خطا انسان کی شناخت ہے، اس کی تکرار ابلیس کی پہچان ہے۔ نسیان کے معنی ہی بھول ہیں۔ بھول چُوک کا مفہوم انسان کے لفظ کی اوٹ میں چھپا رہتا ہے۔ یہ بھول جانے کا ہنر اس سے ہر غم کو بھلا دیتا ہے، اور کبھی تو یہ خدا کی خدائی بھی بھول بیٹھتا ہے۔ اس لیے بڑے گناہ کی اوّلین سیڑھی پر قدم رکھنا خدا کے تصور سے انکار ہے، چاہے گناہ کا اقرار سرگوشی میں ہو تب بھی روح چرکوں سے داغ دار ہوجاتی ہے، پھر روح کی اذیت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ رب کی طرف سے یہ کام روح کے سپرد ہے، کیوں کہ نیکی پر مسرت اور برائی پر اذیت روح محسوس کرتی ہے۔
نیک شخص ایک سلجھے ہوئے فیشن ڈیزائنر کی طرح، کردار کو لباس اور ننگے ماحول کو چادر عطا کرتا ہے۔ وہ ایسا لباس تجویز کرتا ہے جو عمر کے ہر موسم اور زندگی کے ہر سفر میں محفوظ رکھے۔ مملکت ِخیر میں گناہ کا خیال ہو کہ گناہ گارانہ عمل…نیکی کی سرحدیں پار کرتے ہی تڑی پار ہوجاتا ہے۔ وہاں سے پھر روح کے مضافات میں صرف توبہ کی شرط پر واپس داخلہ ممکن ہوتا ہے۔
کن کھجورے کی طرح گناہ کے ہزار پائوں ہوتے ہیں۔ بے حیائی، برا معاملہ اور ہوش گم کرنے والے وہ تمام ذرائع جو سب سے پہلے گناہ پرور شمار ہوتے ہیں۔ سماج میں اگر گناہ کا چلن عام ہوجائے تو اس کے خلاف پائی جانے والی فطری بے چینی سماج سے ختم ہوجاتی ہے، کردار ملیامیٹ ہوجاتا ہے، چھوٹی موٹی گمراہیوں کی دیمک یقین کے بڑے بڑے قلعے چاٹ جاتی ہے۔ برائی اور گناہ زوال رنگ ہوتے ہیں۔ شروع میں کیف و لذت کی چند گھڑیاں پھر بَد رنگی اور کوفت ہی کوفت۔
جیسے ابتدا میں کسی نے حوصلہ جتانے کو شراب پی لی، پھر اُسی شراب نے اس کی زندگی کی قیمتی حیثیت، حتیٰ کہ عزتِ نفس کو بھی گھونٹ گھونٹ پی لیا۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ سمندر سے زیادہ شراب نے انسانوں کو ڈبویا ہے۔
کہتے ہیں کہ سانپوں کی سبھا میں سادھو بھی ڈسا جاتا ہے۔ وہ گناہ جو من پسند یاروں کے ورغلانے سے سرزد ہوتے ہیں، وہ دھیرے دھیرے لت یا ہٹ بن جاتے ہیں۔ یاروں کی منڈلی پوری کفر کچہری بن جاتی ہے۔ قربت چاہے آگ کی ہو یا برائی کی، اس کو ہمیں کم نہ سمجھنا چاہیے۔ پہلے پہل بھلی لگنے والی خوش نما برائی بڑھتے بڑھتے رواج پانے لگتی ہے۔ دھیرے دھیرے دوستوں کے حلقے میں باہمی رضامندی سے چند نئے سیاہ قوانین جنم لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ تب ہوتا ہے جب ہم اپنی سماجی ذمے داریوں سے بے پروا ہوجاتے ہیں۔ غیر سماجی، غیر مہذب کھلنڈرے دوستوں کے دیے ہوئے برائیوں کے تحفے قبول کرتے ہیں، اور برائی کے یہی تحفے سب سے چھپا کر ہم خدا کو دیتے ہیں۔ دنیا کو خبر بھی نہیں ہوتی جس کے بدلے ہم خدا کا قہر سمیٹتے ہیں۔
