ہم کیوں مسلمان ہوئے

ڈاکٹر نشی کانت چٹوپا دھیا بنگال کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معزز ہندو خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں کلکتہ میں پیدا ہوئے اور ملازمت کے سلسلے میں حیدرآباد منتقل ہو گئے‘ وہ بے مثال اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ حق کی تلاش میں انہوں نے ہندی‘ انگریزی‘ جرمن‘ فرانسیسی اور پالی زبانیں سیکھیں۔ دنیا کے تمام مذاہب کا بغور مطالعہ کیا‘ مگر کسی پر مطمئن نہ ہوئے۔ ان کے بقول اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان میں سے کوئی مذہب بھی تاریخی معیار پر ثابت نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ پھر ان کی واقعیت پر کیسے یقین کیا جائے اور انہیں کیوں کر مستند مانا جائے۔
آخر میں انہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور وہ یہ دیکھ کر رہ حیران رہ گئے کہ اسلام کی تعلیمات آج بھی اپنی اصل صورت میں محفوظ ہیں۔ اسلام کی شخصیات مکمل طور پر تاریخی شخصیات ہیں‘ دیو مالیت کا ان پر سایہ بھی نہیں پڑا۔ خصوصاً وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل‘ بھرپور اور جامعہ شخصیت سے بہت متاثر ہوئے۔ لکھتے ہیں ’’یہ حقیقت ثابت شدہ ہے کہ پیغمبرِ اسلامؐ کی زندگی کے بارے میں کوئی بات مبہم اور دھندلی نہیں اور نہ پراسرار یا دیو مالائی ہے جیسا کہ مثال کے طور پر زرتشت‘ شری کرشن حتیٰ کہ بدھ اور مسیح کی زندگیاں نظر آتی ہیں۔ بعض دیگر پیغمبروں کے وجود تک کے بارے میں اہل علم نے شکوک و شبہات‘ بلکہ انکار کا اظہار کیا ہے‘ مگر جہاں تک میں جانتا ہوں کہ کسی شخص نے بھی پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں یہ کہنے کی جسارت نہیں کی کہ وہ توہماتی شخصیت ہیں یا وہ جنوں‘ پریوں کی داستان سے مشابہ ہیں۔‘‘ اس مقام پر ڈاکٹر چٹوپادھیا نے اپنی مسرت کا اظہار یوں کیا:
’’واہ کس قدر تسکین کی بات ہے کہ آخر کار انسان کو صحیح معنوں میں ایک ایسا پیغمبر مل جائے جس کی صحیح معنوں میں تاریخ شہادت دیتی ہو اور جس پر وہ ایمان لاسکے۔‘‘
ڈاکٹر چٹوپادھیا نے مئی 1904ء میں حیدرآباد دکن کی مکہ مسجد میں ہزاروں مسلمانوں کی موجودگی میں اسلام قبول کیا۔ ان کا اسلامی نام عزیز الدین رکھا گیا۔ ہندو پریس نے الزام لگایا کہ ڈاکٹر موصوف حیدرآباد دکن کی مخصوص فضا میں محض دنیاوی فوائد کی خاطر مسلمان ہوئے ہیں‘ تب 26 اگست 1904ء کو حیدر آباد کے فتح میدان میں ایک بہت بڑے جلسۂ عام میں انہوں نے انگریزی میں ایک مفصل اور طویل تقریر کی جس میں اپنے قبولِ اسلام کی وجوہ تفصیل سے بیان کیں۔ جلسے کی صدارت حیدرآباد کے ایک معروف عالم سید شاہ عبدالرحیم نے کی جب کہ اسٹیج پر ریاست کے متعدد سربرآوردہ قائدین تھے۔ اس تقریر کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان کیا اور بعدازاں اسے اپنی ادارت میں چھپنے والے ماہانہ رسالے ’’رہبر دکن‘‘ کے شمارہ 1904ء میں شائع کر دیا۔
مضمون کی اصل تحریر مشکل بھی ہے اور موجودہ دور کے اعتبار سے نامانوس بھی اس لیے مجھے تقریباً ساری کی ساری تبدیل کرنی پڑی۔
…٭…
جنابِ صدر انجمن اور حاضرین جلسہ!
