سود

اس طرح حدود ارضی یعنی دار (Territory) کے لحاظ سے اشخاص اور املاک کی حیثیات میں جو فرق ہوتا ہے اور اس فرق کے لحاظ سے ان کے درمیان احکام میں جو تمیز کی جاتی ہے اس کو مدنظر رکھنا قانونِ اسلامی کی صحیح تعبیر کے لیے نہایت ضروری ہے جب کبھی ان فروق اور امتیازات کا لحاظ کیے بغیر محض قانونی عبارت کے الفاظ کی پیروی کی جائے گی تو صرف ایک سود کے مسئلے ہی میں نہیں بلکہ بہ کثرت فقہی مسائل میں ایسی غلطیاں پیش آئیں گی جن سے قانون مسخ ہو جائے گا اور اپنے مقاصد کے خلاف استعمال کیا جانے لگے گا۔
ان ضروری توضیحات کے بعدہم ان سوالات کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ دارالحرب کا اطلاق داراصل کن علاقوں پر ہوتا ہے‘ کن مراتب کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر ہر مرتبہ کے احکام کیا ہیں‘ حربیت کے کتنے مدارج ہیں اور ہر درجہ کے لحاظ سے اباحتِ نفوس و اموال کی نوعیت کس طرح بدلتی ہے۔ پھر اختلاف دارین کے لحاظ سے خود مسلمان کی حیثیات میں کیا فرق ہوتا ہے اور ہر حیثیت سے ان کے حقوق و واجبات کس طرح بدلتے ہیں۔
کفار کی اقسام:
کفارکی جو اقسام ہم نے اوپر بیان کی ہیں ان میں سے اہل ذمہ کے متعلق تو ہر شخص جانتا ہے کہ بجز خمر و خنزیر اور نکاح محارم اور عبادت غیر اللہ کے اور تمام معاملات میں ان کی حیثیت وہی ہے جو مسلمانوں کی ہے۔ اسلام کے ملکی قوانین ان پر جاری ہوتے ہیں‘ وہ ان سب چیزوں سے روکے جاتے ہیں جن سے مسلمان روکے جاتے ہیں اور ان کو عصمت جان و مال و آبرو کے تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ مستامن کافروں کا معاملہ بھی ذمیوں سے مختلف نہیں ہے کیوں کہ ان پر بھی اسلامی حکومت کے احکام نافذ ہوتے ہیں ار دارالاسلام ہونے کی وجہ سے ان کو بھی عصمتِ جان و مال حاصل ہوتی ہے۔ ان کو الگ کرنے کے بعد اب ہمیں صرف ان کفار کے حالات پر نظر ڈالنی چاہیے جو دارالکفر میں مقیم ہوں۔
-1 باج گزار:
وہ کفار جو اسلامی حکومت کو خراج دیتے ہوں اور جن کو اپنے ملک میں احکام کفر جاری کرنے کی آزادی حاصل ہو‘ ان کا ملک اگرچہ دارالکفر ہے مگر دارالحرب نہیں اس لیے کہ جب مسلمانوں نے ادائے خراج پر انہیں امان دے دی تو حربیت مرتفع ہوگئی۔ قرآن میں آیا ہے کہ ’’اگر وہ جنگ سے باز آجائیں اور صلح پیش کریں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر دست درازی کی سبیل نہیں رکھی۔‘‘ (النساء: 90) اسی بنا پر فقہا نے تصریح کی ہے کہ ان کے اموال اور نفوس اور اعراض سے تعرض نہیں کیا جاسکتا۔
’’اور اگر ان سے اس بات پر صلاح ہوئی ہو کہ وہ ہر سال سو غلام دیں گے تو یہ سو غلام اگر خود انہی کی جماعت میں سے ہوں یا ان کی اولاد ہوں تو ان کا لینا درست نہ ہوگا‘ کیوں کہ صلح کا اطلاق ان کی پوری جماعت پر ہوا ہے اور وہ سب مستامن ہیں اور مستامن کو غلام بنانا جائز نہیں۔ (المبسوط للامام السرخسی۔ ج: 100‘ ص:88)
’’اگر ان میں سے کوئی شخص کسی دوسرے دارالحرب میں مقیم ہو اور اسلامی فوجی اس ملک میں داخل ہوں تو اس سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا‘ کیوں کہ وہ مسلمانوں کی امان میں ہے۔‘‘ (ایضاً‘ ص: 89)
’’اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت ان کے ساتھ غدر کرکے ان آدمیوں کو غلام بنالے تو مسلمانوں کے لیے ان غلاموں کا خریدنا جائز نہ ہو گا اور اگر انہوں نے خرید لیا تو اس بیع کو رد کر دیا جائے گا کیوں کہ وہ مسلمانوںکی امان میں تھے۔‘‘ (ایضاً‘ص: 97)
