’’ہاں میںنےف اپنے بیٹوں کے علاوہ عمیر سے بھی تصدیق کی تھی‘‘۔
’’اور عمیر نے تمہیں یہ بھی بتایا تھا کہ عاصم نے اُسے تمہارے بیٹوں کے خلاف لڑائی پر اُکسایا تھا‘‘؟
’’ہاں!‘‘
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عاصم اوس اور خزرج کے عام لڑکوں سے مختلف ہے‘‘۔
’’جی ہاں! وہ جس قدر ذہین ہے اُسی قدر خطرناک بھی ہے، ایک دن اُس نے میرے منہ پر کہا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب اوس و خزرج ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے بجائے متحد ہو کر یہودیوں کے خلاف لڑیں گے‘‘۔
’’پھر تم نے ایسے خطرناک لڑکے کو تعلیم کیوں دلوائی؟‘‘
شمعون نے جواب دیا ’’جناب جب وہ میرے پاس آیا تھا تو اُس کی عمر زیادہ نہ تھی۔ وہ باتوں سے بیحد ذہین معلوم ہوتا تھا، میرا خیال تھا کہ وہ بڑا ہو کر میرے کاروبار میں ایک اچھا معاون ثابت ہوگا اور شاید واپس جانا نہ پسند کرے۔ پھر مجھے یہ بھی اُمید تھی کہ اُس کا باپ میرا قرضہ نہیں اُتار سکے گا، اور اُسے مجبوراً میرے پاس رہنا پڑے گا‘‘۔
کعب نے کہا ’’تمہاری پہلی غلطی یہ تھی کہ تم نے ایسے ہوشیار لڑکے کو اپنے گھر میں رکھا۔ دوسری یہ کہ تم نے اُسے تعلیم دلوائی اور تیسری یہ کہ جب وہ بڑا ہو کر لڑائی میں حصہ لینا چاہتا تھا تو تم نے اُسے کوٹھڑی میں بند کردیا‘‘۔
ایک یہودی نے کہا ’’جناب! اوس کے ایک معمولی خاندان کا لڑکا ہمارے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں ہوسکتا اوّل تو وہ خزرج کے کسی نوجوان کے ہاتھوں قتل ہوجائے گا ورنہ ہم اُس سے نبٹ لیں گے‘‘۔
کعب نے جواب دیا ’’میں اُس کے متعلق پریشان ہوں۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر اوس کے ایک نو عمر لڑکے کے دماغ میں ایسے خیالات پرورش پاسکتے ہیں تو ممکن ہے کہ کچھ دن میں اور بھی کئی لوگ ہمارے متعلق اسی طرح سوچنے لگیں۔ یثرب کے یہودیوں کی نجات اِسی میں ہے کہ اوس و خزرج ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہوجائیں۔ عربوں میں صلح کی نوبت اُس وقت آتی ہے جب ایک شکست خوردہ فریق ہر طرف سے مایوس ہو کر اپنے نقصانات کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ گزشتہ لڑائیوں میں اوس کی حالت کمزور ہوچکی ہے اور خزرج کی اکثریت بھی لڑائی جاری رکھنا نہیں چاہتی۔ اب ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ بنواوس کے حوصلے قائم رکھیں اور درپردہ اُن کی اتنی مدد ضرور کرتے رہیں کہ وہ اپنی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بہہ جانے تک لڑتے رہیں۔ ہمیں خزرج کو بھی یہی احساس دلانا چاہیے کہ ہم اُن کے دوست ہیں۔ اوس اور خزرج کی صلاح یا اتحاد ہمارے لیے بہت خطرناک ہوگا کیوں کہ اس صورت میں اُن کی توجہ ہماری طرف مبذول ہوجائے گی۔ اگر ہم خود لڑنے کے بجائے صرف پیسہ دے کر اوس کے ہاتھوں خزرج اور خزرج کے ہاتھوں اوس کے آدمیوں کو قتل کراسکتے ہیں تو ہمیں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ پھر ہمارا پیسہ بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ اگر ہم انہیں چند سال ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں تو ان کے باغات اور مال مویشی ہمارے قبضے میں آجائیں گے۔ شمعون! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی قوم کے مفاد کے لیے تم ذرا حوصلے سے کام لینے کی کوشش کرو‘‘۔
شمعون نے جواب دیا ’’جناب! آپ کا مشورہ ہمارے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر آپ فرمائیں تو میں اُسے مزید قرض دینے کو بھی تیار ہوں۔ لیکن آپ کو اس بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ اوس اور خزرج کے درمیان صلح ہوسکتی ہے۔ جب تک اُن کی صفوں میں ہبیرہ جیسے لوگ موجود ہیں وہ ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہیں گے۔ اہل عرب جس مٹی پر ایک مرتبہ خون گراتے ہیں اُس کی پیاس برسوں نہیں بجھتی۔ آپ بسوس اور فجار کی لڑائیوں کے حالات جانتے ہیں اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان لڑائیوں میں حصہ لینے والے قبائل یہودیوں کے اثر و رسوخ سے بہت دور تھے‘‘۔
