موبائل،ٹی وی ،الیکٹرانک گیم ،بچپن کی خوشی ختم ہوگئی

358

ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشرے میں اضطراب، بے چینی اور مایوسی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ہمارے اردگرد ایسے لوگوں کی تعداد بھی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے جنہیں اپنی زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے اور وہ مستقل پشیمانی اور احساسِ جرم میں مبتلا رہتے ہیں۔ عام مشاہدے میں آتا ہے کہ بات بات پر لڑائی جھگڑا، تُوتُو، مَیں مَیں اب معمول کی بات ہے۔ ہر دوسرا شخص چڑچڑے پن کا شکار معلوم ہوتا ہے، جس سے اس کی ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور اس کے قریبی اعزہ بھی متاثر ہورہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں انتشار بڑھ رہا ہے، سکون تباہ ہورہا ہے اور جرم پنپ رہے ہیں۔اورکورونا میں یہ صورت حال اور زیادہ خراب ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی ملک کے ماہرِ ذہنی واعصابی امراض ہیں جناح اسپتال کے شعبہ نیورولوجی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔آپ کا شمار شعبہ نیورولوجی کے ابتدائی اساتذہ میں ہوتا ہے۔ 2013ء کے بعد سے نجی پریکٹس کررہے ہیں۔ آپ سے میں نے پوچھا کہ “” معاشی ترقی اور سہولیات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ذہنی مریضوں اور ذہنی امراض میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، آخر اس کی کیا وجوہات ہیں؟ تو آپ کا کہنا تھا کہ ” آج جو معاشی مسائل ہیں، ان کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔معاشرے کے پورے منظرنامے میں مجموعی طور پر اصلاح کی ضرورت ہے۔ مقابلے کی دوڑ انسان کو قبر تک لے جاتی ہے۔ پہلے معاشی مقابلے کا رجحان نہ تھا، غریب اور امیر ایک ہی جگہ مل کر رہتے تھے، امیر غریب کے بچے ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے، طبقاتی تقسیم بہت کم تھی۔ آئی پیڈ، موبائل، ٹی وی، الیکٹرانک گیم بچوں کو بالخصوص زیادہ متاثر کررہے ہیں اور اس کا دبائو والدین پر بھی ہے، کیونکہ ہر بچہ چاہتا ہے کہ اُس کے پاس بھی ایسی چیزیں ہوں۔ بچپن کی خوشی ختم ہوگئی۔ ہم کپڑے بغیر استری کے پہن لیتے تھے، پتنگ لوٹنا بہت بڑی خوشی ہوتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی تھیں۔ اب تو کسی بات پر خوشی ہی نہیں ہوتی۔ یہ رویہ بچوں ہی نہیں بلکہ بڑوں میں بھی ذہنی بے چینی اور انتشار کی وجہ بن رہا ہے۔ ایک بچہ کسی دوسرے بچے کے پاس جو چیز دیکھتاہے وہ چاہتا ہے کہ میرے پاس بھی ہو۔ اس سے والدین پر دبائو بڑھ گیا ہے۔ دنیا اب عالمی گائوں بن گئی ہے۔ ہم واپسی کا سفر تو نہیں کرسکتے لیکن کچھ کام کرسکتے ہیں۔ ہمیں  سادہ طرزِ زندگی اپنانے ، فزیکل ایکٹیوٹی اور آئوٹ ڈور سرگرمیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ذہنوں میں یکسوئی پیدا ہو۔ سادہ غذا کا استعمال زیادہ کریں، پیدل چلنے کو رواج دیں اور جسمانی طور پر خود کو مضبوط بنائیں۔
میں نے پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی سے پوچھا کہ “کیا جدت یا نت نئی ایجادات انسان کے لیے خطرہ بن رہی ہیں؟
تو آپ کا کہنا تھا کہ ” جی ہاں! ٹیکنالوجی کی ترقی اور نئی ایجادات کی وجہ سے زندگی آسان ہونے کے ساتھ سہل پسندی بڑھتی جارہی ہے جس سے ذہنی امراض بڑھ رہے ہیں۔ ذہنی امراض کے اضافے میں انسان کے اپنے طرزِ زندگی کا بہت زیادہ دخل ہے۔ سادہ زندگی سے ذہنی دبائو کم ہوتا ہے۔ آج کے مقابلے میں کچھ عرصہ قبل لوگوں کا طرزِ زندگی بہت سادہ تھا جس میں مالی بوجھ کم تھا۔ گھر کے سربراہ پر آج جتنا ذہنی دبائو ہے، اتنا پہلے نہیں ہوتا تھا۔ آج تعلیم، صحت، رہائش، یوٹیلٹی بلز کے اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ بعض اوقات ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدنی والا بھی اوسط درجے کی زندگی گزارتا نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے ذہنی دبائو بڑھ رہا ہے، اسی وجہ سے ذہنی بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں، دل کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پہلے لوگ آج کے مقابلے میں چیزوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے سادہ غذا کھاتے تھے۔ سبزیوں کا استعمال زیادہ تھا۔ سائیکل چلاتے تھے۔ پیدل چلتے تھے۔ عورتیں گھر کا سارا کام خود کرتی تھیں۔ کپڑے خود دھوتی تھیں۔ اس لیے پہلے جسمانی طور پر انسان مضبوط تھا، اب کمزور ہوا ہے۔
میںنے عرض کیا کہ ہماری زندگی میں یکسوئی نہیں رہی تو کیا زندگی میں یکسوئی کا نہ ہونا بھی ذہنی مرض ہے؟تو آپ نے جواب دیتے ہوے کہا “جی، عدم یکسوئی بھی ذہنی مرض کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اطمینان ذہنی یکسوئی میں ہے۔ ایمان کا بھی اس میں بہت بڑا کردار ہے۔ دینی اعتقادات آپ میں یکسوئی پیدا کرتے ہیں۔ ہر انسان کی کامیابی کے لیے یکسوئی کا ہونا ضروری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکسوئی آئے گی کیسے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو اپنی صلاحیتوں کا اندازہ ہو کہ میں کرسکتا ہوں۔ اگر وہ کھلاڑی بننا چاہتا ہے تو اس کو اسی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ صلاحیتوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا نام ہی یکسوئی ہے، اور میرے خیال میں دعا اور عبادات بھی یکسوئی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ورزش کے حوالے سے پوچھے سوال کے جواب میں آپ کا کہنات تھا کہ ” ورزش کا بہت ہی آسان طریقہ یہ ہے کہ خود کو کبھی بھی کسی ایک پوزیشن پر زیادہ دیر تک نہ رکھیں۔ میں خود بہت کم چلتا ہوں لیکن جب بھی کوئی مریض آئے تو میں اُس سے اٹھ کر ملتا ہوں اور چھوڑنے بھی جاتا ہوں۔ ایک 84 سالہ سرکاری افسر تھے، اُن کی یہ عادت تھی کہ جو آدمی بھی ان سے ملنے آتا وہ اُس سے کرسی سے اٹھ کر ملتے تھے۔ اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ یہی میری ورزش ہے، کیونکہ میرے پاس اس کے سوا ورزش کا وقت نہیں ہے۔ بہت سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ورزش کا وقت نہیں ہے۔ میرے خیال میں ورزش صرف وہ نہیں ہے جس میں بہت زیادہ چلنا پڑے یا پسینہ نکلے۔ ورزش دو طرح کی ہے۔ بہت زبردست قسم کی ورزش وہ ہے جس میں بھاگنا پڑے گا اور پسینہ نکالنا پڑے گا۔ دوسری قسم کی ورزش میں زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کرنا پڑتی کیونکہ یہ ورزش ہم اس لیے کرتے ہیں کہ کسی بیماری کا شکار نہ ہوں، دل کا دورہ نہ پڑے اور شوگر نہ ہو۔ دوڑنے سے reserve تو بڑھتا ہے لیکن نارمل زندگی گزارنے والے کے لیے یہ ضروری نہیں۔ اگر آپ کو رات کا کوئی وقت ملتا ہے تب بھی آپ اپنے گھر کے اندر بیٹھنے کے بجائے چل پھر کر کام کرنے کی عادت اپنائیں۔
میں نے پوچھا کہ “کیا ذہنی و نفسیاتی مسائل کو روکنے میں مذہبی یا روحانی لگائو کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟تو پروفیسر ڈاکٹر شوکت علی کا کہنا تھا کہ “میرے خیال میں مذہب اور روحانیت کا ذہنی امراض کی روک تھام میں بہت زیادہ کردار ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ انسان زیادہ پریشان ہوتا ہے تو مختلف دینی اذکار ہی سے اسے یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ فائنل میں ہمارے سترہ پیپر ہوتے تھے اور ڈھائی مہینے تک وہ جاری رہتے تھے۔ ہمیں یہ پتا ہے کہ دعائوں کے سوا کچھ نہیں یاد رہتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بے چینی ایک بڑا عنصرہے جو آپ کو کسی بھی میدان میں ناکام بناتا ہے۔ دعا آپ کو سکون دیتی ہے اور اس سے کارکردگی بہتر ہوجاتی ہے۔
