نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل اور کووڈ 19

416

و ہ افراد جن کی عمر10سے 20سال کے درمیان ہومتعدد جسمانی وجذباتی تبدیلی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے افراد نہ صرف ذہنی و جسمانی بدلائو کا شکار رہتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ معاشرتی و معاشی تبدیلیاں بشمول مالی حالات اور لوگوں کا رویہ نوجوان دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تنگ دستی اور ناروا سلوک نوعمروں کو ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بنا سکتی ہے۔ نفسیاتی تندرستی کو فروغ دینا اور نوعمروں کو منفی تجربات سے بچانا بے حد ضروری ہے ۔
ڈبلیو ایچ او کی اعداد و شمار کی مطابق ہر چھے میں سے ایک نوجوان جس کی عمر10 سے 19 سال ہے ذہنی عارضے کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر کی جانے والی ریسرچ کے مطابق 16فیصد بیماریاں اور حادثات میں زخمی اور مرنے والوں کی تعداد10سے19سال کے عمر کے نوجوانوں کی ہے۔
دماغی صحت کا توازن:
جوانی ذہنی تندرستی ، جذبات و عادات کی نشوونما کاایک اہم دور ہے۔ بھرپور نیند لینا، باقاعدگی سے ورزش کرنا اور جدوجہد کی لگن رکھنا ایک تندرست انسان کے لیے بے حدضروری ہے۔ جوانی میںجو عوامل تناؤ کا باعث بن سکتے ہیں ان میں زیادہ سے زیادہ خود مختاری کی خواہش‘ ہم عمر افراد کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا دباؤ، جنسی شناخت کی کھوج اور ٹیکنالوجی تک رسائی اور استعمال میں اضافہ شامل ہیں۔
جذباتی عارضے:
افسردگی یا اضطراب کے علاوہ جذباتی عارضے میں مبتلا نوجوان ضرورت سے زیادہ چڑچڑاپن‘مایوسی یا غصے کا سامنا کرسکتے ہیں۔ موڈ اور جذباتی وجوہات میں تیزی اور غیر متوقع تبدیلیوں کے ساتھ ایک سے زیادہ جذباتی عارضے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ بچپن کا غیر موثر ماحول:
بچپن میں ناروا سلوک 10-15 سال کی عمر کے نوجوانوں میں نفسیاتی بیماری کی دوسری اہم وجہ ہے بچپن میں بدسلوکی اور توجہ کی کمی ہائپرایکٹویٹی ڈس آرڈر (توجہ دینے میں دشواری، ضرورت سے زیادہ سرگرمی اور نتائج کے حوالے سے عمل کرنے سے خصوصا جو کسی شخص کی عمر کے لیے مناسب نہیں ہوتا ہے) شامل ہوتا ہے۔
کھانے میں بداحتیاطی:
کھانے میں بداحتیاطی عام طور پربچپن یعنی10سال کی عمر سے سامنے آنا شروع ہو جاتی ہے۔ کھانے کی بد اعتدالی مردوں سے زیادہ عام طور پر خواتین پر اثر انداز ہوتی ہے جو افسردگی، اضطراب اور مادے کی خرابی کا سبب بنتی ہے۔
خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانا:
پندرہ سے انیس سال کے نوعمروں میں خودکشی موت کی تیسری اہم وجہ ہے۔ دنیا کے تقریبا 90 فیصد نوجوان کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں ۔ خودکشی کے رویے کے بارے میں ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے بات چیت کرنا اور جذباتی انتشار میں مبتلا رہنا ہے ۔یہاں تک کہ اپنی جان دے دینا،اس عمر کے افراد میں ابھرتی ہوئی تشویش ناک بات ہے۔
نشہ اور دیگر ادویات کا استعمال:
2016 میں دنیا بھر میں، 15 سے 19 سال کی عمر کے نوعمروں میں شراب پینے کا رجحان 13.6 فیصد رہا۔ تمباکو اور بھنگ کا استعمال اضافی خدشات ہیں۔ 2018 میں کم سے کم ایک بار 15-16 سال کی عمر کے تقریبا 4. 4.7 فیصد نوجوانوں میں بھنگ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوائی ہے۔