کعب نے اُٹھتے ہوئے کہا ’’یہ صحیح ہے کہ اُن قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانے میں یہودیوں کا کوئی ہاتھ نہ تھا لیکن اگر اُن کے درمیان یہودی موجود ہوتے تو ان جنگوں کی شدت اور طوالت میں مزید اضافہ کیا جاسکتا تھا۔ میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ اوس اور خزرج کی لڑائیوں سے براہ راست ہمیں فائدہ پہنچتا ہے اس لیے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو جس سے وہ اپنی تلواریں نیام میں کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ ہمارا کام ہبیرہ جیسے تند مزاج لوگوں کو مایوس کرنا نہیں بلکہ ان کی پیٹھ ٹھونکنا اور اُن کے حوصلے قائم رکھنا ہے‘‘۔
ایک یہودی نے کہا ’’جناب! آپ مطمئن رہیں ہم اوس اور خزرج میں سے کسی کا جوش ٹھنڈا نہیں ہونے دیں گے۔ یہ درست ہے کہ اُن کے بیشتر خاندان لڑائی سے تنگ آچکے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ عاصم کے واپس آنے پر جو تلواریں اُس کے رشتہ داروں میں تقسیم ہوں گی وہ زیادہ عرصہ نیام میں نہیں رہ سکیں گی‘‘۔
کعب نے کہا ’’شمعون! تم ایک ہوشیار تاجر ہو لیکن تمہیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ تمہارا مستقبل یثرب کے باقی یہودیوں سے جدا نہیں ہوسکتا۔ اور یہودیوں کو مستقبل کے خطرات سے بچانے کی واحد صورت یہی ہے کہ اوس اور خزرج کے درمیان مصالحت کے امکانات پیدا نہ ہونے پائیں۔ اگر ہبیرہ جیسے لوگ بجھتی ہوئی آگ کے لیے نیا ایندھن مہیا کرسکتے ہیں تو ہمیں دل شکنی کے بجائے اُن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے اگر ہمیں انہیں مفت بھی تلواریں دینی پڑیں تو یہ سودا مہنگا نہیں ہوگا؟‘‘
شمعون نے جواب دیا ’’جناب! آپ اطمینان رکھیے! میں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ اوس اور خزرج زیادہ عرصہ امن سے نہیں رہ سکیں گے‘‘۔
باب ۴
یروشلم سے آگے، بنو کلب اور بنو غطفان کے تاجروں کے ہمراہ ایک طویل سفر کے بعد عاصم کا راستہ جدا ہوگیا اور پھر ایک روز غروب آفتاب کے وقت وہ سنگلاخ چٹانوں اور ریت کے ٹیلوں کے درمیان ایک تنگ وادی سے گزر رہا تھا۔ صحرا کی ہوا بتدریج خنک ہورہی تھی۔
عاصم نے اچانک اپنا گھوڑا روکا اور مڑ کر عباد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’اب ہم آگے نہیں جاسکتے، میرا گھوڑا بہت تھک گیا ہے۔ ہمارے لیے راستے سے ہٹ کر اس وادی کے دوسری طرف قیام کرنا بہتر ہوگا۔ تم یہیں ٹھہرو، میں کوئی موزوں جگہ دیکھ کر ابھی آتا ہوں‘‘۔
عباد نے کہا ’’میں خود آپ سے یہی کہنے والا تھا کہ ہمیں ٹھہرنا چاہیے۔ آج سے کوئی بیس سال پہلے جب میں پہلی مرتبہ آپ کے والد کے ساتھ شام کے سفر پر گیا تھا تو واپسی پر ایک رات یہیں قیام کیا تھا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اُس وقت بھی ہم شام میں گھوڑے بیچ کر آئے تھے۔ لیکن اُس وقت ہم تنہا نہ تھے، ہمارے ساتھ یمن کے تاجروں کا ایک قافلہ تھا۔ وہ دن بہت اچھے تھے۔ ہمارے ساتھ قبیلے خزرج کے چند آدمی بھی سفر کررہے تھے اور ہمیں ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ جب ہم دمشق سے واپس روانہ ہوئے تھے تو…‘‘
