پہاڑوں پر عید

408

وادیِ کاغان پہنچنے کے بعد پتا چلا کہ یہاں کے نشیب و فراز تو زندگی کے نشیب و فراز سے کہیں زیادہ مشکل ہیں۔ ڈرائیور کو ہر دم چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ سانپ کی مانند خطرناک بل کھاتی خوب صورت سڑک مسلسل بالائی پہاڑوں کی جانب بڑھتی جارہی تھی۔ بٹہ کنڈی کے خوب صورت پہاڑوں پر کھیتی باڑی کا دیدہ زیب منظر میں نے پہلی مرتبہ دیکھا۔ پودوں کی قطاریں پہاڑ پر ترتیب سے جمائی گئی تھیں، اور ان قطاروں کے درمیان کہیں کہیں اکلوتے گھر میں شمسی توانائی سے جگمگاتی روشنی بتارہی تھی کہ یہاں بھی زندگی مسکرا رہی ہے۔
اس موسم کے پہلے کسٹمر ہونے کی وجہ سے ہوٹل کے مالک نے پُرتپاک ملاقات کی۔ اس کے بعد کسی موٹل سے کھانا کھایا، یا دکان سے کچھ خریدا تو ’’پہلا کسٹمر‘‘ کا خطاب ملا، کیوں کہ آج عید کا دن تھا۔ سبزہ زار نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ ہم دیوار پر لگی کسی سینری میں اتر آئے ہیں۔ کچھ بچوں کی کھنکتی آوازیں سنائی دیں… مگر ہم تو پہلے کسٹمر ہیں، پھر عید کے لباس میں ملبوس۔ یہ کس کے بچے ہوٹل کے قریب کھیل رہے ہیں؟ اچانک ’’رہائشی علاقہ‘‘ کے بورڈ پر نظر پڑی جہاں دروازے پر ایک بڑا پردہ لگا ہوا تھا، ایک طرف چمنی سے دھواں نکل رہا تھا۔ وہاں کی خواتین سے ملنے کے شوق نے قدم اُس طرف اٹھا دیے۔ اجازت لے کر اس گھر میں داخل ہوگئے۔ صاف ستھرے ہرے بھرے گھاس کے قالین پر برتن دھوتی ہوئی خواتین کے ساتھ مرغیاں، بکریاں اور گائے بھی پُرجوش طریقے سے ملیں۔ چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد کچھ بات چیت ہوئی۔ یہ ہوٹل کے مالک کا گھرانہ تھا۔ مختصر سامانِ زندگی کے ساتھ سلیقہ نمایاں تھا۔ ایک چھوٹا ہال نما کمرہ جہاں چار پانچ پلنگ تھے، جن پر ایک جیسی خوب صورت گوٹ لگی ہوئی کڑھائی کی ہوئی چادریں بچھی تھیں۔ ایک طرف تلے اوپر لوہے کے چار پانچ بکس تھے، ان کے اوپر چادروں کے ایک جیسے الگ الگ بکس پوش ڈالے ہوئے تھے۔ باورچی خانے کے نام پر ایک کونا تھا جہاں لکڑیوں پر کھانا پک رہا تھا، برتن سلیقے سے سجے ہوئے تھے۔ خواتین کی چمکتی آنکھیں اور دمکتے چہرے مسکرا رہے تھے۔ جواباً مسکراہٹوں کا تبادلہ ہورہا تھا۔ اندازہ ہورہا تھا کہ ان کے پاس اپنا وقت برباد کرنے کے لیے فیس بک اور یوٹیوب نہیں ہیں۔
ہوٹل کے مالک کی بیوی نے بتایا کہ یہ پہاڑ ہمارے باپ دادا کے ہیں، ان پر تین سے چار ماہ ہی کھیتی باڑی ہوتی ہے، ان کے بچے باقاعدہ اسکول جاتے ہیں اور سب پڑھے لکھے لوگ ہیں، سب آپس میں رشتے دار ہیں۔ مرد ہوٹل میں کام اور کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ ان کی اجازت سے ان کے گھر کی تصاویر بھی لیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے تین گھر ہوتے ہیں، جب زیادہ گرمی پڑتی ہے تو اوپر لالہ زار پہاڑ پر چلے جاتے ہیں (لالہ زار کی خوب صورتی قابلِ دید ہے)، اور جب یہاں برف کا راج ہوتا ہے جس سے زندگی ناپید ہوجاتی ہے تو نیچے مانسہرہ چلے جاتے ہیں۔ ہوٹل کے مالک گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر بھی ہیں۔
مختصر ضروریاتِ زندگی کے ساتھ گزارا کرنا ہم لوگوں کو ناممکن لگتا ہے، مگر ایسا لگا یہی لوگ دنیا کی حقیقت کو جانتے ہیں۔ ہم ضرورت سے زائد سامان کو اپنے اردگرد سجا کر بہت خوش ہورہے ہوتے ہیں، اور اسے سنبھالنے، ترتیب دینے اور صفائی کرنے میں ہی لگے رہتے ہیں۔
زندگی کی تلخیاں ذہن سے محو تھیں۔ بادل خوشیوں کے پھول برساتے، ہوا سے اٹکھیلیاں کرتے گزر جاتے۔ چاند اپنی جگہ مسکراتی چاندنی بکھیر رہا تھا۔ چٹکی ہوئی چاندنی میں زندگی کا سکون میسر تھا۔
نئی صبح اپنی اگلی منزل پر روانہ تھے، یعنی بابوسرٹاپ، جہاں سخت سردی کے باوجود بادلوں سے گرتے ہوئے برف کے پھولوں کا خزانہ تھا۔ پہاڑوں کی چوٹیاں برف کے تاجوں سے سجی تھیں۔ ان کے دامن میں جھلملاتا ہوا دریا بہہ رہا تھا اور چرتے ہوئے مویشی منظر کو دلربا بنا رہے تھے۔ بابوسر ٹاپ سے آگے چلاس کی گرمی نے کراچی کی گرمی کے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ کچھ ہی وقت میں چلاس کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تمام راستے ہنزہ کی خوب صورت وادیاں اور دل موہ لینے والے ایسے خوب صورت نظارے کہ دیومالائی کہانیوں کی پریاں اترنے والی بات پر یقین کرلینے کو دل چاہے۔ راستے میں عطا آباد جھیل، پاسوکون، جگلوٹ جہاں تین پہاڑی سلسلے ملتے ہیں۔ کوہ قراقرم، کوہ ہندوکش، کوہ ہمالیہ کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرتے گئے گلگت بلتستان میں ہم نانگا پربت دیکھ رہے تھے، جس کی دہشت اردگرد چھائی ہوئی تھی جس کی میخیں زمین میں اور چوٹی آسمان میں گھسی تھی۔ پہاڑوں کا لرزنا سوچ کر ہم بھی لرز اٹھے اور جلد ہی روانہ ہوگئے۔
یخ بستہ رات میں آگ کا الاؤ بھی وہاں کی سردی کو کم نہ کرسکا اور آہستہ آہستہ دم توڑ گیا، کیوں کہ بارش نے سردی کو عروج بخش دیا تھا۔ ہماری منزل یہ نہیں تھی، ابھی سفر باقی تھا، پاکستان کا وہ علاقہ جس کا بارڈر چائنا سے ملتا ہے یعنی خنجراب۔
سوچا تھا اگلے دو سال بعد پھر سے ان نظاروں کو اپنے ذہن کے پردے پر تازہ دم کرنے آئیں گے، مگر اس کورونا نے قدم ہی جکڑ لیے ہیں۔

حصہ