اہلِ مغرب کسی پرانی چیز کی تکریم اس وقت تک نہیں کرتے جب تک وہ میوزیم میں نہ ہو‘ اور میوزیم میں مردہ چیزیں ہوتی ہیں‘ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب میں کسی پرانی چیز کی قابل تکریم ہونے کے لیے اس کا مردہ ہونا ضروری ہے۔ مغرب میں پرانی چیزوں کے لیے میوزیم ہیں اور ’’پرانے‘‘ لوگوں کے لیے ’’اولڈ ہائوسز‘‘ مگر یہ اولڈ ہائوسز بھی تو میوزمیم ہی ہیں‘ انسانوں کے میوزیم۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ مغرب میں اشیا کے میوزیم انسانوں کے میوزیمز سے زیادہ مقبول ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں روز Visitors کی بھیڑ لگتی ہوتی ہے لیکن انسانوں کے میوزیموں پر خود فراموشی ہر وقت سایہ فگن رہتی ہے۔ فراموشی بھی اور خود فراموشی بھی۔
معاف کیجیے گا! کالم ابتدا ہی سے کافی المناک ہوگیا‘ اس لیے ایک ہلکی پھلکی بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ابھی چند روز پیشتر بی کام کے ایک طالب علم نے ہم سے انگریزی کے لفظ Conservative کے معنی پوچھے۔ ہم نے کہا ’’ذرا لغت دیکھ کر ہمیں بھی بتائو کہ اس لفظ کے کیا معنی ہیں؟‘‘ اس نے لغت دیکھا اور بتایا کہ اس لفظ کے معنی ’’قدامت پسند اور دقیانوسی‘‘ ہیں ہم نے کہا کہ معنی تو دونوں ہی درست ہیں‘ لیکن تمہارے نزدیک زیادہ درست مفہوم کون سا ہے؟ کہنے لگا جو بات دقیانوسی میںہے وہ قدامات میں کہاں؟ ہم نے طالب علم کی ’’حسیت‘‘ کی داد دی کیوں کہ اس نے جس شے کی مدد سے لفظ دقیانوسی کو فوقیت دی تھی وہ عقل نہیں بلکہ ’’حسیت‘‘ ہی تھی۔ وہ حسیت جسے مغربی تہذیب نے عالم گیر بنا دیا ہے اور جو نیویارک سے کراچی اور لندن سے دہلی تک یکساں مار کر رہی ہے۔
اقدامت پسند انگریزی لفظ Conservative کا ترجمہ ہے اور Conservative کا لفظ Conserve سے نکلا ہے‘ جس کے معنی محفوظ کرنا ہیں۔ چنانچہ کنزرویٹو اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی چیز کو محفوظ رکھنا چاہتا ہو۔ چونکہ کنزرویٹو میں قدیم کا تصور موجود ہے‘ اس لیے کنزرویٹو وہ شخص ہوا جو قدیم تصورات یا اشیا کو محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں ہو۔ اگرچہ قدیم تصورات میں کچھ بھی شامل ہو سکتا ہے لیکن یہاں مذہب کو خصوصی حوالے کی حیثیت حاصل ہے۔ یعنی کزرویٹو ایک ایسے شخص کو کہتے ہیں جو مذہبی تصورات‘ اقدار اور روایات وغیرہ پر اصرار کرتا ہو اور ان کو اپنی زندگی اور اجتماعی ماحول میں محفوظ رکھنے کا خواہش مند ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ خواہش رکھتا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟
ظاہر ہے کہ کوئی شے محض اس بنیاد پر اچھی نہیں ہو سکتی کہ وہ ’’پرانی‘‘ ہے‘ تاہم کسی چیز کو محض اس بنا پر اچھا قرار دینا بھی درست نہیں کہ وہ ’’نئی‘‘ ہے۔ لیکن ہم جس دنیا کا حصہ ہیں‘ اُس میں ہر پرانی چیز کو اس کے پرانا ہونے کی بنیاد پر رد کر دیا گیا ہے اور ہر نئی شے کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے‘ یہاں تک کہ نئے پن کی پرستش ہو رہی ہے اور اسے ایک اچھے خاصے مذہب کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
یہ خیال عام ہے کہ ہر پرانی چیز مسترد کیے جانے کے لائق ہے اور وہ مسترد کیے جانے کے لائق اس لیے ہے کہ وہ پرانی ہے اور چونکہ وہ پرانی ہے اس لیے یقینا غلط ہے اور غلط پر اصرار حماقت اور خلافِ عقل ہے۔ یہ تمام تاثرات اس طرح باہم مربوط ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم یہاں خلافِ عقل ہونے کی بات اہم ہے اور اس لیے اہم ہے کہ اس کا ایک پس منظر ہے۔ مغرب میں مذہب کے استرداد کے کئی محرکات ہیں‘ لیکن اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ وہاں مذہب کو خلافِ عقل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ ’’رعایت‘‘ یہ کی گئی کہ مذہب کے جو عناصر خلافِ عقل ہیں‘ ہم انہیں مسترد کرتے ہیں‘ لیکن جو عناصر عقل کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں انہیں ہم تسلیم کرلیں گے۔ ہمارے سرسید کو مغرب کی یہ ادا بہت پسند آئی اور انہوں نے اس کا اطلاق اسلام پر کر ڈالا اور فرِمایا کہ اسلام میں بہت سی چیزیں خلافِ عقل شامل کر دی گئی ہیں‘ ورنہ اسلام تو سراسر ’’عقلی مذہب‘‘ ہے۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی بات یہ تھی کہ مغرب میں چونکہ مذہب کو خلافِ عقل قرار دے دیا گیا‘ اس لیے مذہب کے تمام یا بیشتر اجزا مسترد کر دیے گئے۔ مذہب ’’پرانا‘‘ تو تھا ہی‘ غلط اور خلافِ عقل بھی قرار پا گیا۔ بس وہ دن اور آج کا دن ہر پرانی چیز کو محض اس کے پرانا ہونے کی بنیاد پر رد کرنے کا رجحان جڑ پکڑتا چلا گیا۔ اس سلسلے میں مغرب کے اہم فلسفی ایمول کانٹ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Critique of Pure Reason میں ایک مزیدار بات کہی ہے۔ اُس نے کہا ہے کہ ہمارا عہد ’’تنقید‘‘ کا عہد ہے اور تنقید کے سامنے ہر شے کو سرِ تسلیم خم کرنا چاہیے۔ مذہب اپنے تقدس اور قانون‘ اپنے شاہانہ وقار کے حوالے سے تنقید سے استثنا حاصل کرنے کی خواہش کرسکتے ہیں تاہم ایسا کرنے کے بعد وہ مشتبہ اور حقیقی احترام سے محروم ہو جاتے ہیں‘ کیوں کہ حقیقی احترام کے لائق تو وہی شے ہے جو تنقید کی چھلنی سے چھن کر نکل سکے۔ ظاہر ہے کہ یہاں تنقید سے مراد عقل اور اس کی تجزیاتی صلاحیت ہے۔ کانٹ کے اس تبصرے میں مزے کا پہلو یہ ہے کہ وہ مذہب کی ’’تقدیس‘‘ کا ذکر بھی کرتا ہے اور پھر اسے عقلِ جزوی کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ حالانکہ تقدیس تو بجائے خود ایک اصول ہے اور یہ اصول تجزیاتی عقل کے دائرۂ کار سے باہر کی چیز ہے۔
دراصل ماضی سے جان چھڑانے کی خواہش جدیدیت کی ایک نمایاں خصوصیت ہے اور اس خصوصیت کا مفہوم یہ ہے کہ ماضی سے خود کو کاٹے بنا آپ ’’نئے‘‘ نہیں بن سکتے لیکن اس سارے افسانے کی جڑ نئے انسان کی پیدائش یا ظہور کا تصور ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ایک ’’نیا انسان‘‘ پیدا ہوگیا تو پھر اس انسان کی ہر چیز کو نیا ہی ہونا چاہیے۔ اس کے خیالات‘ جذبات اور احساسات نئے ہونے چاہئیں‘ نئی شاعری‘ نیا قانون‘ نئی اقدار‘ نیا طرز بودوباش غرض کہ ہر چیز نئی ہونی چاہیے۔ نئے پن کا یہ جنون اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اگر میڈیکل سائنس اس لائق ہوتی تو لوگ سال میں دو چار مرتبہ اپنے چہرے کے خدوخال تبدیل کرنا چاہیں گے۔
بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ مغرب نے فکر و خیال کے ورثے کے سلسلے میں قدرِ مختلف رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ مغرب کے اہل فکر و نظر ہنوز جوڈو کرسچن تہذیب اور اس کے فکری عناصر سے چمٹے ہوئے ہیں‘ اس بنیاد پر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مغرب کو سیکولر کہنا درست نہیں کیوں کہ وہ مذہب کو ترک کرنے کے باوجود بھی عیسائی ہے۔ مگر یہ بات کہنے والے یہ نہیں دیکھتے مغرب کے جو اہل فکر و نظر جوڈو کرسچن فکر کے عناصر سے استفادہ کر رہے ہیں وہ پرانے لفظوں میں ’’نئے معنی‘‘ دریافت کر رہے ہیں۔ گویا نئے پن کا مذہب بھی یہاں ایک بدلی ہوئی شیکل میں پوری طرح کارفرما ہے۔
نئے پن کے مذہب کا ایک دل چسپ پہلو یہ ہے کہ اس پر صنعتی دور اور اس کے مظاہر کا گہرا اثر ہے۔ مثلاً لوگ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ’’نئے ماڈل‘‘ کی کار اچھی ہے اسی طرح ’’نئے خیالات‘‘ اور ’’نئی بات‘‘ بھی اچھی ہوگی۔ حالانکہ خیالات اور کار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اس گفتگو سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مغرب میں کوئی بھی پرانے شے قابلِ قدر نہیں۔ ایسا نہیں ہے‘ مغرب میں کم از کم ایک پرانی شے کی بڑی قدر ہے اور یہ شے پرانی شراب ہے۔