بچوں میں بھی ذہنی امراض بڑھ رہے ہیں اس حوالے سے آپ کا کہنا تھا کہ “تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر بچہ ماں کے پیٹ میں بھی ہے تو اس کا دماغ کام کررہا ہوتا ہے اور وہ باہر کی چیزوں کا اثر لے رہا ہوتا ہے۔ گھر میں لڑائی جھگڑے کے اس بچے پر ماں کے پیٹ میں بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ماں کو بھی سکون چاہیے اور گھر میں کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہ ہو۔ دنیا میں بچے کے آجانے کے بعد اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ماں کے دودھ کا بھی اس میں بہت اہم کردار ہے۔ یعنی ماں کا لمس بچے کے ذہن میں تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس کا ذہن پُرسکون رہتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ماں کے دودھ سے پرورش پانے والے بچے بہت زیادہ متحمل مزاج ہوتے ہیں، ان میں چڑچڑاپن انتہائی کم ہوتا ہے اور عمر کے آخری حصے میں ڈپریشن کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔ مدتِ رضاعت کے لیے قرآن نے جو دو سال تک کا پیریڈ دیا ہے وہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ بہت سارے لوگوں نے اس پر تحقیق بھی کی ہے کہ بچے کی سیکورٹی کی ڈویلپمنٹ کے لیے یہ ایک مثالی دورانیہ ہے۔ گھر میں اگر ماحول تلخ ہوگا تو بچہ بھی ذہنی طور پر پریشان ہوگا۔ معاشرے کی طبقاتی کشمکش بھی بچوں میں بے چینی کا باعث بنتی ہے۔ میری رائے میں اسکولوں میں کم از کم آٹھویں کلاس تک یکساں لباس اور یکساں نصاب ہونا چاہیے، اور اسکول کی اپنی بسوں میں تمام طلبہ کو آنا چاہیے۔میں نے پوچحا کہ “کیا موبائل فون کا کثرت سے استعمال ذہنی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے؟اس پر آپ کا کہنا تھا کہ ” ہر چیز کا ضرورت سے زیادہ استعمال نقصان دہ ہے۔ موبائل، کمپیوٹر یا ٹی وی کا استعمال اصلاً ذہنی سرگرمی ہے۔ موبائل یا کمپیوٹر کے استعمال میں بیٹھنے، کھڑے ہونے کا انداز بھی مسئلہ ہے۔ ہر وقت ٹی وی دیکھنے سے پٹھوں پر ہر وقت بیس پچیس کلو اضافی وزن آرہا ہے، جس سے مہروں پر بڑا دباؤ رہتا ہے اور گردن کا دردبھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ طبیعت میں ہیجان بھی پیدا ہوتا ہے۔ موبائل کے بہت زیادہ استعمال سے نیند پوری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اس کے نقصانات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ خصوصاً میں یہ کہوں گا کہ اس کا استعمال صرف ضرورت کے وقت کریں اور بچوں کو اس کا استعمال کم سے کم کرنے دیں۔ انہیں آؤٹ ڈور ایکٹیوٹی میں لگائیں۔ ایک تاثر یہ ہے کہ موبائل میں دماغ جتنا استعمال ہوگا اتنا ہی بہتر ہوگا۔ میری رائے میں موبائل میں دماغ کا وہ استعمال نہیں ہے۔ دماغ کا استعمال شطرنج میں ہوتا ہے جس میں کیلکولیشن کررہے ہوں۔ ٹی وی دیکھ کر تو آپ کو کچھ نہیں ہوگا، گیمز کھیل کر بھی کچھ نہیں ہوگا۔اس سوال کے جواب میںکہ اگر آپ سے پُرسکون اور خوشگوار زندگی گزارنے، ذہنی و نفسیاتی صحت برقرار رکھنے کے چند رہنما اصول جاننا چاہیں تو وہ کیا ہوں گے؟تو آپ نے خوشگوار زندگی کے راہنما اصولوں پر بات کرتے ہوے کہا کہ “میں یہ سمجھتا ہوں کہ خوشگوار زندگی کا آپ کی شخصیت پر بہت زیادہ انحصار ہوتا ہے۔ اللہ نے جتنا آپ کو دیا، اس پر راضی اور خوش رہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ محنت نہ کریں۔ محنت انتہائی ضروری چیز ہے اور ہمیشہ تگ و دو میں لگے رہنا چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے انسان کو خوش رہنا چاہیے۔ میرے خیال میں انسان کے اندر سیکھنے کی جستجو ہمیشہ رہنی چاہیے۔ اس سلسلے میں یکسو رہیں کہ مجھے کرنا کیا ہے؟ ایک فرد نہ تو پوری دنیا فتح کرسکتا ہے اور نہ اسے تبدیل کرسکتا ہے۔ حتی الوسع اپنے اردگرد کا ماحول بہتر بنانے کی سعی کریں۔ ذہنی آسودگی ہوگی تو مالی آسودگی بھی حاصل ہوگی۔

حصہ