بیسویں صدی کے ڈاروینی نظریئے کے علمبرداروں کے علاوہ دنیا کا ہر انسان خود کو آدم علیہ السلام کی اولاد مانتا ہے ۔حتی کہ ڈاروینی نظریہ بھی فرسودہ اور متروک ہو چکا ہے ۔اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے علوم سے بہرہ مند کیا اور اسی کو تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ۔سورہ بقرہ میں آدم علیہ السلام کی پیدائش کے اعلان اور فرشتوں کے درمیان مکالمے کی صورت موجود ہے ۔دنیا کے تمام مذاہب کے پیروکار آدم علیہ السلام ہی کو اپنا جد امجد مانتے ہیں ۔آدم علیہ السلام اللہ کے پہلے بندے، رسول اور ہادی تھے ۔لہذاآپ نے اپنی اولاد کو توحید، رسالت، فکر آخرت اور اخلاق حسنہ کا درس دیا ۔ہابیل اور قابیل کے تنازعے اور قتل میں چھوٹے بھائی کے اخلاق میں درس انسانیت پنہا ںہے ۔انبیاء اور رسول جو علم ا لئٰ لے کر آئے اس میں درس انسانیت کو ہی معراج حاصل ہے ۔علم ا لئٰ کے علاوہ دنیا کے جتنے بھی علوم ہیں سب کا محور ومرکز انسانی جسم کی ضروریات آسائش اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے اور اسکے لئے تسخیر، ایجادات اور دریافت کا ہنر اور صلاحیت موجود ہے ۔جو بدنی علم کا مرقع ہے اور اسی سے بحث کرتا ہے۔لیکن ہم جانتے ہیں کہ انسان جسم اور روح کا مرکب ہے ۔روح کی بالیدگی کا دار و مدار اعمال خیر سے مشروط ہے ۔امام غزالی ؒنے اپنی کتاب کیمیائے شہادت میں لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو چار مخلوقات کے خمیر سے پیدا کیا ۔انسانی خمیر میں شیطان، حیوان، درندوں اور فرشتوں کے خمیر کی آمیزش ہے۔پھر امام غزالی رحہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے انسان کو صفات ملکوتی کے حصول کے لئے پیدا کیا ہے ۔ہم اپنے معاشرے میں چلتے پھربہت سارے لوگوں کے بارے میں تبصرہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص شیطان صفت ہے فلاں کے اندر حیوانیت ہےاور فلاں درندہ صفت ہے جبکہ نہایت نیک انسان کے بارے میں تبصرہ عام ہوتا ہے فلاں شخص فرشتہ صفت ہے۔کسی شاعر نے ٹھیک کہا ہے کہ ۔نہنگ و شیر و نر ازدھا کو مارا تو کیا مارا ۔بڑے موذی کو مارا گر نفس امارہ کو گر مارا ۔انسانیت کی دوسری تذلیل یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کے بجائے کسی مخلوق کی پوجا کرے اس کے سامنے جھکے اور اس کو اپنا حاجت روا مانے ۔رب کائنات کے مقابلے میں جتنے بھی انسان خود کو شداد و نمرود حامان و قارون ،چنگیز ،ہٹلر اور مسولنی کی صورت نمودار ہوئے سب نے انسانیت کی تذلیل کی اور قتل عام کیا ہے ۔اور انسانوں کو غلام بنا کر جانوروں سے زیادہ بد تر سلوک کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک سب نے تن تنہا وقت کے شیطانی قوتوں کا مقابلہ کیا اور مخلوق کی پرستش سے نکال کر اللہ کی پرستش کی جانب بلایا ۔انسانیت کی دوسری تذلیل یہ ہے کہ انسان فطری زندگی گذارنے کے بجائے غیر فطری زندگی گذارنا شروع کر دے ۔اور حیوانیت کا شکار ہو کر اللہ کے غضب کا شکار ہو جائے ۔دنیا میں جتنی بھی بستیاں اللہ کے غضب کا شکار ہو ئیں ہیں اور جن کے کھنڈرات مشرق تا مغرب موجود ہیں وہ سب کے سب اپنے زمانے میں علم وہنر مال و دولت میں بے مثال تھیں مگر اخلاق کے انتہائی پستی میں تھیں شرک و ظلم میں مبتلا تھیں ۔قرآن نے اور دیگر مذاہب کے کتب نے 3 وجوہات بیان کی ہیں ۔1 شرک 2 ظلم 3 اخلاقی پستی ۔عاد،ثمود، مدین و سحاب الرس قوم لوط، موئن جو دارو، ہڑپہ اجنتا الورا کے غار والے لوگوں کے کھنڈرات یہ عیاں کرتی ہیں کہ بستی میں رہنے والے علم و ہنر مال و دولت میں بے مثال تھے مگر اخلاقی پستی اور انسانیت سے گری ہوئی حرکتوں کی وجہ سے اللہ کے غضب کا شکار ہو کر رہے ۔اس بستی کے رہنے والے لوگوں نے وقت کے نبی اور رسولوں کی دعوت کو ٹھکرادیا انکی تذلیل کی اور قتل کیا ہے ۔