عباد کے ذہن میں ایک پوری داستان کا مواد آچکا تھا۔ لیکن عاصم نے اچانک باگ موڑ کر گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور آن کی آن میں، بائیں ہاتھ، ریت کے ایک ٹیلے پر جا پہنچا۔ وہاں سے دوسری طرف ایک اور تنگ وادی کا جائزہ لینے کے بعد اُس نے ہاتھ اونچا کرکے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا اور وہ اُس طرف چل پڑا۔ عاصم گھوڑے سے کود پڑا اور اس کی باگ پکڑ کر ٹیلے سے نیچے اترنے لگا۔ نشیب میں ایک جگہ ببول کی چند جھاڑیاں تھیں۔ عاصم نے ان کے قریب پہنچ کر گھوڑے کا ساز اتارا اور اس کے گلے کا رسّا کھول کر ایک جھاڑی سے باندھ دیا۔ خرجی سے کچھ جونکال کر چمڑے کے توبڑے میں ڈالے اور انہیں چھا گل کے پانی سے تر کرنے کے بعد توبڑے کو ایک طرف رکھ دیا۔ گھوڑے نے توبڑا دیکھتے ہی ہنہنانا اور اچھلنا شروع کردیا۔ عاصم نے آگے بڑھ کر گھوڑے کو تھپکیاں دیتے ہوئے کہا ’’دوست مجھے معلوم ہے تم بہت بھوکے ہو لیکن ابھی تھوڑی دیر انتظار کرو‘‘ پھر وہ جھاڑیوں کی طرف بڑھا اور ان کی سوکھی ٹہنیاں توڑ کر ایک جگہ جمع کرنے لگا۔ اتنی دیر میں عباد بھی پہنچ گیا اور اُس نے اپنے اونٹ کو بٹھا کر اُترتے ہوئے کہا ’’میرے خیال میں یہاں سردی اتنی نہیں ہوگی کہ ہمیں رات کے وقت آگ جلانے کی ضرورت پیش آئے‘‘۔ عاصم نے جواب دیا ’’خیال تو میرا بھی یہی ہے تاہم احتیاطاً یہ ایندھن جمع کرلیا ہے۔ اگر سردی زیادہ ہوگئی تو آگ جلالیں گے۔ تم پانی کا مشکیزہ اور کھانے کا سامان اتار لو اور اونٹوں کو ان جھاڑیوں سے باندھ دو۔ باقی سامان اتارنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں پچھلے پہر یہاں سے روانہ ہوجانا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ چاند ہم گھر پہنچ کر دیکھیں۔ مشکیزے میں پانی کافی ہے تم کچھ گھوڑے کو پلادو۔ میں نے توبڑے میں جو بھودیے ہیں‘‘۔
تھوڑی دیر بعد رات ہوچکی تھی۔ اونٹ ببول کی ٹہنیاں نوچ رہا تھا اور گھوڑا تو بڑے میں منہ ڈالے، جو چبا رہا تھا۔ عاصم نے عباد کے ساتھ بیٹھ کر پنیر سے جَو کی روٹی کے چند نوالے کھائے اس کے بعد پانی پیا اور ٹھنڈی ریت پر ٹانگیں پھیلاتے ہوئے کہنے لگے ’’ہمیں آگ کی ضرورت نہیں۔ تم اطمینان سے سو جائو میں آدھی رات تک پہرا دوں گا‘‘۔
عباد کی آنکھیں پہلے ہی نیند سے بوجھل تھیں وہ فوراً لیٹے ہوئے بولا ’’دیکھیے، جب آپ کو نیند آنے لگے تو مجھے ضرور جگادیں۔ رات کے وقت ہم میں سے ایک کو پہرا ضرور دینا چاہیے‘‘۔
’’تم میری فکر نہ کرو، میں نے کل رات خاصا سولیا تھا۔ اب اگر مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا تو بھی اُٹھ کر ٹہلنا شروع کردوں گا۔
تھوڑی دیر بعد عباد خراٹے لے رہا تھا اور عاصم چت لیٹا ستاروں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے خیالات مختلف سمتوں میں پرواز کررہے تھے۔ کبھی وہ شام کے شہروں کی پُررونق گلیوں اور بازاروں کا طواف کررہا تھا اور کبھی یثرب کے نخلستانوں کی سیر کررہا تھا۔ وہ تقریباً چار مہینے کے طویل سفر کے بعد اپنے گھر جارہا تھا اور راستے کی تمام دشواریوں کے باوجود اُس کا یہ سفر اس کی توقع سے زیادہ کامیاب رہا تھا۔
O
امن کے دنوں میں، عرب کی حدود کے اندر، عاصم اپنے آپ کو نسبتاً محفوظ سمجھتا تھا۔ تاہم قافلے سے جدا ہونے کے بعد اُس نے احتیاطاً راستے کی صرف ان بستیوں سے گزرنا مناسب سمجھا جن میں رہنے والے قبائل اہل یثرب سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ اسے اس بات کا شدید احساس تھا کہ اس کا بخیر و عافیت گھر پہنچنا، اس کے خاندان کی عزت کا مسئلہ ہے۔
اور اب وہ کسی ناخوش گوار حادثے سے دوچار ہوئے بغیر اپنی منزل مقصود کے قریب پہنچ چکا تھا۔ جب وہ سوچتا کہ میں صرف کپڑا فروخت کرکے اپنے چچا کا تمام قرضہ چکا سکوں گا، اور دمشق کی خوبصورت تلواریں دکھا کر قبیلہ اوس کے ہر نوجوان سے داد و تحسین حاصل کرسکوں گا تو اُس کے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی لیکن جب اُسے اپنے گھر کا خیال آتا تو وہاں کے مناظر اس دشت کی تنہائی سے زیادہ وحشت ناک محسوس ہوتے۔ اُس کی ماں اسے بچپن ہی میں داغِ مفارقت دے گئی تھی۔ اس کے دو بھائی جن کی شجاعت و جواں مردی پر سارے قبیلے کو فخر تھا وہ لڑائی میں کام آچکے تھے، اس کا باپ اپنے کسی عزیز کی ایک مدت تیمارداری کرنے کے بعد گھر واپس آرہا تھا کہ کسی نے بے خبری کی حالت میں پیچھے سے حملہ کرکے اسے قتل کردیا۔ اب عاصم کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے عزیزوں کے خون کا انتقام لینا تھا۔ اس کے بھائیوں، اس کے باپ اور اس کے ابن عم کی روحین پیاسی تھیں اور یہ پیاس صرف بنو خزرج کے خون سے بجھائی جاسکتی تھی۔ ہبیرہ اُس کا چچا اپنے دائیں ہاتھ سے محروم ہونے کے باعث تلوار اٹھانے کے قابل نہ تھا۔ ہبیرہ کے چھوٹے بیٹے سالم کی عمر ابھی چودہ سال سے بھی کم تھی اور اس کی بہن سعاد اس سے کوئی دو سال چھوٹی تھی۔ ان حالات میں اپنے گھرانے کے زندہ افراد کے حوصلے قائم رکھنے اور مرنے والوں کی روحوں کو آسودہ کرنے کی ساری ذمہ داری عاصم پر عائد ہوتی تھی۔