ایک پرانی مثل ہے کہ زمانۂ حال کا ادراک اس وقت تک پوری طرح نہیں ہوسکتا جب تک ہم زمانۂ ماضی کے بارے میں ضروری باتیں معلوم نہ کرلیں۔ چونکہ مجھے آپ حضرات کے سامنے اس وقت وہ اسباب بیان کرنا ہیں جن کی بنا پر میں نے دنیا کے دیگر بڑے بڑے مذاہب کو چھوڑ کر اسلامِ قبول کیا ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ میں شک اور یقین کے ان مختلف مراحل کی اجمالی تفصیل بیان کر دوں جو اوائل عمر سے قبولِ اسلام تک مجھے طے کرنے پڑے ہیں۔
میرا آبائی تعلق ایک ہندو خاندان سے ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ہندوئوں میں بُت پرستی‘ مظاہر پرستی اور شرک و خرافات کی بے شمار اقسام رائج ہیں۔ لیکن آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ آغاز شعور ہی سے میرے دل و دماغ نے ان بے بنیاد عقائد کو مسترد کر دیا تھا اور میرا ضمیر ہمیشہ سے ایک ایسے مذہب کی تلاش میں رہا جو سچا اور برحق ہو۔ چونکہ میرا رجحان تحقیقِ حق کی طرف تھا اس لیے سب سے پہلے میرا تعلق برہمو سماج اور عیسائیت سے قائم ہو۔ ان دنوں یہ مذاہب بنگال کی نئی نسل کو بڑی تیزی سے متاثر کر رہے تھے اور برہمو سماج کے رہنما بابو کیشب چندرسین کی سرگرمیاں زوروں پر تھیں۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب ان کی فصیح و بلیغ تحریریں پڑھتا تھا تو مجھ پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور طبیعت پرجوش اور سرخوشی چھا جاتی تھی۔
برہمو سماج کے تعلق سے میرا تعارف انگلستان اورا مریکا کے بعض بڑے بڑے توحید پرست عیسائی علماء سے ہوا جن میں تھیوڈور پارکر کا نام سرِ فہرست ہے۔ اس شخص کی تصانیف سے مجھے گہرا قلبی تعلق ہو گیا۔ میں اسے پیغمبر اور نبی سمجھنے لگا۔ سفر و حضر میں اس کی کوئی نہ کوئی کتاب میرے پاس رہتی اور جس طرح لوگ قرآن اور بائبل کی تلاوت کرتے ہیں‘ میں تھیوڈور پارکر کی تحریریں اسی ذوق و شوق سے پڑھتا تھا۔
اسی دوران مجھے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان جانا پڑا اور میرا داخلہ اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرا یونیورسٹی میں ہوا۔ وہاں میرا رابطہ بعض بڑے ہی نیک نہاد اور راسخ العقیدہ پروٹسٹنٹ عیسائیوں سے قائم ہوا۔ ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی۔ میں ان کی محفلوں میں شامل ہونے لگا اور ان کے خلوص سے بڑا متاثر ہوا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بالغ نظر و باشعور لوگ تھے مگر مجھے بڑا تعجب ہوتا کہ وہ اپنے گناہوں کو یاد کر کر کے زارو قطار رونے لگتے اور رقت کی وجہ سے بعض لڑکیوں پر غشی طاری ہو جاتی۔ یقینا وہ لوگ اخلاص‘ درد مندی اور انسانی خیر خواہی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ مجھ سے بھی غیر معمولی محبت سے پیش آتے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں بھی مذہب عیسوی قبول کر لوں اور مغفرت و نجات کا مستحق بن جائوں۔ خود میرا دل بھی ان کے رویے سے متاثر ہو کر عیسائیت کی طرف مائل ہونے لگا۔ ان کی مذہبی مجالس میں شمولیت میرا معمول بن گیا اور میں کبھی کبھی ان کی نمازوں (Prayers) میں بھی شامل ہونے لگا‘ لیکن مسیحیت کے لیے دل میں گہرا نرم گوشہ پیدا ہونے کے باوجود دو باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں یعنی کفارہ اور اور عذاب ابدی۔
ان ناقابل فہم عقائد کی تفہیم کے لیے میں ایڈنبرا کے ایک ایسے گرجے میں بھی جانے لگا جہاں کے پادری توحید پرست تھے۔ ان کی بہت سی تقریریں سنیں‘ مگر عقدہ لایخل ہی رہا۔ پادری صاحبان کے لیکچر بڑے ہی پھیکے اور بے روح تھے اور میں ان کے غیر دل کش اسلوب اور بے جان دلائل سے ذرا بھی مطمئن نہ ہوا۔ سکون کی منزل اب بھی نظروں سے دور تھی۔
