ہم ایسے بے حس کیوں ہوگئے ہیں

282

ذکیہ: لیکن بھائی! میں بیوہ، تین بچے لے کر کہاں جائوں گی؟
احمر: آپا میں آپ کی پریشانی کو سمجھ سکتا ہوں، لیکن آپ سعدیہ کو تو جانتی ہیں، مجھ سے جو کچھ ہوتا ہے میں چھپ کر خاموشی سے آپ کو بھیج دیتا ہوں، کبھی کبھار اُسے معلوم ہوجاتا ہے تو سارا گھر سر پر اٹھا لیتی ہے کہ تم نے آپا اور ان کے بچوں کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ تمام زندگی… خیر آپا! آپ… میرا مطلب ہے یہ مکان سعدیہ کے نام ہے، اب وہ ضد میں آگئی ہے، یہ اپارٹمنٹ فروخت کرنا چاہتی ہے، وہ کچھ ماہ میں کینیڈا سے پاکستان آئے گی، اپنے لیے دوسرا فلیٹ اس نے پسند کرلیا ہے۔ اِس مرتبہ وہیں چھٹیاں گزارے گی، اس لیے آپا آپ اپنے لیے کوئی دو کمروں کا اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیں۔ ہر مہینے رقم کا تھوڑا بہت میں بھی انتظام کردوں گا، پریشان نہ ہوں۔
شہلا: پھر تم نے کہیں کرائے کا گھر دیکھا…؟
ذکیہ: ہاں میری دوست! دو تین دیکھے ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ تین بچوں کی تعلیم، کھانا پینا، پھر گھر کا کرایہ… اتنے سارے خرچے کیسے پورے ہوں گے؟ بھائی بھی بے چارے مجبور ہیں، چھپ چھپ کر کچھ رقم ہر دو تین ماہ بعد بھیج دیتے ہیں، لیکن ان کی بیوی…
شہلا: تم نے بھی ماں باپ کے مرنے کے بعد بڑی قربانیاں دیں۔ دونوں چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش، تعلیم و تربیت… اب انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ذکیہ: ہاں یار! کچھ لوگوں کی قسمت میں یہی لکھا ہوتا ہے۔ شادی کے صرف چھ سات سال بعد شوہر بھی اللہ میاں کے پاس چلے گئے۔ کچھ خود محنت مزدوری وغیرہ کرلیتی ہوں، کچھ بھائی کی مدد تھی۔ اب دیکھو آگے کیا ہوتا ہے۔ صرف میرے رب کا سہارا ہے۔
٭…٭
عارف: اماں اتنا بڑا گھر ہے، دو کمرے خالی پڑے ہوئے ہیں، آپ پلیز بڑا والا کمرہ مجھے دے دیں، اب دونوں بچے بڑے ہوگئے ہیں، اس چھوٹے سے کمرے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے ہمیں…
اماں: اے لو… میری بیٹیاں آتی ہیں، وہ کہاں در بدر ہوں گی! چاروں ہر ہفتے رہنے کے لیے آتی ہیں بچوں کے ساتھ… بیچاری ان دو کمروں میں مشکل سے گزارا کرپاتی ہیں۔
عارف: لیکن اماں میرا بھی تو کچھ خیال کریں (اس نے ترچھی آنکھوں سے باپ کی طرف دیکھا کہ شاید وہ اس کی حمایت میں کچھ بولیں گے)، بے شک یہ کمرہ آپ بہنوں کے لیے رکھیں، لیکن وہ کارنر والا بڑا کمرہ ہمیں دے دیں، ہم گزارا کرلیں گے۔
اماں: نا بابا نا۔ اگر گزارہ نہیں ہورہا ہے تو ہم نے کون سا تمہیں روکا ہے؟ دونوں میاں بیوی اچھا خاصا کما رہے ہو، ایک چھوٹا فلیٹ آسانی سے کرائے پر لے سکتے ہو۔