گناہ گار کو اپنی سانسوں کی تازگی کا احساس جاتا رہتا ہے۔ دنیا چاہے محسوس نہ کرے لیکن دھیرے دھیرے اس کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے اس کی اپنی روح مُردہ ہوچکی ہو، یا کوئی وحشی جانور کی روح ویران بستیوں میں ہو اور اس کی بدبو سے ابکائی آرہی ہو۔ برائی بدبودار غلاظت ہے۔ ہر خوشبو پسند انسان اس سے پناہ مانگتا ہے۔ بظاہر گناہ کے ہاتھوں میں اوزار نہیں ہوتے، ایک صرف ’’جھوٹ‘‘ ہوتا ہے جو اسے دوسرے اوزاروں سے لیس کرتا رہتا ہے۔ گناہ کا کام برباد کرنا، اور نیکی کا کام آباد کرنا ہوتا ہے۔ گناہ کو فنا اور نیکی کو بقا حاصل ہے۔گناہوں سے بچنے کا ایک ہی آسان راستہ ہے۔ ایک احساسِ ندامت، دل و جان سے توبہ اور روح سے چلے چند آنسو۔ توبہ کے آنسو کو کبھی کم نہ جاننا۔ آنکھ کے اس پانی کی تلاش میں روح مریخ اور زحل سے بھی دور سفر کرتی ہے تب کہیں جاکے اُسے روح کی گہرائیوں میں یہ چند بوند ملتی ہیں۔ یہ آنسو اس یقین کی علامت ہے جہاں روح کے مضافات میں خیر کے قافلے گزارے جاسکتے ہیں۔ توبہ پڑائو ہے بلندی کے سفر کا۔ توبہ نفس کی جنگ کا سپر ہے۔ توبہ کے بعد سینہ صاف ہوجاتا ہے، گناہوں سے نفرت ہوجاتی ہے۔ گناہوں سے محروم روح توبہ سے ایک بار پھر پھلنے پھولنے لگتی ہے۔ گناہ کی ہر گتھی کا ایک اخلاقی حل توبہ ہے۔ یہ ایک طرح سے زندگی کے راستے میں بنایا گیا یوٹرن ہے، جہاں اُٹھے ہوئے غلط قدم ایک ہلکے سے پھیر سے واپس سیدھے راستے کی طرف آتے ہیں۔ یہ راستہ خوشبو سے بھرا، نیکی کے نغموں سے سجا اور دل کش سچائیوں سے آباد پُرنور سڑک ہے، جو سیدھی روح کی نور نگری تک جاتی ہے۔
اچھائیاں اس زندگی میں عزت اور آنے والی زندگی میں جنت کی شہریت دلاتی ہیں۔ اُس جنت کی شہریت جس کے شہری انبیا، صلحا و شہدا ہوں گے۔ نیکیاں اُڑان بھرتی ہیں، نور برساتی ہیں، خوشبو بکھیرتی ہیں، اور کبھی اتنی بلندی تک پرواز کرتی ہیں کہ راست جنتیںسجانے میں لگ جاتی ہیں، اور جنتوں میںہمارے لیے استقبالیہ نغمے گاتی ہیں۔ دوسری طرف برائیاں Boomerang سا اچھالا ہوا کمان صورت خنجر ہوتا ہے جو پلٹ کر آتا ہے۔ برائی سماج کی روح میں گونج بن کر پھیلتی رہتی ہے۔ 50 سال پہلے کیا ہوا باپ کا گناہ بیٹی کی جوانی مانگ لیتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے نیکی کا سرچشمہ روح کے اندر سے پھوٹے، ورنہ باہر کے دبائو کے دکھاوے کے کام ہوسکتے ہیں۔ کرشن بہاری نورکا ایک پُرنور شعر یاد آیا:
ضمیر کانپ ہی جاتا ہے آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے کہ ہو گناہ کے بعد