اہل اسلام کے لیے سال کے دو ماہ یعنی رمضان المبارک اور ذی الحج بہت اہم عبادات پر مبنی اور مبارک ہیں ان اجتماع عبادات کا انعام یا صلہ ’’عید الفطر اور عید الاضحیٰ‘‘ کی صورت میں مسلمانوں کو رب کا تحفہ ہیں جو عالم اسلام نہایت عقیدت احترام و خوبصورت انداز میں مناتے ہیں۔
ذی الحج کا معتبر مہینہ ہر ایک کے لیے اہم و مقدس ہے اس کے آنے سے پہلے ہی بہت سی یادیں بہت سے واقعات ذہن پر دستک دیتے ہیں ذوالحج کا مہینہ جس میں حج کی سعادت حاصل کی جاتی ہے اور ہمارے اللہ کے نبی حضرت ابراہیمؑ کی سنت یعنی ’’قربانی‘‘ ادا کی جاتی ہے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کا یہ واقعہ تمام عالم اسلام کو ازبر ہو گا اور ہونا بھی چاہیے حج جو عالم اسلام پر تمام فرائض کی طرح فرض کیا گیا ہے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ’’اور اللہ کے لیے لوگوں کے ذمہ ہے اس گھر کا حج کرنا جو کوئی پاس کے اس کی طرف راہ اور جو شخص منکر ہو تو اللہ تعالیٰ تمام جہاں والوں سے بے پروا ہے‘‘
یعنی طاقت و وسائل کے ہوتے ہوئے بھی اس ’’رکن اسلامی‘‘ سے محروم ہونا اللہ کو پسند نہیں جیسا کہ ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ’’جس شخص کو ظاہری مجبوری یا بادشاہ ظالم یا مغرور ہونے والی بیماری مانع نہ ہو اور پھر وہ حج کیے بغیر مر جائے تو اس کو اختیار ہے کہ یہود ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر مرے (مشکوٰۃ)
اس سے ظاہر ہے کہ حج مسلمان پر فرض ہے اسی لیے آپؐ کا ارشاد ہے کہ جو ارادہ کرے حج کرنے کا۔ پاس چاہیے کہ جلدی کرے (مشکوٰۃ) حج کی ادائیگی جو اخلاص کے ساتھ کی گئی ہے وہ بندے کے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے میرے نبی نے اس سلسلے میں فرمایا کہ جو شخص حج کرے واسطے اللہ کے (یعنی ریا و نمود و نمائش وغیرہ نہ ہو خالص اپنے رب کی رضا کی خاطر کیا) لیے، پس نہ صحبت کرے اپنی عورت سے (دوران حج) اور نہ فسق کرے (یعنی گناہ کبیرہ نہ کرے) تو وہ لوٹتا ہے )یعنی حج سے ایسا پاک ہو کر( مانند اس دن کے کہ جنا اس کو اس کی ماں نے (مشکوٰۃ)
سبحان اللہ یہی حج مبرور ہے کہ جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے جنا ہوا ہر گناہ سے پاک ہوتا ہے گویا اللہ کی رضا کی خاطر اخلاص کے ساتھ حج ادا کرنے والا اسی طرح پاک و صاف ہے (سبحان اللہ) اللہ اپنے ہر بندے کو اسی اخلاص کے ساتھ حج کرنے کی سعادت عطا فرمائے… پھر اس کے بعد بھی بندہ اپنی ذات کو ہر صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچائے تو یہ اس کے حج کی حفاظت ہے اور میں نے اکثر حاجیوں کو سنبھل سنبھل کر احتیاط کے ساتھ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے دیکھا ہے۔ کیونکہ رب العزت اپنے خاص بندوں کو ہی یہ سعادت نصیب کرتا ہے… اس ماہ مبارک کے آنے سے پہلے ہی لوگ اس تہوار (عید) کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں… ایسے عظیم تہوار کی آمد قریب آتی ہے تو خصوصاً مجھے اپنا بچپن یاد آجاتا ہے میرے مرحوم والد محترم (رب العزت ان کے درجات بلند فرمائے) اکثر رات میں ہمیں اس سنت ابراہیمی کے بارے میں مفصل واقعات بتاتے کہ اللہ کے نبیؑ کس طرح اللہ کے حکم پر بے چوں