ایڈنبرا میں مجھے ٹامس کارلایل کی تصانیف دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کے نتیجے میں میرے اندر جرمن مشاہیر اور لٹریچر کے لیے بے پناہ اشتیاق پیدا ہوا۔ لوتھر‘ گوئٹے اور ہٹلر کا سکہ میرے دل میں بیٹھ گیا اور میں نے بڑے ذوق و شوق سے جرمن زبان سیکھنی شروع کر دی جرمنی کی محبت میرے دل میں اس طرح جاگزین ہوئی کہ جی چاہتا تھا کہ اس ملک کی خوب سیاحت کروں جس نے علم و فلسفہ کے شعبے میں نابغہ روزگار لوگ پیدا کیے۔اسی یونیورسٹی سے سائنس‘ لٹریچر اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کروں جہاں سے کوئٹ‘ لیستگ اور لایشنر فارغ التحصیل ہوئے تھے چنانچہ ایک روز میں نے ایڈنبرا کا قیام ترک کیا اور جہاز پر بیٹھ کر الاپئزنگ یونیورسٹی سے علم نباتات‘ علم حیوانات اور علم ترکیب اجسام (نباتی و حیوانی) میں تعلیم شروع کی اور اس حوالے سے مجھے ڈارون کے نظریۂ ارتقا نے بہت جلد اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ان دنوں یہ نظریہ جرمنی کے علمی و سائنسی حلقوں میں زور و شور سے زیر بحث تھا۔چنانچہ میںنے بیوخز‘ ہیگل‘ ڈارون اور خصوصاً ہربرٹ سپنسر کی تصانیف کا دقتِ نظر مطالعہ کیا۔ مؤخر الذکر نے نظریۂ ارتقا کو عملی طر پر مذہب‘ تدبیرِ مملکت‘ تمدن و معاشرت سب پر منطبق کیا تھا اور انسانی خیالات و جذبات اور اس کے مختلف شعبوں کو اس اصول کا تابع ثابت کر دکھایا تھا۔ اس نے اپنے دعوے کے ثبوت میں اس کثرت سے مثالیں دی تھیں اور دلائل کا وہ کمال دکھایا تھا کہ مجھے یوں لگا کہ دنیا نے افلاطون اور ارسطو کے بعد سب سے بڑا فلسفی ہربرٹ سپنسر ہی پیدا کیا ہے اور اس نے نظریہ ارتقا کی جو تشریح و تعبیر کی ہے وہ عملی شکل میں بنی نوع انسان کا مستقبل کا مذہب بن جائے گا۔ اس مسئلے نے میری تمام ذہنی مشکلات کو حل کرکے سارے شکوک و شبہات رفع کر دیے اور بہت سی باتیں جو لایخل معما بنی ہوئی تھیں‘ اس کی بدولت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئیں۔ یقینا یہ نظریہ میرے نزدیک ایسی چٹان تھا جس پر انسانی خیالات و نظریات کی آئندہ عمارت بلاخوف و خطر تعمیر کی جاسکتی ہے۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ صحیح تھا لیکن نظریۂ ارتقا ئی خالقِ کائنات اور قادرِ مطلق خدا کی ہستی کے لیے بہت کم گنجائش چھوڑی تھی۔ اس نظریے کو تسلیم کرنے کے بعد نہ دعا کی ضرورت باقی رہتی تھی نہ حیاتِ بعدِ ممات کی۔ نظریہ ٔ ارتقا اوّل و آخر مادّیت کا پرچارک ہے اور اس کے ساتھ مذہب اور روحانیت کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں بنتا۔ چنانچہ ان دنوں میری عجیب و غریب کیفیت تھی۔ میں بیک وقت آگسٹ کانت کے فلسفیانہ مذہب پوزٹیوزم (Psoitivism) اور ہکسلے کے مذہب لااوریہ (Skepticism) کا قائل تھا۔ اس وقت میری حالت یہ تھی کہ میں اسٹراس کی کتاب ’’مذہب قدیم و جدید‘‘ جان سٹورٔت مل کی ’’مذہب پر تین خطابات‘‘ اور خصوصاً اس کی دل چسپ سوانح عمری بڑے اشتیاق سے پڑھتا تھا۔ آرتھرشوپن ہائر کی فلسفیانہ کتابوں کا مطالعہ تعلیم یافتہ حلقوں میں فیشن سمجھا جاتا تھا۔ میں نے ان کتابوں کے ساتھ بعض دوسرے جرمن فلسفیوں کی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا جس کا اثر یہ ہوا کہ میری طبیعت کا میلان بدھ مذہب کی طرف ہوتا چلا گیا اور آخر کار میں اسی مذہب کا پیروکار ہو گیا۔
حضرات! بدھ مذہب کی قدیم ترین کتبِ مقدسہ کے حوالے سے اس مذہب نے بلاشبہ اعلیٰ ترین ضابطۂ اخلاق پیش کیا ہے اور رنگ و نسل اورعلاقہ و زبان کے امتیازات سے بالاتر ہوکر محض انسانیت اور مساوات کی بنیاد پر ایک معاشرے کا پرچار کیا ہے‘ اس لیے مہاتما بدھ کے مذہب نے گویا میری روح کی پیاس بجھا دی اور میں اس کا والہ و شیفتہ ہو گیا۔ چنانچہ میں نے نہ صرف اس مذہب کے بارے میں وہ ساری کتابیں پڑھ ڈالیں جو انگریزی اور جرمن زبان میں مجھے مل سکیں‘ بلکہ خاص اہتمام کرکے پالی زبان سیکھی تاکہ مسئلہ نروان کے جو صحیح معنی میں اس زمانہ میں سمجھا تھا‘ اس کی تفسیر کے لیے مہنداپرسنا کا ایک باب ترجمہ کر سکوں۔ اس زمانے میں‘ میں نے جرمنی میں بدھ مذہب اور عیسائیت پر کئی لیکچر بھی دیے اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بدھمت بعض حیثیتوں سے مذہبِ عیسوی پر فوقیت رکھتاہے۔ یہ لیکچر شائع بھی ہوئے اور مذہبی حلقوں میں اس پر شور بھی مچا۔
لیکن بدھ کے رگ و پے میں عقیدہ جاری و ساری ہے کہ دنیا کے تمام مظاہر رنج و مصیبت کا پہلو لیے ہوئے ہیں اوردنیا کی حقیقت ایک غم گدے کے سوا کچھ نہیں۔ اسسے میری طبیعت جلد ہی اس مذہب سے اکتا گئی۔ عجیب تماشا ہے کہ میرے جسم و روح کی قوتیں دنیاوی مشاغل اور لذات کے لیے بے قرار ہیں‘ مگر ایک فلسفیانہ مسلک مجبور کرے کہ ان فطری جذبات و احساسات میں سے بعض کو دبا دو اور بعض کو کچل دو۔ ظاہر ہے اس قسم کا مذہب ایک جیتے جاگتے انسان کا کب تک ساتھ دے سکتا ہے؟