حضرت ذکریا کو آرے سے چیر ڈالا حضرت یحییٰ کا سر قلم کر دیا ۔اور آج کے انسانوں کی اکثریت جو خدا بےزا ہے انسانیت کی تذلیل کر رہا ہے ۔انسانیت کا نام نہاد مذہب ایجاد کرنے والوں انسان کو نفس کا غلام بنا کر اس سے اس کا بنیادی جوہر چھین لیا ہے ۔بیسویں صدی میں دو عالمی جنگوں جوچار تا پانچ کروڑ انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر جاپان کے شہروں کو ایٹمی تباہی کا شکار کر کے آج انسانیت کی علم برداری کا پرچم تھامے امریکی سامراج اور اس کے حواری گواٹے مالا سے لیکر ویٹ نام تک عراق اور افغانستان شام برما میں کہرام برپا ہے انسانی حقوق کی راگ الاپ نے والا اقوام متحدہ کا Human rights commission کا دوغلا کردار اس وقت عیاں ہوا جب عالمی پابندی کی زد میں آکر لاکھوں عراقی بچے دوا کے بغیر موت کا شکار ہونے اور عراق کے خلاف Mass Destruction Weaponsکی جھوٹ کی بنیاد پر عراق کو تباہ و برباد کر دیا گیا اور انسانیت کے چمپیئن امریکہ اور یورپ کے تمام ملکوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے ۔اک طرف اہنسا کے پجاری دیش میں گذشتہ 72 سالوں سے 5 ہزار مسلم کش فسادات انسانیت کو دھوکہ دینے والوں کے مکروح چہرے کو عیاں کر رہا ہے ۔بات کو طول دینے سے بہتر ہے کہ اسلام کے درس انسانیت کو قارئین کے سامنے رکھ دیا جائے ۔قرآن کی آیات کی روشنی میں ۔۔Universal Human rights Chartered. سورہ النساء ۔اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا۔”لوگوں اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد وزن دنیا میں پھیلا دیئے ۔اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو ۔رشتہ داروں اور قرابت کے تعلقات بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔یقین جانو اللہ تم پر نگہبانی کر رہا ہے ۔”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کے موقع پر فرمایا “تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور اللہ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا ۔لوگو غور سے سنو آج کے بعد کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی گورے کو کسی کالے پر کسی امیر کو کسی غریب پر اور نہ کسی حسب ونصب کی بنیاد پر کسی کو برتری حاصل ہے اور میں بڑائی کے ان تمام جھوٹے دعووں کو اپنے پیروں تلے روندتا ہوں ۔” پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ “تم میں اللہ کی نظر میں وہی سب سے زیادہ مکرم ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے “اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا اک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا “خانہ کعبہ کو توڑ دینا اتنا بڑا گناہ نہیں ہے کہ اک مسلمان کی جان و مال کو نقصان پہنچا یا جائے “علامہ اقبال ۔درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ۔ورنہ نہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں۔”اسلام آنے سے پہلے عورت بے توقیر تھی تمام حقوق سے محروم تھی ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت ماں بہن بیٹی اور بیوی کا مقدس مقام عطا کرکے برابری کا حق دیا ہے ۔کس درجہ بے توقیر تھی دنیا میں یہ عورت ۔ان سب کو عزت بھی محمد ص سے ملی ہے ۔جو یورپ حقوق نسواں کی بات کرتا ہے اس نے اس کو بازار کا جنس فروخت بنا دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں سب سے زیادہ عورتیں اسلام لا رہی ہیں ۔تمام مذاہب میں آج بھی عورت کو جو مقام حاصل ہے وہ اشیاء تفریح سے زیادہ کچھ نہیں ۔خود بھارت میں ہندتوا کے پجاری گھرانوں کی عورتوں کا اسلام لانا عورت کی تکریم کو ظاہر کرتا ہے ۔جس کو جہاد کا نام دے کر مسلمانوں پر ظلم کیا جا رہا ہے ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندتوا کے سر کردہ لیڈروں کے گھرانوں کی بہنیں اور بیٹیاں مسلمانوں سے شادی کرکے خوش خرم زندگی گذار رہی ہیں ۔