فون کی بیل بجی، نام دیکھا تو بڑے بھائی جو ماموں زاد ہیں، کا نمبر تھا۔ صبح سے ہر بیل پر دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی، کیوں کہ آج حج قرعہ اندازی تھی۔ ڈوبتی دھڑکنوں کے ساتھ کال ریسیو کی تو بھائی کے خوب صورت جملے نے سماعتوں کو سکون بخشا ’’مبارک ہو بھئی، تمہارا نام آگیا۔‘‘
وفورِ جذبات سے آنکھوں سے اشکوں کی برسات شروع ہوگئی۔ وہ ہیلو ہیلو کررہے تھے اور میں صرف اتنا بول پائی ’’جی بھائی…سمجھ گئی۔‘‘
بولے ’’پگلی رو رہی ہو کیا؟ اچھا اچھا، ایسے ہی ہوتا ہے۔ جب بلاوا آتا ہے تو ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے، پھر بات کرتا ہوں، اللہ حافظ۔‘‘
میاں جی کو فون ملایا، انھیں خبر دی تو کہنے لگے ’’میں نے نام دیکھ لیا تھا، تمہیں گھر آکر سرپرائز دیتا، مبارک ہو بہت۔‘‘ بچوں سے لپٹ کے بس ’’شکر میرے رب کا‘‘ کہتی، اور روتی جاتی۔ اسلام آباد امی اور بھائی کو فون کیا اور رونے لگی۔ امی سمجھیں شاید اِس بار بھی بلاوا نہیں آیا، ڈرتے ڈرتے پوچھا کیا ہوا؟ جب بتایا کہ ’’امی! مجھ گناہ گار کا بلاوا آگیا، میرے رب نے میری التجائیں سن لیں‘‘ تو جوش اور خوشی سے اونچی آواز میں مبارک دینے لگیں۔ بھائی نے بھی محبت کا اظہار کیا۔ میرا پیارا بھائی، ہمیشہ اس کی بھی شکر گزار رہوں گی کہ اس نے درخواست دینے کا حوصلہ بھی دیا اور رہنمائی بھی کی۔ پھر پیاری دوست سمیعہ کو فون کیا تو وہ اتنی خوش ہوئی کہ بس نہ چلتا تھا فون میں سے ہی آکے گلے لگا لے۔ پیاری ناظمہ خیرالوریٰ باجی کو فون کیا، کیوں کہ وہ دکھ سُکھ کی ساتھی ہیں۔ میرا میکہ اسلام آباد میں ہے، تو بس وہی میرا میکہ ہے کراچی میں۔ بہت خوش ہوئیں اور ڈھیروں دعائیں دیں۔ بہن کا فون آیا تو اُس کی آواز بھی خوشی کے مارے کانپ رہی تھی۔ دو سال پہلے وہ امی اور بھائی کے ساتھ یہ سعادت حاصل کرچکی تھی۔ سو، ہدایات دینے لگی کہ بس آج سے ہی آپ اللہ کی مہمان ہیں، تیاری شروع کردیں، اللہ کا شکر ہر لمحے زبان پہ ہو، اور لبیک ہر وقت پڑھنی ہے، چلتے پھرتے اور کام کرتے ہوئے بھی۔ ابھی ٹائم ہے، جب حج ٹریننگ شروع ہوگی تو ضرور جائیے گا۔ جتنا سیکھ سکیں، سیکھیے گا۔ اللہ رب العزت کے در کے آداب سیکھ کے جانا چاہیے۔ میرا بس نہ چلتا کہ دن پَر لگاکر اُڑ جائیں اور میں مکہ، مدینہ کی فضاؤں میں سانس لوں۔ یہ محبت شاید ہر مسلمان کی فطرت میں ہے۔ خیر، جو بھی ملتا محبت اور عقیدت سے ملتا، گلے لگا لگاکر دعاؤں کی درخواست کرتا، اور میں بار بار اشک بار ہوجاتی کہ مجھ گناہ گار پر اللہ کا اتنا کرم کہ سب مجھ سے دعاؤں کا کہہ رہے ہیں!