حضرات! میری کیفیت اس زمانے میں بعینہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ابتدائی دور کی سی تھی۔ میں بھی ہر چمکتے ستارے اورجگمگاتے ہوئے ستارے کی طرف لپک پڑتا تھا اور اسے اپنا ہادی و رہنما سمجھ لیتا تھا۔ لیکن بار بار دھوکا کھاتا تھا اور منزل کا دور دور تک پتا نہ ملتا تھا۔ روحانی خلا کے اس دور میں مجھے پہلے پیرس اور پھر ایک سال کے بعد سینٹ پیٹرز برگ جانے کا اتفاق ہوا۔ پیرس میں مجھے فرانسیسی زبان پر عبور حاصل ہوگیا۔ میں نے اس کی تحصیل کی ابتدا الائپزنگ میں کی تھی اور فرانسیسی زبان نے گویا میری آنکھیں کھول دیں۔ میں نے مولیر‘ رسین‘ والٹیر‘ وکٹرہیوگو‘رینان اور تین کی کتابیں مزے لے لے کر پڑھیں خصوصاً والٹیر کے بارے میں میری یہ رائے بنی کہ دنیا میں اس سے بڑھ کر عالم فاضل شخص کوئی پیدا نہیں ہوا‘ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یقین کی دولت مجھے میسر نہآئی۔ تشکیک کی لَے پہلے سے بھی بڑھ گئی خصوصاً والٹیر کی ’’ایورس‘‘ کی چالیس جلدوں کے مطالعے نے جس میں انسانی احساسات و خیالات پر ہر پہلو سے بحث کی گئی ہے‘ بدھ مذہب کی اہمیت میرے دل سے ختم کر دی کہ اس مذہب کے زیرِ اثر میں ہر مادّی شے کو سرچشمۂ اَلم و مصیبت سمجھنے لگا تھا۔ والٹیر کے مطالعے نے اس احساس کو مثبت رنگ دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی میںنے دیکھاکہ اگرچہ رینان کے ہاں سو فسطائیت کی آمیزش بھی تھی‘ پھر بھی وہ اخلاقِ عامہ اور حسنِ معنوی کا پرچارک تھا۔ چنانچہ ’’حیاتِ مسیح‘‘ میرے نزدیک اس کی بہترین تصنیف ہے جس کے شاعرانہ طرزِ ادا اور اخلاقی حقائق نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ رینان کی تصانیف کے مطالعے نے مجھ پر ایک اضافی اثر یہ مرتب کیا کہ میں سامی زبان و مذہب کو خاص دل چسپی کی نظر سے دیکھنے لگا۔
(جاری ہے)
چند سال قبل میکسملر کے تصانیف کے گہرے مطالعے نے مجھے بہ خوبی سکھا دیا تھا کہ مختلف زبانوں اور مذاہب کا مطالعہ سائنٹیفک انداز میں کیسے کیا جاتا ہے چنانچہ رینان کی کتابوں نے میرے اندر سامی مذاہب اور زبانوں سے دل چسپی پیدا کی تو میں نے ارادہ کر لیا کہ میں دنیا کے تمام بڑے مذاہب یعنی یہودیت‘ عیسائیت‘ مجوسیت‘ بدھ مت اور اسلام کا خوب توجہ سے مطالعہ کروں گا اور تقابلی موازنہ کرکے دیکھوں گا کہ ان میں سے نسبتاً کون سا مذہب زیادہ خوبیاں رکھتا ہے۔
اس مطالعے کی روشنی میں آغاز میں کچھ عرصے کے لیے میں عیسائیت کو سامی اور آرین مذاہب کا مرکزِ اتصال سمجھتا رہا اور اگر پاپائے اعظم کا معصوم عن الخطا ہونے اور عشائے ربانی اور اسی نوعیت کے بعد دیگر عقائد جنہیں میں اپنی جرمن تعلیم کے تحت قطعی لایعنی اور بے بنیاد سمجھتا تھا‘ میرے راستے میں حائل نہ ہوتے تو میں رومن کیتھولک عیسائی ہو گیا ہوتا۔
مطالعے کا یہ اسلوب جاری تھا کہ میں واپس ہندوستان آگیا اور حیدرآباد میں ملازمت کا آغاز کیا۔ یہاں آکر پہلے میں نے مذہبِ زرتشت یعنی مجوسیت پر تحقیق کی اور پھر اسلام کا مطالعہ شروع کیا۔ اس کے لیے میں نے حیدرآباد کی معروف لائبریریوں کے علاوہ شمس العلما مولوی سید علی بلگرامی اور مولوی چراغ علی صاحب کے کتاب خانوںسے بھی بھرپور استفادہ کیا اور خدا کا شکر ہے کہ سالہا سال تک متناقض عقائد اور متضاد مذاہب و فلسفہ کی دلدلوں میں ٹھوکریں کھانے کے بعد میری تھکی ہاری روح کو قرار آگیا اور مذہبِ اسلام کی صورت میں اسے وہ منزل ملگئی جس کی تلاش میں وہ ایک عرصے سے بھٹک رہی تھی۔ میں نے قرآن کا اور پیغمبرِ اسلامؐ کی سیرت کا مطالعہ کیا اور مجھے ان سارے سوالات کے جوابات مل گئے جو برسہا برس سے مجھے پریشان کیے ہوئی تھے اور کسی مذہب اور فلسفہ نے مجھے ان کے سلسلے میں مطمئن نہیں کیا تھا۔ مجھے ایک سادہ‘ سریع الفہم‘ عقل کے عین مطابق اور بے حد قابلِ عمل مذہب گیا۔ دینِ اسلام نے میرے دل و دماغ کو مسخر کر لیا اور میں آپ کی برادری کا ایک رکن بن گیا۔