(جاری ہے)
وہ فطرتاً خونخوار نہیں تھا لیکن اس نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی تھی جس میں خاندانی قبائل حمیت پر جان دینا ایک نوجوان کا اولین فرض سمجھا جاتا تھا۔ اپنے معذور چچا اور اس کے کمسن بچوں کی بے بسی اُس کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ شام کی طرف روانہ ہوتے وقت اُس نے ہبیرہ، سالم اور سعاد کے سامنے منات کی قسم کھا کر یہ عہد کیا تھا کہ ’’جب میں واپس آئوں گا تو تم لوگ فخر سے سر اُٹھا کر یہ کہہ سکوں گے کہ ہم اپنے دشمنوں سے انتقام لے چکے ہیں اور شمعون بھی ہمیں اپنا مقروض ہونے کا طعنہ نہیں دے سکے گا۔ آپ کو اِس بات کا ملال نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے قبیلے کے سرکردہ لوگ لڑائی سے اُکتا چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میں ان کی غیرت کو زندہ کر سکوں گا‘‘۔ اور اب وہ صحرا کی ٹھنڈی ریت پر لیٹا یہ سوچ رہا تھا کہ یہ نئی تلواریں جو اس نے شام سے حاصل کی ہیں عنقریب اُن جوانوں کے ہاتھ میں ہوں گی جو قبیلے کے ایک ایک مقتول کا انتقام لینے کا عہد کریں گے پھر کوئی عرب ہماری آئندہ نسلوں کو یہ طعنہ نہیں دے گا کہ تمہارے اسلاف اس قدر بے حمیت تھے کہ وہ دشمن کے خون سے اپنے عزیزوں کی روحوں کی پیاس نہ بجھا سکے۔ لیکن اس کا انجام کیا ہوگا؟ کیا ہمارے انتقام لے چکنے کے بعد یہ جنگ ختم ہوجائے گی؟ نہیں، یہ جنگ ختم نہیں ہوگی! ہماری غیرت و حمیت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے عزیزوں کی روحوں کی پیاس بجھانے کے لیے اپنے دشمنوں کا خون پیش کریں۔ اور یہی حال بنو خزرج کا ہے۔ ہم دونوں اس جنگ کو جاری رکھنے پر یکساں مجبور ہیں۔ یہ انتقام در انتقام کا سلسلہ جاری رہے گا۔ کب تک جاری رہے گا؟
عاصم کے ذہن میں اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا وہ ذہنی الجھائو کی حالت میں دیر تک بے حس و حرکت لیٹا رہا۔ پھر حال اور مستقبل کے تلخ حقائق سے منہ پھیر کر، ماضی کے سپنوں میں پناہ لینے لگا۔ اسے بچپن کے وہ دن یاد آرہے تھے جب اوس اور خزرج پرامن ہمسایوں کی طرح رہتے تھے اور وہ خزرج کے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ اس زمانے میں یثرب کے نخلستان کتنے خوبصورت معلوم ہوتے تھے، ان دنوں بستیوں میں کتنی چہل پہل ہوتی تھی۔ اپنے بچپن کے ساتھیوں کی شوخیوں اور شرارتوں کے تصور سے عاصم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
صحرا کی ہوا اب خاصی سرد ہوچکی تھی، وہ آگ جلانے کے ارادے سے اُٹھا۔ اچانک اُسے دور سے کسی کی آواز سنائی دی اور وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا، کچھ دیر بعد وہ اسے اپنا وہم سمجھ کر لکڑیوں کے ڈھیر کی طرف بڑھا لیکن چند اور آوازیں آئیں اور اس نے جلدی سے اپنی کمان اور ترکش اٹھانے کے بعد عباد کو جگاتے ہوئے کہا ’’عباد، ذرا ہوشیار ہوجائو میں نے اس ٹیلے کے اس طرف، کچھ آوازیں سنی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی قافلہ گزر رہا ہو، میں ابھی معلوم کرکے آتا ہوں‘‘۔