ماں کی بات پر عارف کو صدمہ پہنچا، آخرکار مجبور ہوکر اُس نے آس پاس ایک چھوٹا فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ وہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، اس عمر میں اماں ابا کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا، لیکن اماں کے حکم و رویّے پر اسے کرائے پر گھر لینا پڑا تھا۔ لیکن ہر ہفتے چھٹی کے دن بچوں اور بیوی کے ساتھ اماں ابا سے ملنے ضرور جاتا۔
اچانک ابا کی موت کا سنا تو فوراً عارف بیوی بچوں کے ساتھ اماں کے پاس پہنچ گیا…
آج ابا کے انتقال کو دس دن ہوچکے تھے۔ ان دس دنوں میں دونوں میاں بیوی اور چاروں بہنیں بھی اماں کی دلجوئی کے لیے ان کے ساتھ تھے۔ عارف کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح واپس اپنے گھر جائے۔ اماں کو اس حالت میں چھوڑنا سراسر خودغرضی تھی۔ آخر اس نے اپنی بیوی سے کہا ”اماں بالکل تنہا ہوگئی ہیں۔ میرے سوا ان کا کوئی سہارا نہیں، اس لیے… میرا مطلب ہے ہمیں کرائے کا گھر چھوڑنا ہوگا، اب اماں کے ساتھ رہنا ہوگا… پہلے کی بات اور تھی… اب انہیں ہمارے سہارے اور دلجوئی کی سخت ضرورت ہے۔“
لیکن اماں کو جب عارف نے اپنے ارادے سے مطلع کیا تو بجائے خوش ہونے کے انہوں نے ناراضی کا اظہار کیا کہ باپ کے مرنے کے بعد تم جائداد ہتھیانا چاہتے ہو! میری بیٹیاں سلامت ہیں، وہ میرا خیال رکھ سکتی ہیں۔ ماں کی بات پر عارف کو سخت حیرانی اور دکھ ہوا کہ اماں اسے غلط سمجھ رہی ہیں، حالانکہ اس نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا۔ مجبوراً وہ واپس اپنے کرائے کے گھر میں آگیا۔
٭…٭
سیرت: شازیہ وہ ہمارے پڑوسی میرا مطلب ہے کہ آپ کے ماموں امریکا سے آئے ہیں۔ کیا ان کی بیوی بھی آئی ہیں؟ نظر تو نہیں آتیں…
شازیہ: معلوم نہیں…
سیرت: کیا مطلب یار! آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے ماموں کے ساتھ اُن کی بیوی آئی ہیں یا نہیں… خیریت تو ہے… اور ہم سب تو ایک ہی محلے میں رہتے ہیں۔
شازیہ (بڑے دکھ سے): ہمیں دوسروں سے معلوم ہوا ہے کہ ماموں ایک ہفتے سے آئے ہوئے ہیں لیکن… خیر چھوڑو اس بات کو…
سیرت کو بڑی حیرانی ہوئی کہ شازیہ کے ماموں ان سے اتنا بے تعلق کیسے ہوگئے! اسے وہ وقت یاد آیا جب سیرت نے جوان مردوں کی طرح سارا دن ماموں کے مکان کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر بغیر آرام کیے وقت لگایا، پھر ماموں کی شادی میں بھی بڑا حصہ سیرت اور اس کی ماں کا تھا۔ ان کے ماموں بھی بہن اور بھانجیوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ کسی بھی مشکل میں سب سے پہلے ماموں ہی آگے بڑھ کر بہن اور بھانجیوں کی مدد کرتے۔ اور اب…
سیرت: شازیہ سب ٹھیک تو ہے نا، تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔ میں تو تمہاری بہنوں کی طرح دوست ہوں…