حاضرینِ گرامی! مذہب اسلام کی پہلی خصوصیت جس نے مجھے غیر معمولی انداز میں متاثر کیا وہ اس کی تاریخی حیثیت ہے۔ اس مذہب کی بنیاد ایک ایسی کتاب پر استوار ہے جس میں صدیاں گزر جانے کے باوجود آج تک معمولی سی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اس کتاب کو قصوں‘ کہانیوں‘ غیر مربوط پیش گوئیوں اور شاعرانہ انداز کی سوانح عمریوں کا ایک گیر متجانس مجموعہ سمجھنا چاہیے جو مختلف زمانوں میں ترتیب دیا گیا‘ جس کی الگ الگ اور متعدد مصنف تھے اور جس کوایک سانچہ میں خدا جانے کب اور کس طرح ڈھال لیا گیا بلکہ یہ کتاب ایک صحیفۂ واحد ہے اور اس میں ایسا حیرت انگیز تسلسل اور یک رنگی ہے کہ کوئی بھی غیر متعصب اور منصف مزاج انسان اس کے برحق ہونے میں شبہ نہیں کرسکتا۔ پھر اس کا پرشکوہ مگر سادہ اسلوب‘ انسانی نفسیات کے عین مطابق مسائل کا ادراک اور مادی و روحانی معاملات میں انسان کی مکمل اور قابل عمل رہنمای‘ اسے ایک ابدی رہنما کتاب ماننے پر مجبور کرتی ہے۔
اسلام کا دوسرا سرچشمۂ ہدایت اس کا نبیؐ ہے جس کا تاریخی وجود محقق و مسلم ہی نہیں بلکہ جس کی زندگی کی تمام ضروری تفصیلات اس کی شکل و شمائل‘ عادات و خصائل یہاں تک کہ ذاتی خصوصیات کا ہمیں ایسا ہی علم ہے جیسا آلیور کرامویل یانپولین بونا پورٹ کے بارے میں۔ عیسائیت اور دیگر مذاہب کے مصنفین اس عظیم ہادی و رہبر پر کیچڑ اچھال سکتے ہیں‘ اسے برا بھلا کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے تاریخی وجود پر شک کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا۔ یہ حقیقت ثابت شدہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی زندگی کے بارے میں کوئی بات مبہم اور دھندلی نہین‘ نہ پراسرار یا دیومالائی ہے جیسا کہ مثال کے طور پر زرتشت‘ سری کرشن حتیٰ کہ بدھ اور مسیحؑ کی زندگیاں نظر آتی ہیں۔ بعض دیگر پیغمبروںکے وجود تک کے بارے میں اہل علم نے شکوک و شبہات بلکہ انکارکا اظہار کیا ہے‘ مگر جہاں تک میں جانتا ہوں کسی شخص نے بھی پیغمبرِ اسلام کے بارے میں یہ کہنے کی جسارت نہیں کی کہ وہ توہماتی شخصیت ہیں یا وہ جنوں پریوں کی داستان سے مشابہ ہیں۔ یہ امر کس قدر موجب تسکین ہے کہ آخر کار انسان کو صحیح معنوں میں ایک ایسا پیغمبر مل جائے جس کی تاریخ شہادت دیتی ہو اور جس پر وہ ایمان لاسکے۔
اسلام کی یہ تاریخی بنیادی ایسی ہے کہ ارفسٹ رینان جیسا متشکک فلسفی اور مورخ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس نے اپنی مشہور کتاب ’’تاریکِ مذاہب‘‘ (صفات 220 تا 230) میں اس حوالے سے دینِ اسلام کی خوب تحسین کی ہے۔ پروفیسر باسورتھ سمتھ بھی اس اعتبار سے رینان کا ہم صفیر ہے‘ وہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور دینِا سلام پر اپنے لیکچرز میں لکھتا ہے:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں مسیح کی زندگی کے ایک حصہ کے صرف چند اجزا معلوم ہیںیعنی صرف آخری تین سال کی کچھ تفصیلات جب کہ باقی تیس سال کا عرصہ ہماری نگاہوں سے بالکل مستور ہے۔ لیکن اسلام کی ہالت اقس کے بالکل برعکس ہے یہاں موہوم اور مبہم واقعات کے بجائے تاریک کی بھرپور روشنی نطر آتی ہے۔ ہمیں محمدؐ کے حالات اس قدر معلوم ہیں کہ جس قدر لوتھر اور ملٹن کے۔ مصنوعی‘ روایتی اور فوق العادت واقعات اوول تو عرب مصنفین کی کتابوں میں پائے ہی نہیں جاتے اور اگر شاذ نادر یہ نظر بھی آتے ہیں تو ان میں اور تاریخی حقائق میں فرق کیا جاسکتا ہے۔ یہاں نہ تو کوئی شخص خود اپنے آپ کو فریب دیتا ہے اور نہ دوسروں کا فریب کھاتا ہے۔ ہر چیز روز روشن کی طرح مصفا و منقح ہے۔ قرآن کے سارے الفاظ بلاشک و شبہ بغیر کسی کسر یا اضافہ کے بعینہ محمدؐ کے الفاظ ہیں۔ ہم ایک مذہب کا طلوع ہونا اور اس کا نشوونما پانا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔‘‘
اس ضمن میں کارلائل کی شہادت بھی پیش کروں گا۔ یورپ کا یہ عظیم اوربے حد معتبر مؤرخ اپنی کتاب ’’ہیروز اینڈ ہیروورشپ‘‘ میں لکھتا ہے:
’’قرآن کو پڑھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کتاب کی سب سے پہلی خصوصیت اس کا حقیق‘ اصلی اور بے میل ہونا ہے۔ میری دانست میں قرآن کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ یہ ہر لحاظ سے سچا ہے۔‘‘
