شاعری فنون لطیفہ کی اہم شاخ ہے،اختر سعیدی

377

فنون لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری بہت اہمیت کی حامل ہے‘ اس سے ہم ذہنی آسودگی اور توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف صحافی‘ ادیب اور شاعر اختر سعیدی نے ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کے تحت پروفیسر جاذب قریشی کے تعزیتی اجلاس اور مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پروفیسر جاذب قریشی اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے نوجوان قلم کاروں پر بہت لکھا ہے۔ اربابِ قلم کا یہ کہنا ہے کہ جاذب قریشی ایک سچے اور کھرے قلم کار تھے انہوں نے کبھی چڑھتے سورج کی پرستش نہیں کی‘ انہوں نے تنقید‘ صحافت اور شاعری کے میدان میں نام کمایا لیکن حکومتی سطح پر جاذب قریشی کی وہ پزیرائی نہیں کی گئی جس کے وہ حق دار تھے۔ مظہر ہانی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ کراچی میں بہت سی ادبی تنظیمیں ہیں‘ جو اپنے وسائل کے تحت مشاعرے اور دیگر ادبی پروگرام منعقد کرتی ہیں لیکن حکومتی سطح پر قلم کاروں کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں۔ ان کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ تحریک نفاذ اردو کے روح رواں اور مشاعرے کے مہمان خصوصی قاسم جمال نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں اب تک ہر سرکاری دفتر میں اردو کا نفاذ ہونا چاہیے تھا لیکن یہ معاملہ رک گیا ہے بیورو کریسی اردو کے لیے مخلص نہیں ہے۔ ناظم مشاعرہ محمد علی گوہر نے کہا کہ جاذب قریشی ایک بڑے قلم کار تھے ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا بھر نہیں سکتا۔ و ہ اس دنیا سے چلے گئے لیکن ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ اس مشاعرے میں اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ یوسف چشتی‘ کاوش کاظمی‘ گل انور میمن‘ اسحاق خان اسحاق‘ مظہرہانی‘ عامر ثانی اور کامران طالش نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