اس قسم کے کفار اگرچہ نظری حیثیت سے اہل حرب ضرورت رہتے ہیں۔ ’’لیکن ان کے اموال مباح نہیں اور ان کے ساتھ عقود فاسدہ پر کوئی معاملہ نہیں کیا جاسکتا‘ خواہ وہ سود خور ہی کیوں نہ ہو‘ بلکہ اگر وہ اپنی دار میں بھی نہ ہوں‘ کسی ایسے دار میں ہوں جہاں بالفعل جنگ ہو رہی ہو تب بھی مسلمانوں کے لیے ان سے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہ ہوگا۔‘‘ (المبسوط‘ ج: 1‘ ص:88)
-2 معاہدین:
وہ کفار جن سے دارالاسلام کا معاہدہ ہو‘ ان کی متعلق قرآن کی تصریحات حسب ذیل ہیں:
’’مگر وہ مشرکین جن سے تم نے معاہدہ کر لیا اور انہوں نے تمہارے ساتھ وفائے عہد میں کمی بھی نہ کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد دی‘ تو ان کے ساتھ تم معاہدہ کی مدت مقرر تک عہد پورا کرو۔‘‘ (التوبہ:4)
’’پھر جب تک وہ عہد پر قائم رہیں تم بھی قائم رہو۔‘‘ (التوبہ:1)
’’اور جو مسلمان دارالکفر میں رہتے ہوں وہ اگر دین کے حق کی بنا پر تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرو مگر کسی ایسی قوم کے کلاف ان کی مدد نہ کرو جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔‘‘ (الانفال 72)
’’اورا گر مقتول کسی ایسی قوم سے ہو جس کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو دیت دی جائے گی۔‘‘ (النساء 92)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ معاہدہ کفار اگرچہ نظری حیثیت سے حربی ہیں اور ان کے ملک پر دارالحرب کا اطلاق ہو سکتا ہے مگر جب تک اسلامی حکومت نے ان سے معاہدانہ تعلقات قائم رکھے ہیں‘ وہ مباح الدم والاموال نہیں ہیں اور ان کی جان و مال سے تعرض کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان کا خون بہائے گا تو دیت لازم آگے گی اور اگر ان کے مال سے تعرض کرے گا تو ضمان دینا ہوگا۔ پس جب ان کے اموال مباح ہی نہیںہیں تو ان کے ساتھ عقود فاسدہ پر معاملہ کیسے کیا جاسکتا ہے کیوں اس کا جواز تو اباحت ہی کی اصل پر مبنی ہے۔
-3 اہل غدر:
وہ کفار جو معاہدہ کے باوجود معاندانہ رویہ اختیار کریں ان کے متعلق قرآن کا حکم یہ ہے کہ ’’اگر تمہیں کسی قوم سے بد عہدی کا اندیشہ ہو تو برابری کو ملحوظ رکھ کر ان کا معاہدہ ان کی طرف پھینک دو۔‘‘ (الانفال: 58)
شمس الائمہ سرخسی اس صورت مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’(ایسی صورت میں معاہدہ کو توڑ دینا جائز ہے) مگر لازم ہے کہ نقصِ معاہدہ برابری کے ساتھ ہو‘ یعنی تمہاری طرح ان کو بھی معلوم ہو جائے کہ تم نے معاہدہ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس حکم سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ اعلان و اطلاع سے پہلے ان کے ساتھ جنگ کرنا حلال نہیں ہے۔ (المبوسط‘ ص:87)
یہ آیت اوراس کی مذکورۂ بالا قانون تعبیر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ معاہد قوم اگر بد عہدی بھی کرے تب بھی اعلانِ جنگ سے پہلے اس کے نفوس و اموال مباح نہیں ہیں۔
-4 غیر معاہدین:
وہ کفار جن سے معاہدہ نہ ہو‘ یہ ایک ایسی حالت ہے جس کو ہمیشہ بین الاقوامی تعلقات میں جنگ کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے‘ سیاسی تعلقات کا انقطاع دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ دونوں قومیں اب باہمی احترام کی قیود سے آزاد ہیں۔ ایسی حالت میں اگر ایک قوم دوسری قوم کے آدمیوں کو قتل کر دے یا لوٹ لے تو کوئی د یت یا ضمان واجب نہ ہوگا۔ اس معنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قوموں کے لیے ایک دوسرے کے نفوس و اموال مباح ہیں۔ مگر کوئی مہذب حکومت باقاعدہ اعلانِ جنگ کیے بغیر کسی انسانی جماعت کا خون بہانا یا مال لوٹنا پسند نہیں کرسکتی۔ اسلامی قانون اس باب میں یہ ہے:
’’اگر مسلمانوں نے دعوت کے بغیر ان سے جنگ کی تو گناہ گار ہوں گے‘ لیکن ایسی جنگ میں ان کی جان و مال کا جو اتلاف وہ کریں گے اس میں سے کسی چیز کا ضمان حنفیہ کے نزدیک مسلمانوںپر لازم نہ آئے گا۔‘‘ ( المبسوط‘ ج:1‘ ص:30)
امام شافعی فرماتے ہیں کہ ضمان لازم آئے گا کیوں کہ جب تک وہ دعوت کو ردنہ کریں ان کی جان و مال کی حرمت و عصمت باقی ہے۔
مگر حنفیہ کہتے ہیں ’’جس عصمت کی بنا پر جان و مال کی قیمت قائم ہوتی ہے تو دارالاسلام کی حفاظت میں ہونے پر موقوف ہے اور یہ چیز ان کے حق میں موجود نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اباحت کے لیے تقدیم دعوت شرط ہے‘ اس کے بغیر اباحت ثابت نہیں ہوتی‘ لیکن محض حرمتِ قتل‘ وجوب ضمان کے لیے کافی ہیں۔‘‘ (ایضاً‘ ص: 31-30)
اس سے معلوم ہوا کہ حربی کفار جو ذمی نہیں ہیں‘ جن سے کوئی معاہدہ نہیں ہے‘جن کا دار ہمارے دار سے مختلف ہے‘ جن کی عصمت ہمارا قانون تسلیم نہیں کرتا‘ ان کے نفوس و اموال بھی ہم پر اس وقت تک حلال نہیں ہیں جب تک کہ اتمام حجت نہ ہو اور ہمارے اور ان کے درمیان باقاعدہ اعلانِ جنگ نہ ہو جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں حضرت معاذ بن جبل کو جو ہدایات دی تھیں وہ قابل غور ہیں:
ان سے جنگ نہ کرناجب تک کہ ان کو دعوت نہ دے لو‘ پھر اگر وہ انکار کریں تب بھی جنگ نہ کرنا جب تک وہ ابتدا نہ کریں۔ پھر اگر وہ ابتدا کریں تب بھی جنگ نہ کرنا جب تک کہ وہ تم میںسے کسی کو قتل نہ کر دیں‘ پر اس مقتول کو دکھا کر ان سے کہنا کہ کیا اس سے زیادہ بہتر کسی بات کے لیے تم آمادہ نہیں ہوسکتے؟ اے معاذ اس قدر صبر و تحمل کی تعلیم اس لیے ہے کہ اگر اللہ تیرے ہاتھ پر لوگوںکو ہدایت بخش دے تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تیرے قبضے میں مشرق سے مغرب تک کا سارا ملک مال آجائے۔
-5 محاربین:
اب صرف وہ کفار باقی رہ جاتے ہیں جن سے مسلمانوں کی بالفعل جنگ ہو۔ اصلی حربی یہی ہیں‘ انہی کے دارکو تعلقات خارجیہ کے قانون میں ’’دارالحرب‘‘ کہا جاتا ہے انہی کے نفوس اور اموال مباح ہیں اور انہی کو قتل کرنا‘ گرفتار کرنا‘ لوٹنا اور مارنا شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔ لیکن حربیت تمام محاربین میں یکساں نہیں ہے اور نہ تمام اموال حربیہ ایک ہی حکم میں ہیں۔ حربی کافروں کی عورتیں‘ ان کے بچے‘ ان کے بیمار‘ ان کے بوڑھے اور اپاہج وغیرہ بھی اگرچہ حربی ہیں‘ مگر شریعت نے ان کو مباح الدم نہیں ٹھہرایا ہے بلکہ اباحتِ قتل کو صرف مقاتلین تک محدود رکھا ہے۔ ’’اسی طرح اموال حربیہ میں بھی شریعت نے فرقِ مدارج کیا ہے اور ہر درجہ کے احکام الگ ہیں۔‘‘ (المبسوط‘ ج:۱‘ص:64)
اموالِ حربیہ کے مدارج اور احکام:
اگرچہ اصولی حیثیت سے تمام وہ اموال و املاک جو دشمنکے علاقہ میں ہوں‘ مباح ہیں‘ لیکن شریعت اسلامی نے ان کو دو اقسام پر منقسم کیا ہے ایک غنیمت دوسرے فَے۔

حصہ