عباد اُٹھ کر اپنے ہتھیار سنبھالنے لگا اور عاصم تیزی سے ٹیلے پر چڑھنے لگا۔ چوٹی پر پہنچ کر اسے کچھ فاصلے پر الائو کی روشنی میں چند آدمی اور گھوڑے دکھائی دیئے۔ یہ لوگ الائو کے گرد بیٹھے ہونے کے بجائے کھڑے ہو کر کسی بات پر تکرار کررہے تھے۔ عاصم احتیاط سے قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا اور ٹیلے سے نیچے اُتر کر چلنے کے بجائے زمین پر رینگنے لگا۔ کوئی بلند آواز میں چلا رہا تھا ’’میں نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا، میں منات اور عزیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ یہ بہتان ہے، یہ جھوٹ ہے۔ سوتے میں کسی کے ہاتھ پائوں جکڑ دینا بہادری نہیں‘‘۔
اس کے بعد دوسری آواز سنائی دی ’’تم جھوٹے ہو اور تمہارے منات اور عزیٰ بھی جھوٹے ہیں‘‘۔
’’میں تمہارے خدا کی قسم کھاتا ہوں۔ موسیٰؑ کے خدا کی قسم۔ ٹھہرو! میری بات سنو! میں بے گناہ ہوں۔ میں نے اُسے ایک غلام کے ساتھ شرمناک حالت میں دیکھا تھا۔ اس لیے اس نے مجھ پر الزام لگادیا ہے‘‘
’’تم جھوٹے اور مکار ہو‘‘۔
’’یاد رکھو، میرا قبیلہ یثرب کے تمام یہودیوں سے انتقام لے گا‘‘۔
دو آدمیوں نے جھک کر جلتی ہوئی لکڑیاں اٹھائیں۔ اُس کے بعد پے در پے ضربوں کی آواز اور مضروب کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔
عاصم کے لیے یہ تمام واقعہ ایک معما تھا۔ ان لوگوں کی باتوں سے وہ صرف اتنا سمجھ سکا کہ جس شخص کو زدوکوب کیا جارہا ہے وہ جکڑا ہوا ہے۔ اور زدوکوب کرنے والے یہودی ہیں۔ چند ثانیے وہ یہ فیصلہ نہ کرسکا کہ اُسے کیا کرنا چاہیے۔ ایک طویل اور کٹھن سفر کے بعد اپنی منزل مقصود کے قریب اسے بلاوجہ کسی خطرے کا سامنا کرنا گوارا نہ تھا۔ لیکن ایک بے بس انسان کی کرب انگیز چیخیں سن کر اس کی رگِ حمیت پھڑک اٹھی اور اس نے اچانک ایک آدمی کے پائوں کا نشانہ باندھ کر تیر چلادیا۔ زخمی ہونے والے نے ’’ہائے‘‘ کہہ کر لکڑی پھینک دی اور عاصم نے کمان میں دوسرا تیر چڑھاتے ہوئے بلند آواز میں کہا ’’بزدلو، خبردار! تم ہماری زد میں ہو اور اب ہمارے تیروں کا نشانہ تمہارے دل ہوں گے‘‘۔
فضا میں ایک ثانیے کے لیے سناٹا چھا گیا۔ پھر ایک آدمی بھاگا اور اچھل کر اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھتے ہوئے چلایا ’’بدو آگئے! یہاں سے بھاگو!‘‘
آن کی آن میں چاروں آدمی گھوڑوں پر سوار ہو کر رات کی تاریکی میں غائب ہوگئے اور عاصم الائو کی طرف دوڑا۔ وہاں رسیوں میں جکڑا ہوا ایک آدمی جس کا چہرہ خاک اور خون میں لت پت تھا بے ہوش پڑا تھا۔ اور بھاگنے والوں کے پانچ گھوڑے اور سامان سے لدے ہوئے دو اونٹ جھاڑیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ الائو کے قریب ہی پانی کا ایک مشکیزہ اور کھانے کے چند برتن پڑے تھے۔
عاصم نے جلدی سے پانی کا مشکیزہ اٹھا کر زخمی کے منہ پر چھینٹے مارے۔ اس نے کچھ دیر کراہنے کے بعد آنکھیں کھولیں اور وحشت ناک آواز میں چلایا۔ ’’میں بے قصور ہوں۔ میرے ہاتھ پائوں کھول دو، مجھے جانے دو‘‘۔
عاصم نے اُس کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے کہا ’’تمہارے دشمن بھاگ گئے ہیں، اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں‘‘۔
زخمی نے غور سے عاصم کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔ عاصم نے قریب پڑے ہوئے برتنوں میں سے مٹی کا ایک پیالہ اٹھایا اور پانی سے بھر کر اُس کے ہونٹوں سے لگادیا۔ زخمی نے آنکھیں کھولے بغیر پانی کے چند گھونٹ پی لیے۔ اُس کے سر اور کنپٹیوں سے خون بہہ رہا تھا۔ عاصم نے اُس کی قبا پھاڑ کر زخموں پر پٹیاں باندھیں اور پھر اپنا خنجر نکال کر اُس کے ہاتھوں اور پائوں کی رسیاں کاٹ ڈالیں۔ اس کے بعد اس نے ایک دھجی پانی سے ترکی اور اُس کے چہرے اور پیشانی سے خون صاف کرنے لگا۔
زخمی نے جلدی سے اُس کے ہاتھ پکڑ لیے۔ عاصم نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا ’’گھبرائو نہیں، میرے دوست میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں دوں گا‘‘۔
زخمی نے کہا ’’تم نے مجھے اپنی پناہ میں لے لیا ہے؟‘‘
’’ہاں! مجھے افسوس ہے کہ میں بروقت نہ پہنچ سکا۔ تم کون ہو اور وہ لوگ کون تھے؟‘‘
زخمی اُس کے سوال کے جواب دینے کے بجائے بولا ’’تم نے کہا ہے کہ مجھے اب کوئی خطرہ نہیں‘‘۔
