’’زندگی میں خبروں سے ہی سرگرمی ہے، جب غم اور خوشی میں حد سے تجاوز ہوتا ہے تو خبر بنتی ہے، اور جب ایک ادیب اس تجاوز کو محسوس کرتا ہے تو کہانی بنتی ہے۔‘‘ یہ پُرمعنی اور خوب صورت آغاز اُس تربیتی نشست کا تھا جو حریم ادب کراچی نے لکھاریوں کی صلاحیتوں کو جلا دینے کے لیے ادارہ نور حق میں منعقد کی۔ پروگرام کی نظامت اور معاونت افسانہ مہر نے عمدگی سے انجام دی۔
جون کے تپتے دن کے بعد یہ بامقصد اور دل چسپ سرگرمیوں سے مزین ایک سحر انگیز شام تھی، ادارے کی نشست گاہ تنگی داماں کا شکار نظر آتی تھی‘ لکھاریوں کی حاضری اور ذوق و شوق میزبانوں کے لیے طمانیت قلب کا باعث تھا۔
نشست کا آغاز ماریہ کی سورۃ الحجرات کی مختصر آیات کی تلاوت سے ہوا جس میں کلام الٰہی کے ذریعے خبر کی اہمیت پر بھرپور رہنمائی ملتی ہے اور خبر ہی نشست کا اصل محور تھا۔
نشست کا عنوان خبر سے کہانی کا پلاٹ کیسے اخذ کیا تھا۔ نائب حریم ادب کراچی و معروف افسانہ نگار محترمہ توقیر عائشہ نے پُرمغز گفتگو میں لکھاری ساتھیوں کو بیش قیمت، ہمہ پہلو اور تفصیلی معلومات فراہم کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سوشل و پرنٹ میڈیا حالات حاضرہ قارئین تک پہنچانے کے دو ذرائع ہیں۔ سوشل میڈیا سے ملنے والی خبر عموماً مختصر، تشنہ اور غیر مصدقہ ہوتی ہیں اس کے مقابلے میں اخبار کی خبریں مصدقہ ذرائع سے حاصل کی جاتی ہیں اور مدیر اس کی ذمے داری بھی قبول کرتا ہے۔ اس لیے ہم اخبار کی خبر کو ہی پیش نظر رکھیں گے۔
رنج، غم، مایوسی، خوف، امید خوشی اور طمانیت سے مزین خبریں حساس ذہن کے لیے نیا در کھولتی ہیں‘ قلم کار خبر سے کہانی اخذ کر کے وہی خدمت انجام دے سکتا ہے جو ایک مضمون نگار اپنی تحریر سے دیتا ہے یعنی جہادِ بالقلم کے ذریعے لوگوں کے ذہن تک صالح اور مثبت پیغام پہنچانا اور یہ موجودہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
آج کا میڈیا باطل اور منفی نظریات لوگوں کے ذہن میں اتار رہا ہے جس میں ڈراما کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ڈرامے کا اصل جوہر اس کی کہانی ہی تو ہے۔ کہانی کے ذریعے لوگوں کی اصلاح قلم کار کا فرض ہے۔ ہر قلم کار کا ایک عہد یا دور ہوتا ہے جسے وہ اپنی تحریر میں پیش کرتا ہے یعنی حالاتِ حاضرہ تحریر کا محرک ہوتے ہیں اور اگر تحریر صداقت پر مبنی ہو تو وہ بعد میں بھی زندہ رہتی ہے۔ جیسے نسیم حجازی کے ناولز، خاک اور خون اور آخری چٹان یا قرۃالعین حیدر کا آگ کا دریا، الطاف فاطمہ کا دستک نہ دو، جہادی تحریریں پہاڑوں کا بیٹا، جہاد افغانستان، گوریلا فائٹر اور بہت سی یادگار کتابیں موجود ہیں۔ شاعری میں مسدس حالی، اقبال کا زندہ و جاوید کلام، فیض کی بعض نظمیں۔ غرض قلم کار اپنے وقت کے حالات کے مؤثر ادراک کی نمایاں مثالیں ہیں۔
