عقل مندی

191

حمزہ لائونج میں غصے میں ٹہل رہا تھا۔ کبھی دائیں ہاتھ کی مٹھی بائیں ہاتھ پر مارتا۔
صفیہ نے بیٹے سے غصے کی وجہ معلوم کی۔
”امی آج پھر ڈاکو طاہر صاحب سے پیسے اور موبائل چھین کر انھیں زخمی کرکے فرار ہوگئے۔
آخر محلے کے لوگ کب تک ڈاکوؤں کے ہاتھوں لُٹتے رہیں گے! اب ان ڈاکوؤں کو پکڑنا ہوگا۔“ حمزہ نے غصے سے کہا۔
”مگر بیٹا! یہ تو پولیس کا کام ہے۔ وہ چوروں، ڈاکوؤں کو پکڑے، اور ڈاکوؤں کے پاس اسلحہ ہوتا ہے۔تم تو ابھی خود بچے ہو۔“
صفیہ نے بیٹے کو سمجھایا۔
”پیاری امی…! جب معوذ اور معاذ دو بچے ابوجہل کو قتل کرسکتے ہیں میدانِ جنگ میں،تو ہم دو ڈاکو کیوں نہیں پکڑ سکتے!“ان کے چھوٹے بیٹے معاذ نے مثال دی جو والدہ اوربھائی کی گفتگو سن رہا تھا۔
”اُف..! ایک تو یہ بچے…
انھوں نے اپنے بیٹے کو گھورا۔
اپنے بیٹوں کو انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہادری کے قصے، غزوہ بدر، احد وغیرہ کے واقعات تو وہی سناتی تھیں۔
اب بچوں کے ارادے سن کر فکرمند تھیں۔
”بیٹا آپ کے بابا نے ایس پی صاحب سے بات کی ہے کہ وہ پولیس کا گشت بڑھائیں، ڈاکو پکڑیں۔“
صفیہ نے بیٹوں کو ٹھنڈا کیا۔
صفیہ اور فرحان جس کالونی میں رہتے تھے وہاں کشادہ سڑکیں تھیں۔ لوگ بھی ملنسار تھے۔ خوشی، غم میں شریک، تکلیف اور مشکل میں مدد کے لیے تیار رہتے۔
آج کل سب ڈاکوؤں، اور بڑھتے جرائم سے پریشان تھے۔
صفیہ اور فرحان کے دو بیٹے حمزہ اور معاذ تھے۔ وہ دونوں مارشل آرٹ سیکھ رہے تھے۔
ان کے ساتھ محلے کے دو بچے اور بھی اکیڈمی جانے لگے۔ وہ بہادر اور دلیر تھے۔
حمزہ اور معاذ نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ڈاکوؤں کو پکڑنے کا منصوبہ بنایا۔
قریب زیر تعمیر گھر سے پتھر جمع کرکے گھروں کے قریب جگہ پر رکھے گئے۔
اب وہ سب اکثر پتھروں سے نشانے بازی کی مشق کرتے۔
سڑک پر کبھی کرکٹ، کبھی فٹ بال کھیلتے۔ اسکوٹر پر آتے جاتے لوگوں پر نظر رکھتے۔
ڈاکو ہوں تو پکڑنا ہے۔
چھٹی کے دن سہ پہر میں حمزہ، معاذ اور ان کے دوست عمر، طلحہ، ریحان، منیب گھر سے باہر کھڑے تھے اور کرکٹ کھیلنے کی تیاری کررہے تھے۔
محلے کے راشد صاحب بائیک پر کہیں سے آئے تھے۔ اپنے گھر کے سامنے انھوں نے بائیک روکی، اترے۔ اس اثناء میں اُن کے پیچھے اسکوٹر پر سوار دو ڈاکوؤں نے اتر کر ان پر پستول تان لی۔
ایک ان کے سامنے پستول تانے کھڑا تھا۔ دوسرا ان کی تلاشی لےکر رقم اور موبائل نکال رہا تھا۔
حمزہ نے قریب پڑا پتھر اٹھایا اور نشانہ لے کر پستول تانے کھڑے ڈاکو کو دے مارا۔
پتھر ڈاکو کی کنپٹی پر زور سے لگا۔ وہ لڑکھڑا کر کنپٹی سہلاتا بچوں کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کا ساتھی بھی مڑا۔
دوسرا، تیسرا پتھر معاذ اور عمر نے مارا۔ وہ پتھر کھا کر گرچکے تھے۔
راشد صاحب نے ڈاکو کے پیٹ میں لات ماری۔ پستول چھینی۔
بچوں نے بھاگ کر ڈاکوؤں کو قابو کیا۔
طلحہ نے رسّیاں چھپاکر رکھی تھیں۔ لاکر ڈاکوؤں کے ہاتھ پشت پر باندھے۔
اگرچہ حمزہ، معاذ اور دوسرے بچے دس سے تیرہ سال کی عمر کے تھے، جبکہ ڈاکو بڑی عمر کے تھے۔ مگر کراٹے کے بھرپور وار نے ڈاکوؤں کو ڈھیر کردیا۔
شور کی آواز سن کر سب لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔
پولیس کو فون کیا گیا۔ وہ آئے اور ڈاکووں کو پکڑ کر لے گئے۔
سب بچے اپنے منصوبے کی کامیابی پر بہت خوش تھے۔
بڑوں نے بچوں کو شاباش دی۔
راشد صاحب نے کہا:
”ہمیں جرائم اور برائی کو دیکھ کر برداشت کرنے کے بجائے ان کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد کرنا ہوگی۔
بقول قائداعظمؒ ”ایمان، اتحاد، نظم و ضبط“ کے ذریعے شر کی ہر قوت کا مقابلہ کرکے اسے شکست دی جاسکتی ہے۔“
ان کی بات سے سب متفق تھے۔
راشد صاحب نے سب بچوں کو انعام دیا۔

حصہ