’’ہاں تمہیں مجھ پر اعتماد کرنا چاہیے‘‘۔
عاصم نے بھیگے ہوئے کپڑے سے زخمی کا چہرہ پونچھتے ہوئے کہا ’’تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ میں نے پوچھا تھا کون ہو؟‘‘
زخمی نے آنکھیں کھولیں اور جواب دیا ’’تم جانتے ہو! میں کون ہوں؟‘‘
عاصم نے الائو کی روشنی میں غور سے اُس کی طرف دیکھا اور اپنے دل میں اضطراب، نفرت اور حقارت کا ایک طوفان محسوس کرتے ہوئے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ یہ عمیر بن عدی تھا۔ جس کا خاندان اور قبیلہ اُس کے خاندان اور قبیلے کے خون کا پیاسا تھا۔ عاصم بے حس و حرکت کھڑا، یہ محسوس کررہا تھا کہ عمیر کے بزرگوں، بھائیوں اور عزیزوں کی روحیں اُس کے بزرگوں، بھائیوں اور عزیزوں کی روحوں کا مذاق اُڑا رہی ہیں اور وہ اپنے قبیلے سے بدعہدی کا مرتکب ہوچکا ہے۔
عمیر نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اُس کے پائوں پر رکھ دیا اور التجا آمیز لہجے میں بولا ’’عاصم، تم مجھے پناہ دے چکے ہو‘‘۔ اور عاصم اس طرح مضرب ہو کر پیچھے ہٹا جیسے کوئی زہریلا سانپ اُس کے پائوں پر رینگ رہا ہو۔
عباد نے چند قدم کے فاصلے سے آواز دی ’’عاصم! عاصم‘ تم ٹھیک ہو نہ؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں‘‘ اُس نے جواب دیا ’’تمہیں وہیں رہنا چاہیے تھا‘‘۔
عباد نے آگے بڑھ کر پوچھا ’’کیا ہوا، یہ گھوڑے کس کے ہیں۔ اور یہ نوجوان کون ہے؟‘‘
عاصم نے جھک کر اپنی کمان اٹھاتے ہوئے کہا ’’مجھے معلوم نہیں۔ آئو چلیں‘‘۔
عمیر نے درد ناک لہجے میں کہا ’’عاصم! تم اگر چاہو تو مجھ سے انتقام لے سکتے ہو۔ میں ان یہودیوں کے بجائے تمہارے ہاتھوں قتل ہونا بہتر سمجھتا ہوں‘‘۔
عاصم کچھ کہے بغیر وہاں سے چل دیا اور عباد ایک ثانیہ توقف کے بعد اُس کے پیچھے ہولیا۔ عمیر اُٹھ کر چلایا ’’عاصم، ٹھہرو! مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔ یہاں رات کے وقت بھیڑیے مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے قتل کردو۔ عاصم! عاصم!‘‘۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھا لیکن چند قدم چلنے کے بعد منہ کے بل گرپڑا۔
عاصم رُک گیا۔ ا‘س نے عباد کی طرف دیکھا اور کہا ’’عباد! یہ عمیر ہے عدی کا بیٹا۔ اور میں اسے ایک مظلوم و بے بس انسان سمجھ کر پناہ دے چکا ہوں۔ اب میں اس پر ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا لیکن اِس کی مدد کرنا بھی میرے بس کی بات نہیں۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اسے مارنے والے کون تھے؟ تم جانوروں کو لے آئو میں یہاں تمہارا انتظار کروں گا‘‘۔
عباد نے کہا ’’اگر آپ اسے پناہ دے چکے ہیں تو اتنا ضرور یاد رکھیے کہ آپ ہبیرہ کے بھتیجے اور سہیل کے بیٹے ہیں۔
’’تم جائو!‘‘ عاصم نے برہم ہو کر کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ ہم فوراً یہاں سے روانہ ہوجائیں، اب مجھے آرام کی ضرورت نہیں‘‘۔
عباد چلا گیا اور عاصم واپس آکر عمیر کے پاس کھڑا ہوگیا۔ عمیر منہ کے بل پڑا ہوا تھا۔ عاصم نے قدرے توقف کے بعد اُسے آواز دی ’’عمیر! عمیر!‘‘ عمیر نے کوئی جواب نہ دیا۔ عاصم جھک کر اُس کی نبض ٹٹولنے لگا۔ وہ زندہ تھا۔ عاصم نے اُسے اُٹھایا اور الائو کے قریب لٹا دیا۔ الائو میں جلنے والی لکڑیاں انگاروں میں تبدیل ہورہی تھیں۔ عاصم نے ایک اونٹ کا پالان اتارا اور انگاروں کے اوپر رکھ دیا۔ جب آگ کے شعلے بلند ہونے لگے تو عمیر کی طرف متوجہ ہوا۔
عمیر نے کراہتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد اپنی نظریں عاصم کے چہرے پر گاڑ دیں اور نحیف آواز میں کہنے لگا۔
’’مجھے معلوم تھا کہ تم مجھے اس بیچارگی کی حالت میں چھوڑ کر نہیں جائو گے۔ تمہیں یاد ہے ایک دفعہ تم نے شمعون کے سامنے کہا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب بنواوس اور بنو خزرج متحد ہو کر یہودیوں کے خلاف لڑیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ دن اب دور نہیں‘‘۔