شازیہ: بس یار! ماموں کی نئی بیوی کو یہ پسند نہیں کہ ماموں ہمارا خیال رکھیں یا مالی مدد سے نوازیں، اسی لیے انہوں نے ماموں کو ہم سے اتنا بدظن کردیا ہے کہ ماموں ہمارا منہ بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ابا کی موت کی تعزیت کرنے بھی نہیں آئے، جس کا اس بڑھاپے میں اماں کو بڑا صدمہ ہوا ہے… اصل میں مکان کا ایک حصہ کرائے پر دیا تھا ماموں نے، اور اس کا کرایہ ہمیں لینے کے لیے کہا تھا۔ مامی شاید اس بات پر ناراض ہوگئی ہیں۔ خیر میرا رب بڑا مسبب الاسباب ہے، مجھے اور ندا کو اسکول میں ملازمت مل گئی ہے، گزارا ہوجاتا ہے، لیکن ماموں اس طرح ہم سے لاتعلق تو نہ ہوتے…
٭…٭
مذکورہ تینوں واقعات میں نے پچھلے چند دنوں کے اندر دیکھے اور سنے، بلکہ اسی قسم کے چند واقعات اخبارات وغیرہ میں پڑھنے کا موقع بھی ملا… کیا دنیا اتنی بے حس ہوگئی ہے؟ کیا خون کے رشتوں سے اس طرح بے تعلق ہوجانا صحیح ہے؟ اس مادہ پرست دنیا میں آئے دن اس قسم کے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں۔ دینِ اسلام ضابطۂ حیات ہے، معاملاتِ زندگی اور حقوق العباد کی تعلیم ہم تک پہنچاتا ہے۔ حقوق اللہ تو معاف کیے جا سکتے ہیں لیکن حقوق العباد میں کوتاہی اللہ رب الکریم کو نامنظور ہے۔ جیسا کہ سورۃ النور میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کا افک کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مسطح جو فقرائے مہاجرین میں سے تھے حضرت ابوبکرؓ اُن کے کفیل تھے، وہ بھی افک کے واقعے میں ملوث ہوگئے، یعنی اماں عائشہؓ کے خلاف مہم میں شریک ہوگئے تو حضرت ابوبکرؓ کو سخت صدمہ پہنچا۔ جب قرآن میں اماں عائشہؓ کی ’’برأت‘‘ کے بارے میں وحی کا نزول ہوا تو حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھائی کہ اب وہ حضرت مسطح کی مدد سے اپنا ہاتھ روک دیں گے۔ لیکن اس بلند مرتبہ ہستی کی اس بات کو بھی رب العالمین نے پسند نہ فرمایا، حالانکہ اس کی وجہ سے سیدنا ابوبکر اور ان کے اہلِ خانہ کو سخت اذیت پہنچی تھی۔ اللہ نے سورۃ النور آیت 22 میں بڑے پیار سے انہیں متنبہ فرمایا کہ”اور تم میں سے بزرگی اور کشائش والے اس بات پر قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیا کریں گے، اور انہیں معاف کرنا اور درگزر کرنا چاہیے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے۔“
اس پیارے پیغام پر سیدنا ابوبکرؓ نے لبیک کہا، اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرکے حسبِ سابق حضرت مسطح کی دوبارہ کفالت شروع کردی۔ میں اس واقعے کو پڑھ رہی تھی تو آج کے مسلمانوں کے رویّے یکے بعد دیگرے سامنے آتے جارہے تھے کہ وہ بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معمولی بات کو پکڑ لیتے ہیں اور سامنے والے کی مدد کرنے سے اپنے ہاتھ روک لیتے ہیں، یا اس سے قطع تعلق ہوجاتے ہیں اور اسے زمانے کے رحم و کرم پر بے آسرا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ سراسر زیادتی ہے، ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کیا کہیں، کبھی کسی موقع پر ہم سے بھی تو کسی کے ساتھ اسی قسم کی زیادتی سرزد نہیں ہوئی؟ کیوں کہ میرا رب اُس پر رحم نہیں فرماتا جو اللہ کے بندوں پر رحم نہیں کرتا۔

حصہ