تحفہ

440

ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کو محسوس کرکے فزا کا دل کِھل اٹھا۔ ’’واہ! کیا اچھی جگہ ہے یہ‘‘۔ اپنے آپ سے کہتے ہوئے فزا نے نظر گھمائی، چاروں طرف خوب صورت پھولوں اور پودوں کی قطاریں تھیں، سبزہ تھا۔
’’آہا…‘‘ وہ خود کو تتلی سا محسوس کرنے لگی۔
’’السلام علیکم چچی جان!‘‘ جانی پہچانی آواز پر وہ پلٹی اور چہرے کی مسکراہٹ دوچند ہوگئی۔ جیٹھانی، بھابھی اور بھائی جان… اور ان کی پیاری سی بیٹی اب بالکل اس کے پاس آچکے تھے۔
’’وعلیکم السلام بیٹا! سدا مسکراتی رہو۔ یہ لو تمھارا گفٹ۔‘‘ فزا نے ہاتھ میں پکڑا ہوا خوب صورت سا لپ اسٹک پیئر اسے پکڑایا۔
’’شکریہ چچی جان!‘‘ اس نے گفٹ پکڑتے ہوئے خوشی سے کہا۔ بھابھی اور بھائی جان! یہ آپ کے لیے ہے۔‘‘ آسمانی رنگ کا ایک اسکارف اور خوشبو کی بوتل فزا نے جیٹھانی کی طرف بڑھائی۔
’’فزا…!‘‘ کسی نے پیچھے سے پکارا۔
’’آہا میری پیاری سہیلی…!‘‘ اس نے دونوں بازو پھیلا کر اس کا استقبال کیا اور خوب صورت سی انگوٹھی اس کی انگلی میں پہناتے ہوئے کہا ’’یہ تمہارا گفٹ…‘‘ ساتھ ہی اس کی نظر پیچھے آنے والی دو بچیوں پر پڑی۔ قرآن کی کلاس میں آنے والی یہ بچیاں فزا کو پری ہی تو لگتی تھیں۔ فزا نے جھک کر دونوں کو پیار کیا اور دو خوب صورت سی گھڑیاں انہیں دیتے ہوئے بولی ’’یہ تمہارے لیے گفٹ‘‘۔
آج فضا کا دل خوشی سے بھرا ہوا تھا۔ ’’ارے ارے یہ ننھا سا پیارا سا گڈا آگیا…‘‘ فزا نے دیورانی اور اس کے بچوں کو دیکھا تو منہ سے بے اختیار نکلا۔ اس نے باری باری سب بچوں کو پیار کیا اور چھوٹے چھوٹے کھلونے سب میں تقسیم کیے۔ فزا کا نرم آنچل ٹھنڈی ہوا سے جھولا تو اس کا دل بھی جیسے جھولے محسوس کرنے لگا۔
’’السلام علیکم پھوپھو…!‘‘
’’ارے واہ…‘‘ حیا، ثنا اور ان کے ساتھ آنے والے بھیا اور بھابھی کو دیکھا تو اس کا دل باغ باغ ہوگیا۔ اس نے خوب صورت رنگ برنگے دوپٹے آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’یہ آپ کا گفٹ ہے۔‘‘
’’چھن چھناک…‘‘ زوردار آواز پر وہ یکدم چونکی۔ ’’کیا ٹوٹا…؟‘‘ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ نظر چاروں طرف گھومی تو منظر ایک دم بدل گیا تھا۔ وہ اپنے بستر پر تھی اور برابر میں میز پر رکھا اسٹیل کا گلاس زمین پر گر کر گھوم رہا تھا۔
’’آہ… یہ خواب تھا!‘‘ وہ پھر سے تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔
خوشی، ہنسی، ٹھنڈک اور راحت کے اُسی ماحول میں دوبارہ پلٹ جانے کو اس کا دل چاہنے لگا۔ اس کا وہ چہرہ جو ابھی ایک لمحہ قبل خوشی سے تمتما رہا تھا، بجھ گیا تھا۔ اپنے محبت کرنے والوں کو اپنے ہاتھوں سے تحفے تحائف دینے کی حسرت اس کے دل میں دوبارہ جاگ گئی تھی۔ فزا کا دل بھی چاہتا تھا کہ عید میں اپنے پیاروں کے لیے گفٹ خریدے، لیکن محدود آمدنی میں ضرورتوں کو پورا کرنے میں ہی مہینے گزرے جارہے تھے۔
’’تم… تم سا پاگل میں نے نہیں دیکھا…‘‘ فزا کا شوہر عامر اس کے شوق پر تبصرے کرکے اسے خاموش کرا دیتا تھا۔ ’’یہ ساری دنیا اپنے لیے خریداری کرتی ہے، اور تم دوسروں کو گفٹ دینے کی خواہش دل میں پالے بیٹھی رہتی ہو۔‘‘ عامر کا اگلا جملہ یہی ہوتا تھا۔
’’گفٹ دینے سے محبت بڑھتی ہے، کیا تم نے نہیں سنا؟‘‘ فزا چڑجاتی۔
شادی کے بعد سے ہی فزا کو یہ دھن لگی۔ آج تو گفٹ دینے کی حسرت خواب بن کر آگئی۔ گویا شوق جنون میں تبدیل ہورہا تھا۔ فزا نے گھڑی پر نظر ڈالی تو رات کے تین بج رہے تھے۔ اس نے اٹھ کر وضو کیا اور نماز پڑھ کر اپنے رب سے رحمت اور عافیت مانگی۔
صبح اٹھ کر فزا عامر کو آفس بھیجنے کے لیے تیاریاں کرنے لگی۔ عامر کو آفس بھیج کر باورچی خانے میں صفائی کا ارادہ کر ہی رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ فزا نے دیکھا فوزیہ باجی کا فون تھا۔
’’السلام علیکم باجی کیسی ہیں…؟‘‘ اس نے کہا۔
’’وعلیکم السلام! الحمدللہ میں ٹھیک ہوں، اور تم بتاؤ کہ تم نے قرآن کی کلاس کی دعوت سب کو دے دی ہے؟‘‘
’’ جی باجی…!‘‘ فزا نے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے تم قریب میں رہنے والے رشتے داروں کو بھی قرآن کی دعوت دے دو۔‘‘ فوزیہ باجی نے کہا۔
’’باجی! کس طرح دعوت دوں؟ کیا کہوں؟ آپ بتائیں۔‘‘
’’تم انہیں کہو: دنیا میں جو بھی ہم جمع کرتے ہیں اُن میں سب سے بہتر چیز قرآن اور قرآن کی ہدایات ہیں۔ ہم دنیاوی اشیا میں سے ایک دوسرے کے لیے جو بھی تحفے خریدتے ہیں وہ سب ختم ہوجاتے ہیں لیکن قرآنی ہدایات کا تحفہ اگر ہمارے طفیل کسی کو ملے تو یہ وہ لازوال تحفہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ وقت کے ساتھ اس کی قیمت میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہے۔‘‘فوزیہ باجی نے سمجھایا۔
’’شکریہ فوزیہ باجی! آپ نے بہت ہی اہم بات بتائی ہے، میں ضرور سب کو دعوت دوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر فزا نے فون بند کردیا۔ اس کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ ’’میں ضرور اس انمول گفٹ کو تقسیم کروں گی اور اُن سب کو بھی دعوت دوں گی جنہیں خواب میں گفٹ دے رہی تھی۔‘‘ فزا نیا عزم باندھ کر مطمئن نظر آنے لگی۔

حصہ