عاصم نے روکھے انداز میں کہا ’’مجھے تم سے کوئی دلچسپی نہیں، میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تمہیں مارنے والے کون تھے؟‘‘
’’وہ خیبر کے یہودیوں میں سے شمعون کا کوئی رشتہ دار تھا اور باقی اُس کے نوکر تھے۔ میں تمہیں اپنی پوری سرگزشت سناتا ہوں۔ مجھے پانی دو!‘‘۔
عاصم نے اُٹھ کر اُسے پانی پلایا اور عمیر نے اپنی سرگزشت شروع کی۔ ’’یہ یہودی خیبر سے گھوڑے خریدنے آیا تھا۔ اور شمعون کا مہمان تھا۔ جب اُس نے گھوڑے خرید لیے تو شمعون نے مجھ سے کہا کہ تم اسے خیبر تک پہنچا آئو۔ میرا باپ شمعون کارہا سہا قرضہ چکانے کا انتظام کرچکا تھا اور میں اسی ہفتے اس سے رہائی پا کر اپنے گھر جانے والا تھا۔ لیکن شمعون نے اتنا اصرار کیا کہ میں خیبر کے یہودی کے ساتھ جانے پر مجبور ہوگیا۔ یہودی نے اپنی طرف سے مجھے ایک معقول معاوضےکا لالچ بھی دیا تھا۔ یہ فیصلہ رات کے وقت ہوا تھا اور میں چاہتا تھا کہ روانگی سے پہلے اپنے گھر ہو آئوں لیکن ہمارا قافلہ پچھلے پہر روانہ ہوگیا اور مجھے اپنے گھر والوں کو یہ بتانے کا موقف بھی نہ ملا کہ میں خیبر جارہا ہوں۔ یہ جگہ ہماری دوسری منزل تھی۔ ہم یہاں غروب آفتاب کے بعد پہنچے۔ کھانا کھانے کے بعد یہودی نے مجھ سے کہا ’’تم سوجائو‘ پہلے پہر میرے آدمی پہرا دیں گے اس کے بعد تمہیں جگا دیا جائے گا۔ میں الائو کے پاس سو گیا۔کچھ دیر بعد مجھے کسی نے پائوں کی ٹھوکر سے جگایا۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو میرے ہاتھ پائوں جکڑے ہوئے تھے اور یہودی اور اُس کے نوکر میرے چاروں طرف کھڑے تھے۔ یہودی نے مجھے گالیاں دیں، اور اس کے نوکر مجھ پر ٹوٹ پڑے‘‘۔
عاصم نے پوچھا ’’خیبر کے یہودی کو تم سے کیا دشمنی تھی؟‘‘
عمیر نے جواب دیا ’’اُسے مجھ سے کوئی دشمنی نہ تھی لیکن شمعون مجھے کسی بہانے گھر سے دور بھیج کر قتل کرانا چاہتا تھا اور مجھے روانہ ہوتے وقت یہ بات معلوم نہ تھی۔ میں آپ کو پورا واقعہ سناتا ہوں۔ شمعون نے اپنی بیوی کی موت کے بعد خیبر کی ایک نوجوان لڑکی سے شادی کی تھی۔ اس بدقماش لڑکی نے شمعون کے غلام سے ناجائز تعلقات پیدا کرلیے۔ ایک رات میں نے انہیں مکان سے باہر باغ میں پکڑ لیا۔ وہ میرے پائوں پر گرپڑے مجھے اس عورت سے زیادہ غلام کی بے کسی پر رحم آگیا اور میں نے اُن سے وعدہ کیا کہ اگر آئندہ تم نے کوئی شرمناک حرکت نہ کی تو میں تمہارا راز افشا نہیں کروں گا۔ اس کے بعد چند دن خیریت سے گزر گئے۔ لیکن پھر شمعون کی بیوی مجھے پر ڈورے ڈالنے لگی۔ ایک دن شمعون اور اُس کے لڑکے شہر گئے ہوئے تھے اور میں باغ میں کام کررہا تھا۔ اس نے خادمہ کو بھیج کر مجھے بلایا لیکن میں نے شمعون کی غیر موجودگی میں اندر جانے سے انکار کردیا۔ رات کے وقت میں ڈیوڑھی کے باہر سورہا تھا کہ وہ میرے پاس آگئی۔ پاس ہی دو اور نوکر سو رہے تھے۔ میں بے عزتی کے خوف سے بھاگا اور سیدھا گھر چلا گیا۔ میں نے اپنے باپ سے کہا کہ میں اب شمعون کے گھر نہیں رہنا چاہتا اس لیے آپ بلا تاخیر اس کا قرضہ چکادیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ میں اسی ہفتے قرضہ چکا دوں گا۔ لیکن اس وقت تم واپس چلے جائو۔ مجھے اندیشہ تھا کہ شمعون کی بیوی مجھ سے انتقام لینے کے لیے کوئی تہمت تراشے گی۔ وہ مجھے اس قسم کی دھمکیاں دے بھی چکی تھی۔ اس لیے میں اپنے باپ کے اصرار کے باوجود واپس نہ گیا۔ لیکن دو دن بعد شمعون خود مجھے لینے آگیا اور اس کی باتوں سے میرے خدشات دور ہوگئے۔ میرے والد نے مجھے شمعون کے ساتھ روانہ کرتے ہوئے اس بات کی تسلی دی کہ میں بہت جلد باقی رقم ادا کرکے تہمیں واپس لے آئوں گا‘‘۔