آج کلیسا کے راہب اور کارڈینل تک جنسی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ویٹیکن کو تاوان ادا کرنا پڑ رہا ہے ۔کناڈا کے مشنری ا سکولوں کے میدانوں سے سیکڑوں بچوں کی مدفون لاشیں انسانیت کے علمبرداروں کے منھ پر طمانچہ ہے ۔اسلام میں تو غلاموں کو بھی وہ مقام دیا کہ حضرت بلال آقا کہلائے ۔اسلام آنے سے پہلے پوری دنیا شرک و ظلم میں مبتلا تھی اور اخلاقی پستی میں مبتلا تھی ۔ایرانی آگ کی پوجا کرتے تھے یہود ونصاری نے حضرت عزیر اور عیسیٰ علیہ السلام کواللہ کا بیٹا بنا لیا تھا اور اہل مصر ابو الحول کی پرستش کرتے تھے اور فراعنا کے حنوط شدہ لاشوں میں راہ نجات تلاش کر تے تھے ۔بھارت کی دیو مالائ تہذیب والے لاکھوں بتوں کی پوجا پہلے بھی کرتے تھے اور انسانوں کی بلی چڑھاتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے رحمت عالم بنا کر بھیجا اور عرب کے گڈریوں کو قیصر وکسری کا تاج پہنا دیا ۔وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔مرادیں غریبوں کی بر لانے والا ۔وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا ۔اتر کر حراء سے سوئے قوم آیا ۔۔اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا لوگو جب تم کسی علاقے میں فاتح کی حیثیت میں داخل ہو تو فصلوں کو نقصان نہ پہنچاو، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو زخمیوں کو قتل کرنے سےمنع فرمایا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جانوروں تک پر رحم کرنے کو فرمایا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے قاتلوں تک کو معاف کردیا ۔
اہل مکہ نے 13 سالوں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے صحابہ پر ظلم کے پہاڑ توڑے مگر جب آپ فاتح کے طورپر مکے میں داخل ہونے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا آج بدلے کا نہیں رحم کا دن ہے ۔ دنیا کی تمام الہامی کتب تبدیل ہو گئیں ہیں اور ان کے ماننے والوں نے ان کی تعلیمات کو مسخ کر دیا ۔نہ وید نہ پران، نہ توریت، نہ زبور نہ انجیل اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں ۔صرف قرآن واحد آخری کتاب ہے جو 1400سالوں سے زیر و زبر کے ساتھ محفوظ و مامون ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی ۔یہی کتاب انسانیت کی ضامن اور بقاء ہے ۔خدمت خلق کی نیکی کو اسلام میںاعلیٰ مقام حاصل ہے ۔مسلمان واحد ملت ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ انفاق کرتی ہے۔حالیہ کورونا وبا میں مسلمانان ہند نے جس انسانی ہمدردی کا ثبوت دیا ہے اس کو دیکھ کر شدت پسند ہندو بھی شرمندہ ہے۔طارق بن زیاد نے اسپین پر ہوس ملک گیری کے لئے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ لاٹ پادری نے اپنی بیٹی کی آبرو بچانے کے لئے خط لکھ کر بلایا تھا ۔تاتاریوں نے مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی مگر انکی قید میں مسلمان علماء اور دانشوروں کے حسن سلوک نے ان کو مسلمان کر دیا ۔علامہ اقبال نے درست کہا ہے کہ ۔ہے عیاں فتنہ تاتار کے افسانے سے ۔پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ۔
کیا کسی غیر جانبدار مورخ نے یہ لکھا ہے کہ 1000 سالہ ہندوستان پر مسلم حکمرانی میں اک بھی ہندو مسلم فساد ہوا ۔ اورنگزیب عالمگیر کا اک ہندو وزیر خزانہ تھا ۔یہودی جب جب ظلم کا شکار ہوئے مسلمانوں نے ان کو پناہ دی مگر آج یہی یہودی فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم کر رہے ہیں پورا عالم چیخ رہا ہے ۔تاریخ اس بات سے بھری ہوئی ہے کہ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائی فوجوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا مگر جب صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کیا تو عام معافی دی۔