حج ٹریننگ سے لے کر حج پر ساتھ لے جانے کے سامان کی تیاری، پھر انجکشن لگوانا… اس سب میں ایک خاص سرور کی کیفیت تھی جو میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔ ہماری فلائٹ ڈائریکٹ مدینہ کی تھی۔ جہاز پر بیٹھی تو ایسی بے تاب تھی کہ خود بھی سمجھ نہ پائی۔ میکے جانا ہوتا ہی تھا، دو گھنٹے میں پہنچ جاتی تھی، مگر ایسی بے تابی نہ ہوتی۔ یہ عجب کیفیت تھی۔ مدینہ ائرپورٹ پر جہاز نے لینڈ کیا اور اس سرزمین پہ قدم رکھے تو دل چاہا قدموں سے نہیں پلکوں سے چلوں۔ ایک سکون نے پورے وجود کو لپیٹ میں لے لیا۔ اب تھوڑی بھوک کا احساس ہوا کہ گھر سے خوشی کے مارے نہ ناشتا کیا، نہ کچھ ساتھ لیا۔ اب ایسے لگا جیسے بہت من چاہے کے گھر آئے ہیں اور لاڈ اور محبت میں فرمائش کردیں، اور میرا رب اتنا رحیم ہے کہ میرے دل کی ہر کیفیت سے واقف… اسی وقت بس میں ہی جوس اور پیکٹ جس میں کھانے پینے کی اشیا تھیں، تقسیم کیے گئے۔ پاکستانی جیکٹس میں ملبوس بھائی خوشی سے چمکتے چہروں کے ساتھ خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
ہوٹل پہنچ کر نمازِ ظہر ادا کی، کھانا کھایا اور مسجد نبویؐ کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک ایک قدم آنسوؤں سے طے کیا۔ گیٹ نمبر پانچ سے اندر داخل ہوئے تو انسانوں کا جم غفیر… خیر، صحن میں جگہ ملی۔ نمازِ عصر ادا کی اور طے پایا کہ ابھی ہوٹل واپس جائیں اور مغرب میں آئیں، اور عشا کی ادائیگی کے بعد ہی واپس آئیں۔ کچھ سمجھ بھی لیں کہ سلام کے لیے حاضری کب ہو۔
اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پہ سلام کے لیے حاضر ہوئے۔ وہ لمحات میری زندگی کے بہترین لمحات تھے، یقین نہیں آرہا تھا کہ میں درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پہ کھڑی ہوں۔ نظر تو اٹھائی ہی نہ جاتی تھی، کہ یہ مقام ہی ایسا تھا۔ بس روضے کی جالی کے آگے ادب سے نگاہیں جھکائے رو رہی تھی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ سے محبت کی دعوے دار تو ہوں مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ کرسکی، شرمندہ ہوں بہت۔
ریاض الجنہ میں نوافل کی ادائیگی میں بہت دھکم پیل تھی، لیکن جیسے تیسے نفل ادا کیے، اللہ کے حضور گناہوں کی معافی طلب کی۔ حاضری تین بار نصیب ہوئی الحمدللہ، مگر نیت تھی کہ بھرتی ہی نہ تھی، دل چاہتا وہیں کی ہو رہوں۔ مدینہ سے مکہ روانگی کا وقت آیا تو دل میں عجب اداسی تھی، ایسے لگتا تھا جیسے میں یہیں کی ہوں، یہ گلیاں میری اپنی ہیں۔ ایک کشش تھی مدینہ میں۔ شاید انصار کا خلوص اور محبت آج بھی ان فضاؤں میں موجود ہے۔