اس کے بعد تیسرے دن مجھے اس سفر پر بھیج دیا گیا۔ اس جگہ جب ان لوگوں نے مجھے گالیاں دینا شروع کیں تو میں سمجھ گیا کہ اس قدر اصرار کے ساتھ مجھے ان کے ہمراہ بھیجنے سے شمعون کا اصل مقصد کیا تھا۔ یہ یہودی بار بار مجھ پر الزام لگارہا تھا کہ میں نے اُس شخص کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے جس نے مجھے اپنے بچوں کی طرح پالا ہے۔ یہودی نے اپنے نوکروں کو حکم دیا تھا کہ وہ مجھے قتل کرکے راستے سے دور کسی جگہ دفن کردیں۔ ان حالات میں کون کہہ سکتا تھا کہ تم میری جان بچانے کو یہاں پہنچ جائو گے۔ یہودیوں نے کہا تھا کہ منات اور عزیٰ جھوٹے ہیں اور منات اور عزیٰ نے تمہیں میری مدد کے لیے بھیج دیا۔ عاصم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم مجھے یہاں مرنے کے لیے چھوڑکر نہیں جائو گے؟‘‘
عاصم نے کوئی جواب نہ دیا اور عمیر نے مایوسی کی حالت میں آنکھیں بند کرلیں۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔ بالآخر عمیر نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا ’’شمعون کو یقین ہوگا کہ میں مرچکا ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ میرے اچانک غائب ہوجانے کے متعلق وہ کس قسم کے قصے مشہور کرے گا۔ وہ مجھ پر کوئی ایسا الزام لگائے گا کہ میرے قبیلے کے لوگ مجھ پر لعنت بھیجیں گے۔ مجھے یہاں چھوڑ کر نہ جائو، اپنے ہاتھوں سے میرا کام تمام کردو اور میری لاش کو کسی ایسی جگہ چھپا دو کہ کسی کو سراغ نہ مل سکے۔ میں تمہاری مدد کے بغیر گھر نہیں پہنچ سکتا۔ اس ویرانے میں میری موت یقینی ہے‘‘۔
عاصم نے عمیر کی طرف دیکھا اور اضطراب کی حالت میں اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا ’’تم جانتے ہو کہ میں تمہیں اس حالت میں چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ لیکن میری ایک شرط ہے۔ اور وہ یہ کہ تم کسی سے میرا ذکر نہیں کرو گے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ میرے قبیلے کے لوگ میرا مذاق اُڑائیں‘‘۔
’’مجھے تمہاری شرط منظور ہے‘‘۔ عمیر نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔
عاصم نے پوچھا ’’تم گھوڑے پر سواری کرسکو گے؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں‘‘۔ عمیر نے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا ’’میرا سر پھٹ رہا ہے۔ اور میرا جسم سن ہورہا ہے لیکن میں کوشش کروں گا‘‘۔
’’ہمارا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ کہیں آس پاس چھپ کر ہمیں دیکھ رہے ہوں گے‘‘۔
عاصم اور عمیر کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے اور اتنے میں عباد گھوڑا اور اونٹ لے کر پہنچ گیا۔
عاصم نے کہا ’’عباد! میں عمیر کو جلد از جلد اس کے گھر پہنچانا چاہتا ہوں۔ تم ان میں سے ایک گھوڑا پکڑ لائو‘‘۔
’’ٹھہریے! میرا گھوڑا شاید یہیں ہو میں اُسی پر سواری کروں گا‘‘۔ عمیر یہ کہہ کر اُٹھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا سردبائے، لڑکھڑاتا ہوا جھاڑیوں سے بندھے ہوئے گھوڑوں کی طرف بڑھا۔
عباد نے عاصم سے پوچھا ’’آپ یہ باقی گھوڑے اور اونٹ یہیں چھوڑ جائیں گے؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’نہیں یہ غنیمت کا مال ہے، ان کی رسیاں کھول دو، یہ خود بخود ہمارے پیچھے بھاگیں گے لیکن اگر کوئی جانور پیچھے رہ جائے تو تمہیں اُس کی فکر نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں صبح تک ایک منزل ضرور طے کرلینی ہے۔ جب دھوپ تیز ہوجائے گی تو ہم کسی جگہ چند گھڑی سستا لیں گے۔ پھر، اگر راستے میں اس کی حالت زیادہ خراب نہ ہوگئی تو ہم کل رات گھر پہنچ جائیں گے‘‘۔
O
آفتاب غروب ہوچکا تھا اور عدی کے مکان کے ایک کشادہ کمرے میں چراغ جل رہا تھا۔ سمیرا ایک نو عمر، صحت مند اور خوبصورت لڑکی چراغ کے قریب بیٹھی کپڑے سینے میں مصروف تھی۔ عدی کا چھوٹا لڑکا نعمان جس کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ تھی اس کے قریب دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ عدی کا دوسرا لڑکا عتبہ کمرے میں داخل ہوا اور نعمان کے قریب بیٹھتے ہوئے بولا ’’سمیرا، تم دو دن سے اس میں لگی ہوئی ہو یہ قمیص کب ختم ہوگی؟‘‘ (جاری ہے)