حضراتِ محترم! دوسرا سبب جس نے مجھے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی‘ یہ ہے کہ یہ مذہب نہایت ہی عقل کے مطابق ہے۔ عیسائیت کی طرح اسلام میں ہمیں انتالیس ارکان پر ایمان نہیں لانا پڑتا جن میں ایسے ایسے معتقدات بھرے پرے ہیں کہ نہ عقل ان کا ادراک کرتی ہے نہ شعور ان کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام میں صدقِ دل سے صرف ایک سیدھے سادے قول کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اور وہ ہے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ اور یہ ایسی بات ہے کہ ایک عام عقل کی آدمی سے لے کر عالم اور فلسفی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور ایک معمولی انسان سے لے کر بادشاہِ وقت تک اس کے تقاضوں پر عمل کرسکتا ہے۔ توحیدِ کداوندی گویا اسلام کی جان ہے اور ہر صحیح الدماغ اور معتدل حواس کا انسان جس کی قوتِ ممتیزہ کسی وجہ سے مسخ نہ ہوگئی ہو اور ہر وہ شخص جو ضدی قسم کا ملحد اور زندیق نہ وہ‘ خالقِ کائنات کی وحدت کا انکار نہیں کرسکتا۔ اسلام ہمیں مسیحی اکابر کی طرح تثلیث فی التوحید کا درس نہیں دیتا یا ہندو مت کی مانند تین کروڑ دیوتائوں اور دیویوں کی پرستش کی ترغیب نہیں دیتا بلکہ خدائے یکتا کی وحدانیت کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ خدا جو خالقِ کون و مکاں ہے‘ جو عالم الغیب و الشہادہ ہے‘ وہ جو حکیمِ مطلق اور رحمن و رحیم ہے۔ اس کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کی تلقین بھی کی گئی ہے کہ آپؐ کی رہنمائی کے بغیر دینی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کارلائل نے ’’ہیروز اینڈ ہیروورشپ‘‘ میں انہیں جس طرح خراج عقیدت پیش کیا ہے اس کا ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں:
’’منصبِ نبوت پر فائز ہونے سے قبل ہی اس سیاہ چشم‘ روشن جبیں‘ فراخ حوصلہ‘ کریم النفس‘ محفل پسند اور درد بھرے‘ مخلص بادیہ نشیں کے خیالات جاہ طلبی سے کوسوں دور تھے۔ اس شخص کی متانت میں عظمت نظر آتی تھی اور اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو سچائی کی علمبردار اور فطرتاً بے لوث اور صداقت شعار ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ سنی سنائی توہمانہ باتوں کو اپنا مسلک قرار دے کر اپنے دل کو مطمئن کر لیتے تھے مگر محمدؐ کی تسکین اس انداز کی باتوں سے نہیں ہوتی تھی۔ وہ قابلِ احترام شخص عرصۂ کائناتمیں واقعی اکیلا کھڑا تھا اور اس کا دماغ اس نوعیت کے ہزاروں خیالات سے بھرا رہتا تھا کہ میں کیا ہوں؟ یہ دنیا کیا ہے‘ زندگی اور اس کا مدعا کیا ہے؟ موت کیا ہے؟ میں مانوں تو کیا مانوں اور کروں تو کیا کروں؟ ان سوالات کے ساتھ وہ کوہِ حرا کی ہیبت ناک چٹانوں اور ریگستانوں کی درشت تنہائیوں میں سرگرداں رہا اور آخر کار اسے ان کا جواب مل گیا‘ خدا کی الہامی قوت نے اسے انسانوں کی رہنمائی کے لیے چن لیا۔‘‘
چنانچہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے یہ دونوں بنیادی ارکان یعنی توحید اور رسالت جن کے اقرار سے ایک انسان مسلمان ہوتا ہے‘ ہماری عقل و دانش کا اعلیٰ ترین تقاًضا ہیں۔ یہ بات اوورڈنائٹل جیسے مسیحی مصنف نے بھی تسلیم کی ہے۔ چنانچہ موصوف اپنی کتابن ’’تبلیغ دین مسیحی اور اس کے مسلمان حریف‘‘ میں لکھتاہے کہ مذہب اسلام لفظ معقول (Rational) کے وسیع ترین معنوں میں اصطلاحی و تاریخی اعتبار سے معقول ہے۔ معقولات کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ وہ طریقۂ خیال ہے جو مذہبی عقائد کو اصولِ عقلی پر مبنی قرار دیتا ہے اور یہ تعریف اسلام پر پوری طرح سے صادق آتی ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک اسلام یہ ہے کہ خدا کی وحدانیت اور اس کے رسول کے بر حق ہونے کی تصدیق کی جائے اور یہ دو امور ایسے ہیں جو ایک منصف مزاج شخص کی نظر میں عقل کی مستحکم بنیاد پر استوار ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کو تبلیغ اسلام کی کوششوں میں جو غیر معمولی کامیابی ہوئی اس کے اسباب یہ ہیں اولاً اس مذہب کا اعلان جس یقین و وثوق‘ صدق و صفا‘ عظمت و شان اور جاہ و جلال سے کیا جاتا ہے‘ اس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں نظر نہیں آتی۔ ثانیاً جس کلمہ کو اسلام کی بنیاد بنایا گیا ہے وہ بے حد سادہ اور عقل کے مطابق ہے۔ ثالثاً جن بزرگانِ دین نے اسلام کی تبلیغ کی ان کے دل میں اسلام کی صداقت اور حقانیت کا پرجوش اور والہانہ یقین اور اس یقین کا ان کے دعوے میں ممدومعاون ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو مذہب ایسا صاف‘ فقہی پیچیدگیوں سے اس درجہ آزاد اور عقل کی رسائی کے اندر ہو‘ اس میں انسان کی قوتِ ممیزہ پر قابو پانے کی حیرت انگیز استعداد ہونی چاہیے۔‘‘ (صفحہ 18-17)