مکہ روانہ ہوئے، راستے میں جعرانہ سے احرام باندھا۔ راستے بھر حجاج کرام کی صدائیں لبیک اللھم لبیک گونجتی رہیں اور ایک جوش وجذبے کی کیفیت رہی۔ مکہ پہنچے، ہوٹل العزیزیہ5 نمبر ہماری رہائش کا انتظام تھا۔ گروپ لیڈر نے طے کیا کہ پہلی فرصت میں ہی عمرہ کی ادائیگی کی جائے۔ مجھے الفاظ نہیں مل رہے کہ کیسے بیان کروں۔ جب کعبہ پہ پہلی نظر پڑی تو کانپ رہی تھی، جو دعائیں یاد کرکے آئی تھی، یاد نہ رہیں۔ بس ’’یااللہ معاف کردے‘‘ یہی زبان پہ تھا۔ اگر میاں جی نے کندھوں سے تھام نہ رکھا ہوتا تو ایسی کیفیت تھی کہ گر جاتی۔ رب کے شکر کے کلمات نہ مل رہے تھے کہ مجھ ناچیز کو اتنا بڑا شرف بخشا۔
مناسکِ حج کی ادائیگی میں اللہ رب العزت کس کس طرح اپنے بندے کی مدد کرتا ہے، یقین آگیا۔ لاکھوں حاجی تھے مگر ہر ایک کو لگتا کہ اللہ بس میری سن رہا ہے۔ کیا شان ہے میرے رب کی، اور کیا مہمان داری ہے اس کی۔ دل میں جو محبت تھی وہ اور بڑھ گئی۔ وہ منیٰ کے خیمے، عرفات کا میدان، اور پھر ابرِ رحمت کا برسنا، اور حج مبرور کی صدائیں سب بیان سے باہر ہیں۔ اس سرزمین کے چپے چپے کو چوم لینے کو دل چاہتا، کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمِ مبارک اس سرزمین پہ ہر ہر مقام پہ پڑے ہوں گے۔ مسجدِ قبا اور مسجدِ قبلتین میں نوافل کی ادائیگی کا بھی الگ ہی سکون اور اطمینان تھا۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ وہاں کے ہر مقام کو میں نے تو بس آنسوئوں سے طے کیا۔ آنسوئوں سے دیدار کیا۔ طوافِ وداع کیا تو واپس جانے کے دکھ سے نڈھال روتے ہوئے کیا، کہ اللہ رب العزت میرے حج کو قبول کرلینا، مجھے معاف کردینا، مجھ سے راضی رہنا اور مجھے دوبارہ بلانا میرے بچوں کے ساتھ، کہ جن کو روتا چھوڑ آئی ہوں۔ وہ بھی تڑپتے ہیں، حاضری کے طلب گار ہیں۔ یہاں وہ خوش قسمت بھی تھے جو اپنے بال بچوں کے ساتھ آئے تھے، مجھے بھی پھر بلانا۔ یہ وہ نشہ ہے جو لگ جائے تو چھوٹتا نہیں، لگن اور بڑھ جاتی ہے، پیاس اور شدت اختیار کرجاتی ہے۔
ایک چیز، جس نے ایمان کو تقویت بخشی کہ جو یہ ابہام تھے کہ حج مہنگا ہو گیا ہے تاکہ لوگ نہ جا سکیں، یہ طاغوت کی سازش ہے تو حرم بھرا دیکھ کر رب کا شکر کیا کہ طاغوت کے منہ پہ تھپڑ پڑا، وہ یہ نہیں جانتے کہ مسلمان مال و اسباب پہ نہیں، بلاوے پہ بھروسا کرتے ہیں ،اور جب رب کا بلاوا ہو تو حاضری یقینی ہے۔
واپس آئے تو دل لگتا ہی نہ تھا کسی کام میں، نہ گھر میں۔ بس ’’سوئے حرم چلیں ‘‘کی کیفیت رہی۔
نگاہ منتظر ہے دل بھی مضطرب سا ہے
زباں پہ کلمۂ لبیک تو اب بھی رواں ہے