” پیارے بچوں ایک تھی چڑیا اور ایک تھا چڑا ۔ چڑیا لائی دال کا دانہ ،چڑا لایا چاول کا دانہ ۔دونوں نے مل کر کھچڑی پکائی۔۔۔”
دادی نے بچوں کو کہانی سنانی شروع کی مگر بیچ میں فاطمہ بول اٹھی ۔
” دادو ۔۔۔ چڑیا اور چڑا تو درخت پر رہتے ہیں نا ؟”
“ہاں ، درخت پر ہی رہتے ہیں ”
” تو وہاں پر چولھا کیسے جل سکتا ہے ؟”فاطمہ سوچتے ہوئے بولی۔
” کیا مطلب” دادو نے چونک کر پوچھا ” بھلا درخت پر کوئی چولھا کیوں جلائے گا “؟
” دادو آپ نے ابھی خود ہی تو کہا کہ چڑیا اور چڑا نے کھچڑی پکائی” زینب نے بھی فاطمہ کا ساتھ دیا ۔
” ارے بھئ۔۔۔ “دادو کچھ بوکھلا گئیں ۔
” یہ تو کہانی ہے ” ۔
” اچھاااااا ” فاطمہ نے اچھا کو لمبا کھینچا اور کہا ” چلیں آگے کیا ہوا” ۔
دادی بولیں ۔
” جب کھچڑی پک گئی تو چڑیا نے کہا میں تو کیچپ کے ساتھ کھاؤ گی ” ۔
” ہائیں چڑیا کیچپ بھی کھاتی ہے ؟ عفان نے حیرت سے کہا ۔
” اف فو ۔۔ابھی تو بتایا دادو نے کہ یہ کہانی ہے اور کہانی میں سب چلتا ہے -” زینب بولی۔
” اچھا، اچھا، سوری، سوری ، چلیں دادو آگے سنائیں “۔
دادو نے سب بچوں کو غور سے گھور کر دیکھا تو ان کو اندازہ ہوا کہ بچے مزے لینے کے موڈ میں ہیں انہوں نے اپنے آپ کو مزید سوالات کے لیے تیار کرتے ہوئے کہانی آگے بڑھائى ۔
” چڑے نے کہا اچھی چڑیا ابھی بہت زور کی بھوک لگ رہی ہے کیچپ کسی اور دن کھا لیں گے مگر چڑیا نہ مانی اور اس نے چڑے کو زبردستی کیچپ لینے بھیج دیا – اصل میں چڑیا کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اکیلے پوری کھچڑی کھا لے اس لیے وہ کسی بہانے سے چڑے کو بھیجنا چاہ رہی تھی ۔”
ہائے بےچارا چڑا “عفان بڑبڑایا۔
“اور چڑیا کیسی مکار ہے توبہ توبہ”۔
بچوں نے دادو کے رکتے ہی پھر تبصرہ کیا ۔
” ویسے چڑا کیچپ لائے گا کیسے ؟؟” عفان سوچتے ہوئے بولا ۔
” اپنی گاڑی میں ” زینب چہکی ۔
” تو کیا چونچ میں پکڑے گا اتنا بڑا پاوچ ” ۔
” بتایا تو ہے کہانی ہے اور کہانی میں کیا، کیوں، کیسے نہیں ہوتا۔ بس کہانی ہوتی ہے” دادو نے کہانی کا دفاع کرنے کی کوشش کی ۔
” مگر دادو یہ تو غلط ہے اور آپ خود ہی کہتی ہیں کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے” فاطمہ نے کہا۔
” اور یہ تو پوری کی پوری ہی جھوٹ ہے ” زینب نے فاطمہ کا ساتھ دیا۔
تو دادو بھی قائل ہو گئیں ۔
” ٹھیک کہہ رہے ہو تم سب – یہ تو واقعی جھوٹ ہی ہوگیا ۔ لیکن ہمارے بچپن میں ایسی ہی کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ اب کیا کرنا چاہیے ؟ ” انہوں نے بچوں سے پوچھا۔
” کیا مطلب ، کیا کرنا چاہیے؟”
بچوں نے پوچھا۔
” پھر کیسی کہانیاں سنائی جائیں؟” دادو نے پوچھا تو بچے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے ۔
وہ خود ہی بول پڑيں۔
” اب ایسا کریں گے آئندہ ہم نبیوں کے قصے سنیں گے اور سنائیں گے”۔
” نبیوں کے قصے؟” بچوں نے دلچسپی سے پوچھا ۔
” ہاں ،کیونکہ اس میں کوئی جھوٹ بھی نہیں ہوتا اور ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور صرف نبیوں کے ہی نہیں جو بہادر مسلمان گزرے ہیں ان کی کہانیاں بھی سناؤں گی” ۔
” ارے واہ یہ ٹھیک ہے ” فاطمہ نے خوش ہوکر کہا ۔
سب نے اس کی تائید کی اور دادو اپنی الماری سے کتابیں نکالنے چلی گئیں تاکہ اس میں سے بچوں کے لیے سبق آموز قصوں کا انتخاب کر سکیں ۔