تیسری وجہ میرے قبولِ اسلام کی یہ ہے کہ یہ مذہب ہر اعتبار سے قابلِ عمل ہے‘ اس کا اخلاقی ضابطہ فطرتَ انسانی کی حقیقی ضروریات پر مبنی ہے اور نیکی کے کسی ایسے وہمی و خیالی اور مبالغہ آمیز معیار کو نہیں مانتا جو ناممکن الحصول اور ناقابلِ عمل ہو۔ دوسرے مذاہب مثلاً بدھ مت اور عیسائیت نے جو معیارِ خیر مقرر کیا ہے وہ ایک لحاظ سے بظاہر اسلام کے مقابلے میں اعلیٰ و ارفع قرار دیا جاسکتا ہے‘ مثلاًبائبل کے اس مقولہ کی شاعرانہ لطافت کی جی بھر کر تحسین کی جاسکتی ہے کہ ’’اگر تیرا بھائی تیرے داہنے گال پر ایک تھپڑ مارے تو اپنا بایاں گال بھی اس کی طرف پھیر دے۔‘‘ لیکن میں یہ پوچھتا ہوں کہ پوری مسیحی دنیا میں کوئی ایک فرد بھی اس پر عمل کرتا ہے؟ اور آیا روز مرہ کی زندگی میں اس کے مطابق عمل کرنا ممکن بھی ہے؟ لیکن اخلاقی ضابطے کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے ہمیں اس کے شاعرانہ حسن پر نظر نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ اس کی عملی سود مندی کے حوالے سے دیکھنا چاہیے کہ یہ ضابطہ ہماری فطرت کی ضروریات کو پورا کرتا ہے یا نہیں؟ ایمرسن نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’سیارہ سیرسن آفتاب سے اونچا ہوا کرے‘ مجھے اس سے کیا‘ میرے انگور تو اس سے نہیں پکتے۔‘‘ قصوں اور افسانوں سے ممکن ہے ہمیں ایسے اشخاص سے سابقہ پڑے جو اپنے کمال درجہ کے خیالی اوصاف کے اعتبار سے ہماری تعریف و توصیف کے مستحق ہوں‘ مگر روز مرہ زندگی کی بے پناہیوں میں اس قسم کے ’’کمالات‘‘ قطعی بے سود ہیں۔
نظریہ اور عمل کے حوالے سے تجرد اور مناکحت کے مسائل ہی کو لیجیے۔ بدھ مت اور عیسائیت دونوں نے اگرچہ ازدواج کو جائز قرار دیا ہے‘ لیکن تجرد کو بہرحال ترجیح دی ہے۔ برخلاف اس کے اسلام تجرد کو ہرگزجائز نہیں سمجھتا بلکہ مناکحت کو مذہبی فریضہ قرار دیتا ہے جس کا ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ازدواج کے اس لازمی طریقہ کی بدولت جس کے ساتھ خوش حال اور متمول لوگوں میں کہیں کہیں تعدادِ ازدواج کی رسم بھی دیکھنے میں آتی ہے‘ پورے عالم اسلام میں طوائفوں اور بازاری عورتوں کی تعداد لندن‘ پریسی‘ ویانا اورسینٹ پیٹرزبرگ کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہے جہاں گلیوں‘ بازاروں میں یہ مخلوق آزادانہ اپنی کارروائیوں میں مصروف رہتی ہے۔اسی تناظر میں اینگلیکن چرچ کی ایم معروف رکن پادری آئزک تیلر نے 7 اکتوبر 1887ء کو والور ہمپٹن میں ایک مذہبی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے صاف گوئی اور جرأت مندی سے کہا تھا:
’’محمدؐ نے کثرتِ ازدواج کے غیر محدود جوازکو محدو کر دیا۔ اکثر ممالکِ اسلامیہ میں کثرت ازدواج مستثنیات میں شامل ہے‘ لیکن اس اجازت نے بہت سے معاشرتی مفاسد کا راستہ روک دیا ہے اور اسلامی ممالک اس بان پر ان پیشہ ورنہ فاحشہ عورتوں سے تقریباً پاک ہیں جن کا وجود مسیحی دنیا کے لیے باعثِ ننگ و عار ہے۔ مسلمانوں کا طریقہ تعددِ ازدواج جو ایک سخت ضابطے کا پابند ہے‘ عورتوں کے لیے اس قدر ذلت و تحقیر اور مردوں کے لیے اتنا ضرر و نقصان کا باعث نہیں ہے جتنا ایک عورت کا بلا تفریق و امتیاز بہت سے مردوں کے ساتھ تعلق قائم کرنا انسانیت کے لیے باعثِ عار اور صحت کے اعتبار سے نقصان دہ ہے۔ انصاف کی رو سے اہلیورپ کو جن کے ہاں ایک عورت کے کئی کئی شوہر ہوتے ہیں‘ مسلمانوں پر طعنہ زن نہیں ہونا چاہیے جو بیک وقت اگر دو یا تین یا چار بیویوں کے خاوند ہوتے ہیں مگر سب کے حقوق کا تحفظ کرتے اور ان کی اولاد کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ برعکس اس کے کہ یورپ میں لاتعداد حرامی بچوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور یہ ہمارے معاشرے کا ناسور بنتے جا رہے ہیں۔‘‘