روس کے اشتراکی انقلاب میں 80 لاکھ مسلمانوں کو تہ تیغ کیا گیا اور چیچینیا کی پوری مسلم آبادی کو اسٹالن نے برف پوش علاقوں میں در بدر کردیا ۔تمام مساجد کو قہوا خانوں میں تبدیل کر دیا اور گھروں میں قرآن رکھنے والوں کو موت کی سزائیں دی گئیں۔تین بر اعظموں پر ترک خلافت میں رعایا پروری اور یورپ کی ترقی اک مثال ہے۔اسپین میں 800 سالوں میں جو ترقی ہوئ اور علم و ایجادات ہوئے یورپ کی ترقی اس کی مرہون منت ہے ۔مگر سقوط اندلس کے بعد مسلمانوں کو جس ظلم کا سامنا کرنا پڑا تاریخ گواہ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب اندلس کی گلیوں میں زیتون کے چراغ جلتے تھے اس وقت لندن اور پیرس کی سڑکوں پر کیچڑ ہوا کرتے تھے ۔یورپ کی زیادہ تر ممالک بحری قذاقوں کی تھیں ۔آج بھی اٹلی کا وہ کلیسا جو اسپین کے مسلمانوں کی ہڈیوں سے تعمیر کیا گیاہے اور اک مسلمان بچے کی سوختہ لاش اس کے دروازے پر آویزاں ہے انسانیت کے علمبرداروں کے کے مکروح چہرے کو عیاں کر رہا ہے ۔الجزائر کے آزادی کے جنگ میں شہید ہونے والے ہزاروں مسلمانوں کی کھوپڑیوں کا میوزیم فرانسیسی مظالم اور نام نہاد انسانیت کا پول کھول رہا ہے ۔ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی کے وقت مسلمانوں کی تعلیمی شرح 100 فیصد تھی مگر انگریزوں کے غلامی اور 72 سالوں کے آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت شودروں سے بدتر ہے سچر کمیشن نے اپنی دی۔بر عظیم کے طول و ارض میں صوفیوں اور درویشوں کے مزارات پر ہندووں کا مجمع انسانیت کی اعلی ترین مثال ہے ۔بھکتی تحریک کے پیشواؤں کبیر، گرو نانک، روی داس اور چیتن دیو نے جس وحدانیت اور انسانیت کی جانب بلایا وہ اسلامی تعلیمات کا پرتو ہے۔یہ سب وحدانیت کے علمبردار اور انسانیت کے پرچار کرنے والے تھے جو اسلام کے بنیادی تعلیمات کا حصہ ہیں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جامیعت اوراکملیت کے ساتھ مبعوث ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکریم انسانیت تعظیم انسانیت اور تحریم انسانیت کو قائم کرنے آئے ۔آپ آخری رسول ہیں لہذاء اسلام کا درس انسانیت ہی راہ نجات ہے۔
قرآن کی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالی ہے “ہم نے قرآن کو مومنوں کے لئے شفاء اور رحمت بنا کر نازل کیا ہے اس کا انکار کرنے والے سراسر خسارے میں ہیں ۔”اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت عالمین بنا کر بھیجا آپ آئے تو زمانے کو قرار آیا ۔چہار عالم ظلم اور جبر کی گھٹائں چھٹ گئیں ۔گذشتہ 2 صدیوں میں جتنے بھی باطل نظریات نے اشتراکیت، ڈاروینیت، فرائڈ، ڈرکائم اور سرمایا دارانا نظام کی صورت ابھرے وہ دم توڑ چکے سرمایہ داری بھی واشنگٹن اور لندن میں ہچکیاں لے رہی ہے ۔اسلام آج بھی تمام جارحیت اورظلم و جبر کے باوجود فلاح انسانیت کےلئے میدان کارزار میں موجود ہے اس لئے کے قران اور حیات طیبہ صل اللہ علیہ وسلم موجود ہے ۔اے روح عصر جاگ کہاں سو گئ ہے تو۔آواز دے رہے ہیں پیمبر صلیب سے۔اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار۔بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے۔مشینوں کےایجاداور ہلاکت خیز ہتھیاروں اور ملک ہوس گیری نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔آسائش حیات تو مل جائےگی مگر۔لیکن سکون قلب مقدر کی بات ہے۔خلاؤں کا مسافر، سمندر کی تہوں سے معادنیات نکالنے والا انسان اپنی دنیا کو جنگوں کا ایندھن بنا چکا ہے ۔Men are being slaughtered for the glory sake.ہے دل کےلئے موت مشینوں کی حکومت ۔احساس مروت کو مٹا دیتے ہیں آلات۔اب انسانیت کی بقاء کی ضامن اسلام کا درس انسانیت ہے ۔اسی میں تکریم، تعظیم انسانیت ہے۔کیونکہ اللہ ن اپنے حبیب کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ۔