آج کا لکھاری بھی شاہکار تخلیق کر سکتا ہے‘ خبروں کے متنوع موضوعات ہوتے ہیں ایک کہانی کار انہی سے موضوع اخذ کرتا ہے۔ معاشرتی، اخلاقی، مہماتی، سائنسی ہر طرح کا موضوع خبر میں موجود ہوتا ہے۔ مختصر سی خبر سے ’’دی آنٹ‘‘ جیسی شہرۂ آفاق فلم بھی بن سکتی ہے اور ’’قراقرم کا محل‘‘ جیسی ناول بھی وجود میں آسکتی ہوتے ہے۔
خبر میں حساس دل کے لیے لا تعداد موضوعات فراہم ہو جاتے ہیں لیکن ایک بامقصد اور ذمے دار لکھاری کی حیثیت سے امید اور خوشی کے پہلو ڈھونڈنے چاہیے۔ ان کاکہنا تھا کہ بعض تصاویر اور ذیلی سرخی بھی کہانی کا موضوع بن سکتے ہیں۔
جب آپ خبر سے محرک اور پلاٹ حاصل کر لیں پھر خبر کا کہانی میں نہ آنا بہتر ہے، نام اور مقام لازمی تبدیل کر دیں۔ تحریر شگفتہ، پُرمزاح ، دعوتِ فکر دینے والی ہو۔ مؤثر منظر نگاری اور کردار نگاری، کرداروں کے نفسیاتی اتار چڑھاؤ اور ایک جاندار اثر چھوڑنے والا اختتام شاہکار تخلیق کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ اتنی گونا گو اور قیمتی راہنمائی سے توقیر عائشہ نے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔
اس کے بعد منتظمین نے خبروں سے بہتریں کہانی کیسے تخلیق کی گئی اس کے دو نمونے تفصیل سے دکھائے۔ پروگرام اتنا دلچسپ تھا کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہو رہا تھا۔
اب تربیتی نشست کا عملی سیشن شروع ہوا۔ جس کے لیے بلاشبہ منتظمین نے بہت محنت کی۔ شریک لکھاریوں میں مختلف خبروں کی کاپی اور پیپرز تقسیم کیے گئے۔ ہر لکھاری کو خبر پڑھ کر فوری مختصر کہانی لکھنے کی سرگرمی سونپی گئی اس کے لیے پندرہ منٹ دیے گئے تھے۔
کہانیوں پر تبصرہ کے لیے ماہر اور معروف مصنفین کو مدعو کیا گیا تھا جن میں نائب نگراں حریم ادب ڈاکٹر عزیزہ انجم، مصنفہ فرحی نعیم اور کالم نگار فریحہ مبارک شامل تھیں۔
کہانی کی تخلیق، بھری محفل میں اور وہ بھی محض چند منٹ کے وقت میں آسان کام نہ تھا لیکن حریم ادب کراچی نے اپنے دامن میں باصلاحیت قلم کار سمیٹے ہیں۔ پندرہ منٹ گزرتے ہی کہانی سنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور بلامبالغہ ایک سے بڑھ کر ایک کہانی سننے کو ملی۔ یعنی حریم ادب کی خبر سے کہانی بنانے کی تربیت فورا ہی بروئے کار لانے کا عملی مظاہرہ ہوا۔ تبصرہ نگار مصنفین کے مشوروں اور تبصروں کے ساتھ یہ ایک دل چسپ اور یادگار محفل بن گئی تھی۔ وقت چونکہ محدود تھا اس لیے چند ہی لکھاریوں کو کہانی سنانے کا موقع مل سکا۔ کہانی سنانے والوں میں صدف امبرین، ثمرین شاہد، شہلا خضر، ڈاکٹر غزالہ، ناہید، سحر فاروقی، ثوبیہ سرفراز شامل تھیں۔
معزز مہمانوں نے وقت کی کمی کے پیش نظر مختصر گفتگو میں لکھاریوں کی بہترین رہنمائی کی۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم نے نشاندہی کی کہ اکثر لکھاری کہانی میں وہ سب کچھ کہہ دینا چاہتے ہیں جو وہ دروس میں کہتے ہیں۔ مگر اچھی کہانی خود بولتی ہے۔
