتے ہیں، اور رات تک گھر کا ہر فرد ان کا ہی ذکر کرتا رہتا ہے۔ جنہیں ہم کچھ نہیں سمجھتے وہ ہماری مجبوریاں خوب سمجھتے ہیں، اور ان مجبوریوں کی قیمت بھی لگانا خوب جانتے ہیں۔ اے کاش کہ ہم بھی اُن کی مشکلات کو سمجھنے لگیں تو شاید ہمارے سمجھنے کی بھی اللہ کچھ قیمت لگا دے۔
پیر کو ماسی آگئی۔ خدا خدا کرکے ماجدہ آپا کی بیٹی نے خوشی خوشی آواز لگائی ’’ثمینہ آنٹی! ماسی آگئی ہے‘‘… ’’شکر ہے‘‘ طمانیت سے ثمینہ کاچہرہ کھل اٹھا۔ سعد اسکول جا چکا تھا مگر اس کی آواز اب تک آرہی تھی۔ ’’امی کی سہیلی… بڑی یاد آتی ہیں بھئی… ماسی آنٹی۔‘‘ کون جانے مسکراہٹ ثمینہ کی تھی یا ماسی آنٹی کی یاد تھی۔
’’ماجدہ آپا! کیا ہوا تھا؟ شنو کیا کہہ رہی ہے؟‘‘ وہ بے تابی سے بلال کو گود میں اٹھائے سیڑھیاں اترتی چلی گئی۔ ماسی کرسی پر بیٹھی رو رہی تھی اور ساتھ ماجدہ آپا اور ان کی بیٹی بھی آنسو پونچھ رہی تھیں۔ وہ جلدی سے قریب آگئی ’’کیا ہوا شنو؟‘‘ (نام تو ماسی کا شاہانہ تھا، مگر سب اسے شنو کہہ کر پکارتے تھے)
’’باجی بڑا ظلم ہوا ہے، بڑا ظلم ہے‘‘… ’’یااللہ، تمہارا بچہ تو ٹھیک ہے نا…‘‘ثمینہ نے بلال کو سینے سے یوں لپٹا لیا جیسے کہیں اسے کچھ نہ ہوجائے۔ شنو نے ذرا دم لیا اور بولی ’’باجی وہ تو ٹھیک ہے، پر میری پڑوسن تھی نا، وہی رانی جس کی جھگی دو قدم پر تھی، اُس کے گھر پرسوں تیسری بیٹی ہوئی ہے، اس کی ساس تو باجی چڑیل بن گئی۔‘‘
’’کیوں، بچی کو کھا گئی کیا؟‘‘ ماجدہ آپا کی بیٹی کا پریشانی سے دم نکل رہا تھا۔ (اگرچہ وہ دوسری بیٹی تھی‘ پَر بیٹی ہونے کا جرم تو کیا تھا نا اُس نے بھی۔)
’’نہ باجی! اللہ اس پر قہر توڑے… وہ تو فرعون بن گئی۔ بولی: دو تو میں نے برداشت کرلیں مگر تیسری نہیں… چل اسے لے کر نکل یہاں سے۔‘‘ آنسو شنو کی آنکھوں سے بہے جارہے تھے۔
’’پھر نکال دیا ایک دن کی زچہ کو!‘‘ ماجدہ آپا بولیں۔
’’نہیں باجی! رانی کی دونوں بڑی لڑکیاں اپنی دادی کے پائوں پڑ گئیں، مٹی میں رل گئیں باجی! تب جاکر اماں نے رانی کو چھوڑا۔ مگر باجی! میں اگلے دن گئی تو سورج سر پر، گرمی اور پسینے سے موت آرہی تھی، اور اماں نے رانی کو دھوپ میں کھڑاکیا ہوا تھا صبح سے… باجی! ننھی بچی کا بھوک سے رو رو کر برا حال ہوگیا، پَر وہ ڈائن اسے دھوپ سے ہٹنے نہ دے۔‘‘
’’تو اس کو تو سینے سے لپٹا لیتی۔‘‘ثمینہ سے صبر نہ ہوا۔
’’باجی! یہ بھی تو اندھیر ہے، ماں، بیٹا مزے سے سائے میں بیٹھ کر روٹی کھا رہے تھے، اور وہ بدنصیب بھوکی کھڑی تھی۔ پانی بھی نہیں دے رہے تھے اسے۔ میں منتاں کری، باجی! پیر پڑی، پر وہ اماں نہ مانی۔ رانی کو کہتی ہے: اِس کی سزا یہی ہے، اس نے کُڑی کیوں جَنی… رات تک وہ بھوکی کھڑی رہی، جانے کب بے ہوش ہوکرگرگئی تو اماں نے ذرا سا پانی دیا۔‘‘ شنو پھر رونے لگی۔
’’باجی اُس کی کُڑی تو نہیں بچے گی… دیکھنا نہیں بچے گی۔ اگلے دن میں چپکے چپکے رات کی روٹی پر دال ڈال کر لے گئی، اماں پڑی سو رہی تھی، میں نے جلدی جلدی اسے کھلائی۔ باجی! رانی کا منہ دیکھتیں۔ توبہ میری توبہ… اُس کا میاں دیکھو ذرا، مرے اللہ کرے…‘‘ وہ ہاتھ آسمان پر اٹھا اٹھا کر اس کے میاں کو کوس رہی تھی، اور سب اس کے ساتھ رو رہے تھے۔ سعد نے صحیح کہا تھا کہ ماسی امی کی سہیلی ہی تو تھی۔ زندگی کی سہیلی ماسی… اتنی غربت میں بھی ایک دوسرے کا دکھ بانٹنے والی… ایک دوسرے کے لیے رونے والی… ایک دوسرے کو سہارا دینے والی… مجبوریوں کی قیمت لگانے والی بے چاری خود کس قدر مجبور تھی۔ دن کس طرح گزرا… ہر کسی کو رانی کا خیال پریشان کر رہا تھا۔ شنو کا انتظار آج سب سے بڑھ کر تھا۔ کون جانے رات رانی پر کیا گزری، اور اس کی بچی… پتا نہیں کہیں بھوک سے وہ… نہیں نہیں… زینب نے بھی ننھی کے لیے دعا کی تھی، زینب کے ابو بھی نمازکے بعد دیر تک دعا کرتے رہے تھے۔ سعد نے بھی آج نماز پڑھی تھی۔ زندگی بڑی بوجھل ہوگئی تھی۔ یا اللہ رانی کی ساس کو سمجھ دے۔ بیٹا، بیٹی کے چکر سے معاشرہ کب نکلے گا؟ وہ جو رحمت للعالمینؐ تھے، ان پھول جیسی گڑیوں سے کتنا پیار کرتے تھے۔ سب سے پہلے انہیں حصہ دیا کرتے تھے۔ آج وہ معصوم تپتی دھوپ میں بھوک سے اپنی بھوکی ماں کی گود میں تڑپ رہی تھی اور اس پیارے نبیؐ کے ماننے والے اپنے حکم منوا رہے تھے… اپنے اصول، اپنے تقاضے مجبور لوگوں پر مسلط کر رہے تھے۔ کیسی اندھیر نگری تھی، کیسا چوپٹ راج تھا۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ رازق کا دیا رزق اُس کے بندوں پر حرام کردیا گیا تھا، اور شنو نے بتایا تھا کہ اُس کا میاں کچھ نہیں کرتا، سارا دن چارپائی توڑتا رہتا ہے… بے چاری رانی ہی تو گھر گھر کام کرکے کماتی ہے تبھی تو گھر چلتا ہے۔
عجب کہانی تھی، عورت کہانی… ایک عورت کا ظلم، ایک عورت کی مجبوری۔ اور وہ عورت جو آج بھوکی ہے، ایک بچی ہے، کل وہ کیسی عورت بنے گی؟ معاشرے کی زیادتیاں سہہ سکے گی؟ ٹھکرائی ہوئی… دھتکاری ہوئی عورت کل قوم کو مضبوط نوجوان دے سکے گی…؟ ثمینہ کا دماغ پھٹ رہا تھا۔ بچے سو چکے تھے۔ اس نے تینوں بچوںکو دیکھا، شکر ہے مالک تُو نے مجھے کتنی نعمتیں دی ہیں، اتنے اچھے بچے۔ یکایک اس کی نظر شاہ رخ پر ٹھیر گئی۔ کیا شاہ رخ بھی رانی کی ساس کی طرح بن جاتے اگر سعد نہ ہوتا؟ اس نے گھبراکر بلال پر ہاتھ رکھا۔ شاہ رخ پُرسکون نیند سورہے تھے۔ ثمینہ کو لگا وہ غلط سوچ رہی ہے، بالکل غلط… تعلیم آدمی کے ذہن کو بہت وسیع کردیتی ہے، اور شاہ رخ تو بہت اچھے انسان تھے۔
صبح ہوئی تو دروازے پر سب کی نگاہیں تھیں۔ شنو… شنو… کب آئے گی؟ آخر خدا خدا کرکے شنو آئی۔ سب نے اس کو گھیر لیا۔ آج سب کسی اور ہی وجہ سے منتظر تھے۔ اس کا مطمئن چہرہ سب کو متوجہ کررہا تھا۔
شنو بولی ’’باجی کڑی بچ گئی ہے۔‘‘
’’شکر ہے‘‘ سب کا سانس جیسے اٹکا ہوا تھا… انسانیت کے تعلق کی بھی تو مجبوری ہوتی ہے نا… زندگی کی بھی تو مجبوری ہوتی ہے۔ آج سب عجب طرح سے مجبور تھے اور مجبوری کو سمجھنا شنو ماسی کی مجبوری تھی۔
’’باجی! سارے محلے والوں نے اماں کو سمجھایا، پَر اسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ آخر مجھے غصہ آگیا، میں نے کہہ دیا: اماں! اللہ کے قہر سے نہیں ڈرتی نہ ڈر، پَر یہ تو سوچ، کل کو رانی نہ ہوگی تو تیرے گھر کا خرچا کون چلائے گا…؟ اس پر اماں چپکی ہوگئی، دماغ ٹھکانے آگیا۔ رانی کو کمرے میں بٹھانا مجبوری جو ہوئی۔ اس کو کھانا دیا، مجبوری تھی اس کی… پڑوسن شربت بنا کر لائی، دادی چپ رہی، مجبور جو ہوئی…‘‘
سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سچ ہے، سبھی مجبور تھے۔ بے نیاز تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ پھر لوگ ذرا سے اختیار پر خدا کیوں بن جاتے ہیں؟

حصہ