ان شواہد کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ نکاح کا کون سا طریقہ زیادہ قابل عمل‘ انسانی فطرت اور ضروریات کے زیادہ قریب‘ باوقار اور اخلاقی و انسانی اقدار کے مطابق ہے۔
حضراتِ گرامی! میں اسلام کی دیگر تعلیمات کا تجزیہ پیش کرکے اور دیگر مذاہب کی تعلیمات سے ان کا تقابلی موازنہ کرکے ثابت کرسکتا ہوں کہ احکامِ اسلامی میں عملی دانش اور روحانی دقتِ نظر کی آمیزش جس خوبی اور لطافت سے ہوئی ہے‘ اس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔ لیکن اس طرح بحث خاصی طویل ہو جائے گی۔ میں بات کو سمیٹتے ہوئے سید امیر علی کی کتاب ’’اسپرٹ آف اسلام‘‘ کا ایک اقتباس پیش کروں گا۔ موصوف لکھتے ہیں ’’کسی مذہب کے ہمہ گیر ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ نوعیت کے اعتبار سے قابل عمل ہو‘ باہمی معاشرتی تعلقات کو معمول پ رکھنے میں معاون ہو اور جذبات و احساسات کا ہم صغیر ہو۔ بلاشبہ اسلام اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ اس میں اعلیٰ درجہ کے نظری مقاصد انتہا درجہ کی عقلی معمولات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اسلام نے فطرتِ انسانی کو نظر انداز نہیں کیا اور کبھی اپنے آپ کو عقائد کی ان بھول بھلیوں میں نہیں ڈالا جو واقعیت اور حقیقت کی دنیا سے باہر ہیں۔‘‘
جنابِ صدر مجلس اور برادرانِا سلام! یہ وہ چند عملی اور نطری وجوہ ہیں جو میرے قبولِ اسلام کے محرک بنے ہیں اور یہی وہ اسباب ہیںجن کی بنا پر زمانۂ حال کے بعض مشاہیرِ یورپ کو اسلام کی حقانیت کا قائل ہونا پڑا۔ اٹھارہویں صدی میں والٹیر‘ گوئٹے اور گمن اور انیسویں صدی میں یورپ کے بہت سے علما و فضلا نے اسلام کے بارے میں جو موافقانہ آرا کا اظہار کیا‘ اس کا مختصر حوالہ بھی بات کو طویل کر دے گا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ انگلستان کے ایک جلیل القدر سیاسی و سماجی رہنما لارڈ اسٹینلے کے حالات اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ انہوں نے وفات سے تھوڑی دیر پہلے انکشاف کیا کہ عرصہ ہوا انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور مسلمان ہی کی حیثیت سے ان کی زندگی گزری ہے۔ میں آپ حضرات کو یقین دلاتا ہے کہ یورپ اورامریکا میں صدہا لوگ لارڈ اسٹینلے کے نقشِ قدم پر چلنے پر آمادہ ہیں۔ ارنسٹ رینان جیسا مدبر‘ عالم‘ محقق اور فلسفی اپنی کتاب ’’اسلام اور سائنس‘‘ میں برملا لکھتا ہے کہ ’’جب کبھی میں کسی مسجد میں داخل ہوا ہوں تو میرا دل بھر آیا اور مجھے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس وقت پشیمانی کا شدید احساس مجھے دبا لیتا ہے کہ میں مسلمان کیوں نہیں ہوں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنی سادگی‘ معقولیت اور قابلِ عمل ہونے کی وجہ سے انسان کے سارے مسائل کا بہترین حل پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر آف ڈیونٹی پادری مارکس ڈاڈ نے اسی لیے تو اپنی کتاب’’محمد‘ بدھ اور مسیح‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’مذہبِ اسلام کی سادگی نے اس کی غیر معمولی اشاعت و وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اَن پڑھ اور جاہل لوگوں نے بھی اس کی تعلیمات کو فوراً سمجھ لیا۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جس سے عقلِ انسانی کو فطری مناسبت ہے اور جس نے مشرکین کے دلوں میں بھی اپنی طرف سے تنفر پیدا نہیں کیا۔ جن لوگوں کو مابعدالطبعی الٰبیات کے پیچیدہ مسائل میں تلاشِ حق کے معاملے میں مایوسی ہو چلی تھی‘ وہ پرسکون ہو گئے کہ انہیں ایک سیدھا سادا مذہب مل گیا ہے جسے سمجھنے میں انہیں کوئی الجھن اور دقت پیش نہیں آتی۔‘‘ (صفحہ: 107, 106)
چنانچہ اب ہم سب مسلمانوںکا فرض ہے کہ ہم اٹھیں اور اس سادہ‘ سہل‘ فطری اور قابلِ عمل دین کو باقی دنیا تک پہنچائیں۔ بحمدللہ میں نے عزم کر لیا ہے کہ میں اس فریضے کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ انجام دوں گا۔
پس اے برادرانِ اسلام! مجھے ایک رفیق‘ ایک بھائی اور ایک خادم کی حیثیت سے اپنے دائرۂ اخوت میں شامل کرکے میری حوصلہ افزائی کیجیے‘ شکریہ۔

حصہ