محترمہ فریحہ مبارک نے کہا کہانی دو متوازی صورتوں سے چلتی ہے اور اس سے کہانی میں تنوع پیدا ہوتا ہے خبر یا واقعہ سے اخذ کر کے ہر مصنف اپنی کہانی کسی خاص نظر سے پیش کرتا ہے. میکسم گورکی کی تصنیف ’’ماں‘‘ روس کی پوری تاریخ قاری کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ اسی طرح انقلاب ایران میں تحریروں کا بڑا ہاتھ ہے۔ کہانی تو بہت سے لوگ لکھ لیتے ہیں مگرکہانی سے اصلاح کا مثبت پیغام جانا چاہیے۔
فرحی نعیم صاحبہ نے کہانی کے موضوع کی اہمیت اجاگر کی‘ انہوں نے کہا پہلے موضوع سوچیں‘ منفرد اور انوکھا۔ پامال موضوع پر نہ لکھیں‘ کہانی طویل نہ ہو، مؤثر اور مختصر لکھیں۔ کہانی دردناک بھی نہ ہو‘ قاری پر ایک دیرپا اثر چھوڑے۔
اس موقع پر منتظمین کی طرف سے کہانیوں کے لیے جن خبروں کا انتخاب کیا گیا۔ ان میں اتفاقاً دردناک واقعات کی موجودگی پر حاضرین کی جانب سے لطیف نکتہ چینی کی گئی۔ مہمان خصوصی جسارت صفحہ خواتین کی نائب نگراں محترمہ فائزہ مشتاق نے اپنے مختصر خطاب میں لکھاریوں کی تربیت کے لیے کہانی کے اختتام کی اہمیت پر زور دیا‘ اختتام ایسا ہو کہ قاری کو ایک نئی سوچ دے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر خبر سے کہانی نہیں بن سکتی ہے‘ کہانی کار کا اصل کام ہے کہ وہ خبر کو کس سانچے میں ڈھالتا ہے۔ اگر خبر سے معاشرے میں منفی پہلو نمو پا رہا ہے تو اس کا دوسرا پہلو پیش کرنا ہوگا‘ جس خبر سے کسی اچھے اور مثبت انسانی جذبے کا اظہار ہو اسے ضرور اجاگر کریں۔ قلم اٹھانے سے پہلے مطالعہ ضروری ہے۔ وسیع اور گہرا مطالعہ آپ کی تحریر کو جلا بخشے گا۔
آخر میں نگران حریم ادب کراچی عشرت زاہد نے ورکشاپ میں شرکاء کی دل چسپی پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ محفل کا جوش سے بھرپور حصہ انعامات اور اسنادکی تقسیم تھی۔ جسارت میں سو (100) بلاگس مکمل ہونے پر بلاگر لکھاری لطیف النساء کوفائزہ مشتاق نے جسارت کی طرف سے سند دی۔
تصویری کہانی کے مقابلے میں کامیاب ہونے والوں کو بھی انعامات دیے گیے. غزالہ اسلم، صباحت منصور، حمیرہ بنت فرید، نازش عامر، اور مریم شہزاد بالترتیب پہلے، دوسرے، تیسرے اور خصوصی انعام کی حقدار قرار پائیں۔ نگہت ظہیر، فوزیہ سلطان، طاہرہ فاروقی، طیبہ سلیم، عالیہ زاہد بھٹی، صبا ناظم زینت کریم، نگہت پروین اور عالیہ عثمان کو مقابلے میں شرکت پر اسناد بھی دیے۔
ثمرین احمد کی دعاکے ساتھ نشست کا اختتام ہوا. تازہ جذبوں، نئے عزائم کے ساتھ خواتین لکھاریوں نے اس یادگار پروگرام کے انعقاد پر نگراں حریم ادب عشرت زاہد اور ان کی ٹیم کو سراہتے ہوئے محفل کو خیرباد کہا.
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل ِخلیل