چراں اپنے بیٹے کی قربانی کے لیے تیار ہو گئے اور سبحان اللہ بیٹا جس نے اللہ کے حکم پر باپ کے سامنے (اس کی فرمانبرداری میں) اپنے آپ کو بے دھڑک پیش کر دیا… میری والدہ محترمہ جو اس محفل میں ہمارے ساتھ بیٹھی رہتی خود بھی کوئی نہ کوئی مثبت جملہ بولتی رہتی ہم بہن بھائی اماں، ابا کی صحبت میں ان واقعات سے بھر پور لطف اندوز بھی ہوتے اور معلومات بھی حاصل کرتے… عید سے چند دن پہلے ہی قربانی کے جانور آجاتے اماں کا کہنا یہ ہوتا کہ اللہ کی راہ میں تو اپنی پیاری چیز قربان کرنی ہے لہٰذا ان جانوروں کی خدمت کرنے اور ساتھ وقت گزارنے سے ان سے بچوں کی انسیت پیدا ہو جائے گی اور یقیناً ایسا ہی ہوتا خصوصاً ہمارے چھوٹے بھائی تو دونوں ان جانوروں سے گھل مل جاتے اور ان کی قربانی پر افسردہ نظر آتے تو اماں کہتی یہی تو قربانی ہے اب اس کا گوشت خوشدلی سے کھائو تو اللہ خوش ہو گا پھر اکثر کہتی کہ الحمدللہ رب الکریم نے حضرت اسمعیٰلؑ کے بجائے دنبہ بھیج دیا اس کی قربانی ہوئی ورنہ… یہ بھی والدین کے لیے بہت بڑا امتحان ہوتا بے شک میرا رب اپنے بندوں پر ستر مائوں سے زیادہ مہربان ہے جس نے والدین کو ’’بڑی آزمائش‘‘ سے بچایا۔ سنت ابراہیمیؑ کی تعلیم کے مطابق ہمیں رب کی فرمانبرداری لازم و ملزوم ہے۔ اس لیے بندہ رزق حلال سے اللہ کی راہ میں اس عظیم موقع پر قربانی کا فریضہ ادا کرتا ہے رب اس کی اس قربانی کو اپنی بار گاہ میں قبول کرتا ہے اور اجر و ثواب سے بہرہ ور فرماتاہے۔
صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ ہے کہ آپؐ نے عید کے دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلا کام جو ہم آج کے دن میں (عیدالاضحیٰ) کرتے ہیں یہ ہے کہ پہلے ہم نماز پڑھیں پھر واپس آکر قربانی کریں جس نے اس طرح کیا وہ ہمارے طریق پر چلا‘‘
پھر اس دن کی اہمیت و فضیلت اس صحیح بخاری کی حدیث سے واضح ہے کہ ہمارے نبیؐ نے فرمایا ان دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں لوگوں نے پوچھا اور جہاد میں بھی نہیں آپؐ نے فرمایا ہاں جہاد میں بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا (سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کردیا) اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہے کہ یہ عیدین کے تہوار اللہ کی طرف سے خاص دن ہے جو مسلمانوں کے خوشی کے دن ہیں لیکن ان دنوں کو بھی احترام و تکریم کے دائر ے میں گزارتا ہے اللہ کی عبادت سے غافل نہیں ہوتا یہ خاص دن ہیں اس دن بھی نیکیوں سے اپنا دامن بھرنا ہے۔ یہود و نصاریٰ اور دوسری اقوام اپنے تہواروں کو لہب و لہو میں گزار دیتے ہیں میرے رب نے یہ دن مسلمانوں کی عبادت کی وجہ سے عطا فرمائے ہیں جنہیں خاص عبادت خطبہ اور نماز سے شروع کرنا ہے صاف ستھرے پاکیزہ لباس زیب تن کرکے مسجدوں کا رخ کرنا ہے عمدگی سے نماز کی ادائیگی کے بعد نمازی ایک د وسرے سے بغلگیر ہو کر سلام و دعا کرتے ہیں ایسے پر رونق روح پرور مناظر صرف مسلمانوں کے ’’تہواروں‘‘ پر بھی نظر آتے ہیں۔ نماز عید سے فارغ ہو کر بندہ (عیدالاضحیٰ پر) قربانی کا فریضہ ادا کرتا ہے یہاں بھی حقوق العباد کا مظاہرہ کرتا ہے جی ہاں قربانی کا گوشت پاس پڑوس، عزیز و اقارب کو محنت سے بھیجا جاتا ہے اور خود بھی کھایا جاتا ہے اسے موقعوں پر خصوصاً غریبوں کا یتیموں اور مساکین کا خیال ضرور رکھنا چاہیے انہیں بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرنا چاہیے۔ قربانی کا گوشت ان تک ضرور پہنچنا چاہیے… الحمدللہ ہمارے آس پاس بہت سے مخیر ادارے ہیں جو بڑی ایمانداری سے آپ کا دیا ہوا گوشت اور جانوروں کی کھالیں یتیم خانوں اور ضرورت مندوں تک پہنچانے کا فریضہ ادا کرتے ہیں مثلاً الخدمت جماعت اسلامی یا اسی نوعیت کے دوسرے ادارے جو آپ کی اس نیکی میں برابر کے شریک ہیں… عام طور پر پیشہ ور فقراء کا تانتا بندھا ہوتا ہے وہ گھر گھر جا کر خیرات اور قربانی کا گوشت مانگتے ہیں پچھلے سال ایک بات بازگشت کرتی کانوں میں پہنچی کہ یہ پیشہ ور مانگنے والے در در جا کر گوشت لیتے ہیں پھر جمع کرکے اسے غریبوں کی بستیوں میں جا کر کم قیمت میں بیچتے ہیں (واللہ علم) لہٰذا مستحقین تک ان اداروں کے ذریعے بھی پہنچایا جا سکتا ہے گوشت کو گھروں میں جمع کرنے فریزر بھرنے کا رواج بھی عام ہو گیا بے شک قربانی کا گوشت خود بھی پورا رکھ سکتے ہیں لیکن افضل ہے کہ رشتہ داروں اور غریبوں کا حصہ بھی نکالیں مجھے اس موقعے پر (اپنے بچپن میں) خاتون کا واقعہ یاد آگیا کہ وہ (خاتون) پڑوسی پوری ایک بڑی گائے کی قربانی کرکے چند رشتہ داروں اور کچھ قریبی پڑوسیوں میں تھوڑا بہت تقسیم کرکے باقی گھر میں ہی رکھ لیا جاتا فریج اور فریزر ’’ابلنے لگتے‘‘ آخر مجبور ہو کر چند دنوں کے بعد دس پندرہ کلو گوشت گلی میں کچرے دان میں پھینک دیا جاتا بے چارے غریب غرباء للچائی نظروں سے اس گوشت کو دیکھتے اور کچھ اس کچرے میں نکال کر بھی لے جاتے… ہم تو بچے تھے ہمیں اس بات کا احساس نہ تھا لیکن اماں اکثر کہتی کہ یہ گناہ ہے اصراف ہے اللہ کے رزق کی قدر کرنی چاہیے اگر زیادہ ہے تو اسے اپنے ہاتھوں سے غریبوں تک پہچانا چاہیے ناکہ کچرے دان کی نذر کرنا چاہیے۔ بے شک میرا رب بڑا مہربان ہے ان دونوں تہواروں کے مواقع پر بھی ہماری تربیت کا سامان ہے نہ صرف یہ کہ خوشی کے موقع پر بھی رب کے حضور جھکنا ہے (عبادت کرنی ہے) بلکہ حقوق العباد سے بھی غافل نہیں ہونا اور پھر اللہ قربانی نہ کرنے والوں کو بھی کسی نہ کسی طرح اجرو ثواب دیتا ہے (جو مجبور ہوں) جیسا کہ آپؐ نے فرمایا عیدالضحیٰ کے دن (دسویں ذی الحجۃ کو) کہ مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ رب الکریم نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے ایک شخص کہنے لگا بتائیے کہ اگر میں بجز مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی چیز نہ پائوں تو کیا اسی کی قربانی کردوں؟ آپؐ نے فرمایا! نہیں، تم اپنے بال کترلو، ناخن تراش لو مونچھ کتر لو اور زیر ناف کے بال لے لو اللہ کے نزدیک بس یہی تمہاری قربانی ہے (سنن البودائود) سبحان اللہ
ان سطور کے ذریعے میں اپنے تمام پڑھنے والوں سے یہی کہوں گی کہ زندگی کو اس کے ہر پل کو خوشیوں کے ان دونوں تہواروں کو اپنے رب کی منشا اور حکم کے مطابق اور اس کے پیارے نبیؐ کی سنت کے مطابق گزارنا افضل ہے… اور فرض بھی… یقینا جس کا اجر و ثواب بھی ہے جس سے اپنے آپ کو محروم رکھنا اپنی ذات پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