کووڈ19سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل اور ان کا شرح تناسب:
ان تمام پہلوئوں پر نظر ثانی کے بعد موجودہ حالات میں سب سے خطرناک صورتحال کووڈ19-کی پیدا کردہ ہے۔ اضطراب اور افسردگی کی علامتوں کا پھیلاؤ نوجوانوں میں ڈرامائی طور پر بڑھ گیا ہے ۔ جبکہ جزوی طور پر دنیا میں ادارے کھولے جا چکے ہیں مگر اس کے باوجود دیگرعمر کے افرادکے مقابلے میں نوجوانوں کی ذہنی صحت زیادہ متاثر نظر آتی ہے جس کی اہم وجوہات میں شامل ذہنی و جسمانی سر گرمیوں میں رکاوٹ، اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی بندش ہے۔کوویڈ – 19 کا بحران نوجوانوں کے لئے ذہنی صحت کے بحران میں بدل گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق کوویڈ – 19 کے غیر یقینی صورتحال اور وسیع اثرات نے تمام لوگوں کو ایک ہی حد تک متاثر نہیں کیا۔ مارچ 2021 کی رپورٹ کے مطابق بیلجیئم، فرانس اور ریورپ میں بڑوں کے مقابلے میں نوجوانوں 30 سے 80 فیصد سے زیادہ ڈپریشن یا اضطراب کی علامت پائی گئی ہے جس میں تنہا رہنا اور خود کو کمرے میں بند رکھنے جیسے عوامل شامل ہے۔
اس کی بڑی وجہ ہر سطح پر تعلیمی اداروں کے بند ش ہے جس سے نوجوان نسل مایوسی اور غم کا شکار ہوچکی ہے۔یہاں تک اپنے ہم عمر افر اد کے ساتھ گھلنا ملنا اور ساتھ وقت گزازنا ،اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرنا ناگزیر ہوچکاہے۔ایسے حالات میں جب شک اور خوف کی فضا قائم ہوچکی ہو تو جوان اذہان کا بیمار ہوجانا ایک قدرتی عمل ہے۔
کوویڈ – 19 کے بحران نے نوجوانوں (15-24 سال کی عمر کی) کی زندگیوں کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے اور دستیاب شواہد اس عمر کے افراد میں ذہنی صحت کے مسائل میں ایک خطرناک حد تک اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
این سی ایچ ایس کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے جون 2019تک 18-34سال تک کے افراد میں ذہنی تنائو کی بیماری کی شرح 10 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ21مارچ 2021 میں جاری کردہ رپورٹ میں 10-29سال کے افراد میں ذہنی تنائو کی شرح 43% ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسی طرح سائنسانو 2020(5)کی رپورٹ کے حوالے سے اگر ہم دوسرے اہم خطے بیلجیئم کے بارے میں بات کریں تو اپریل 2020 کی ریسرچ کے مطابق 16-24سال کی عمر کے نوجوانوں میں ذہنی تنائو و افسردگی کی شرح 29% ریکارڈ ہوئی جو کہ خواتین میں تین گنا اضافہ اور2018کے مقابلے میں جوان مردوں میں چار گنا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا نوجوان نسل کو اس وباء کے منفی اثرات سے نکلنے میں کتنا وقت لگے گا؟ جبکہ ویکسین کی دستیابی نے بہت سے خطرات کو رد کرنے میں مدد دی ہے پر کیا دنیا اسی رفتار سے ترقی کے راستے پر دوبارہ دوڑ پائے گی؟ کیا نوجوانوں کے نفسیاتی خد و خال میں تبدیلی رونما ہوگی؟ ایسے بہت سے سوال ہیں جن پر بات کرنا بہت ضروری ہے نا صرف گھریلو سطح پر بلکہ حکومتی سطح پر بھی نوجوانوں کے ذہنی صحت کی بہتری کے لیے اداروں کو کام کرنا ہوگا اور نوجوانوں کے مسائل کو اول ترجیح دینا ہوگی کیوں کہ نوجوان ہی معاشرے کی تعمیر و ترقی کااہم جزہیں۔

حصہ