8 جولائی کو برہانی وانی کی شہادت کے دن پر ، ہیرو آف کشمیر ، برہان مارٹر ڈے، برہان وانی ، ٹوئٹر کے ٹرینڈ لسٹ میں دیکھ کر یقین مانیں بہت خوشی ہوئی۔پوسٹوں میں خاص قسم کاتواتر دیکھ کر معلوم ہو گیا کہ جس تحریک کے جو بھی نوجوان ہیں، اُنہوںنے نہایت ہمت سے پلان کیا ، بہت اچھے انداز سے ہیش ٹیگ کو ٹرینڈ بنایا۔ اس کے ذیل میں صرف برہانی وانی ہی نہیں بلکہ کشمیر کی جدو جہد آزادی کو بھی مکمل سپورٹ کی گئی ، جہادو شہادت کے فلسفہ کو کھل کر تازہ کیا گیا۔اب یہ بات بہر حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ’برہان وانی‘ بھارت تو بھارت امریکہ کے لیے بھی دہشت کی علامت تھا شہید ہوجانے کے باوجود کیونکہ وہ نوجوانوں کے لیے ایک بڑا تحرک تھا۔لوگوں نے کہاکہ ’برہان وانی فرد نہیں ایک نظریہ اور حریت کی سوچ کا نام تھا‘۔قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے یہ ٹوئیٹ بہرحال مجھے پسند آیا۔’حریت کمانڈر برہان وانی شہید کی 5ویں برسی کے موقع پر ان کی کشمیر کی آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ بھارت کے مظالم کے خلاف کشمیر کی آواز بننے والے اس نوجوان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور جلد ہی کشمیری آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔ انشاء اللہ‘۔ اُنکی ٹوئیٹ کو مزید ری ٹوئیٹ کیا گیا۔ 22 سالہ حزب اللہ کمانڈر، برہان وانی، کشمیر کا آزادی پسندہیروتھا، جسے اُس کے دو ساتھیوں کے ساتھ، 8 جولائی، 2016 کو اننت ناگ ضلع میں، فورسز کے ساتھ فائرنگ کے نتیجے میں بھارتی قابض فوج نے شہید کیا ۔مقبوضہ کشمیر میں بھی برسی پر مکمل ہڑتال کی گئی اور یوم مزاحمت منایا گیا۔لوگ اپنے احساسات بیان کرتے رہے کہ ،’اہل وفا ،آج برہان وانی شہید کے یوم شہادت پر انکو خراجِ تحسین پیش کررہے ہیں،مگرایک نسل وہ بھی ہے جو آج بھی برتھڈے برتھڈے کھیل رہی ہے۔‘اسی طرح ایک اور دوست نے ان تمام افراد کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا جنہیں ماضی میں برہان وانی کی تصویر لگانے پر اکاؤنٹ کی بلاکنگ کا سامنا رہاتھا کہ’برہان وانی کی تصویر اپلوڈ کرنے پر میرے فیس بک کے تین اکاؤنٹ بلاک ہوچکے ہیں ، یہ یہود و نصاریٰ ، ایسے شہید مسلمانوں سے اس قدر خوفزدہ کیوںہیں؟جبکہ یہاں لبرل ، ان کے چمچے جو حکومت پاکستان کے وزیر بنے بیٹھے ہیں فیس بک انتظامیہ سے اس بارے میں کوئی بات بھی نہیں کرپاتے!۔‘ایک اور ناقد نے احساس دلایا کہ ،’’ہونا تو یہ چائیے تھا کہ ہم برہان وانی شہید پر ڈاکیومینٹری بناتے اور اپنے بچوں کو دکھاتے۔ انکی ہمت و شجاعت کی داستان اپنے جوانوں کو کو سناتے۔بھارتی مظالم کے آگے ان کی بہادری کی داستان قلمبندکرتے لیکن ہمارے اداکار تو’دھوپ کی دیوار‘جیسی ویب سیریز بناکر پاک بھارت قربت بڑھانے میں لگ گئے۔افسوس ۔‘سلیم صافی نے حکومت پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے اس پر ٹوئیٹ کیا کہ ،’پانچ اگست کے بعد سونامی سرکار نے وعدہ کیا تھا کہ ہر جمعہ کو احتجاج کریں گے۔ آج برہان وانی کی یوم شہادت پر سرکار کی خاموشی سے لگتا ہے کہ کشمیر کو بھلا دیا گیا ہے۔ ویسے بھی کشمیریوں کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوسکتی ہے کہ امور کشمیر کی وزارت علی امین گنڈاپور کو دی گئی ہے۔‘‘ اس پر تحریک انصاف کے کارکنان نے متوجہ کیا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی ٹوئیٹ کر چکے ہیں کہ ’’برہان وانی شہید کی برسی پر تمام پاکستانی قوم انہیں خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ بھارت کو جان لینا چاہئے کہ ریاستی دہشت گردی، ظلم، بربریت اور افواج کے ذریعے ناجائز قبضے سے آزادی کی تحریک کو کچلا نہیں جا سکتا بلکہ اسکے نتیجے میں برہان وانی جیسے مزید بہادر کشمیری سپوتوں کا جنم ہوگا۔‘ اس کے علاوہ سلیم صافی پر یوتھ کے کارکنان کی جانب سے یوں بھی تنقید ہوئی کہ ،’’لفافے کے منہ سے جب بھی نکلی، بدبودار جھاگ ہی نکلی، کشمیر کے گلی کوچوں میں عمران خان کے پوسٹرز آویزاں ہیں، کشمیریوں کو علم ہے عمران خان ہی وہ لیڈر ہے جو کشمیریوں کے ساتھ مخلص ہے۔ ابھی دو دن قبل جوہر ٹاؤن لاہور دھماکے کی تفتیشی رپورٹ میں بھارت کو ننگا کیا گیا۔‘‘
ڈس انفارمیشن کے ضمن میں جمعرات کو علی الصبح کراچی میں مفتی تقی عثمانی کے ساتھ ہونے والا ایک معمولی سا واقعہ ان پر قاتلانہ حملہ کی صورت پیش کیا گیا ، جس پر شام تک ٹرینڈ بن گیا۔کراچی میں نویں دسویں کے امتحانات کا آغاز ہوا ، یقین مانیں جو طلبہ و طالبات ملک گیر احتجاج چارماہ سے مسلسل جاری رکھے ہوئے تھے ان کے تمام خدشات غلط ثابت ہوئے ۔نویں ، دسویں کے تمام پرچے کم از کم کراچی میں تو بری طرح آؤٹ ہوئے ۔ بری طرح آؤٹ مطلب خود سمجھ جائیں۔ نقل کی جو جو خبریں ٹی وی پر چلتی رہیں اور میمز بن کر سوشل میڈیا پر پھیلتی رہیں وہ یہ بات ہی بتا رہی تھیں کہ ٹینشن نہ لو بچو امتحان تو صرف نام کے ہی ہیں بس کاپی کتابیں گھر سے لانا اور چھاپ کر چلے جانا یا سینٹر کے باہر ہی سے قریبی فوٹو اسٹیٹ والے سے پیپر خرید لینا۔طلبہ کی کلاسیں درست انداز سے بے شک نہیں ہو سکی لیکن نقل مافیا، نقل کی اجازت دینا اور اس پورے عمل کی سرپرستی کرنا از خود سوالیہ نشان ہے۔وزیر تعلیم شفقت محمود نے طلبہ کو سمجھایا کہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنانے میں وقت کھپانے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی تعلیم پر توجہ دیں ، ویسے حیرت ہے کہ طلبہ آن لائن سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کلاسز نہ لینے کا بہانہ بھی سارا سارا دن آن لائن آکر ہی کرتے ہیں۔
بھارت کے معروف فلمی اداکار دلیپ کمار کی موت پر سوشل میڈیا پرہونے والاشور بھی بہت خوب رہا ۔ سوشل میڈیا پر بھی اور مجموعی طور پر قومی چینلز پر بھی کوریج دیکھ کر افسوس ہوا کہ اگر اسی طرح کوئی عالم دین دنیا سے رخصت ہو جائے تو کیا ہم اس پر بھی اتنا ہی وقت ، اتنا ہی رنج اور اتنا ہی کوریج وقت نکالتے ہیں۔ اتفاق سے اسی ہفتہ کراچی میں معروف عالم دین مولانا عبد الرزاق کا انتقال ہوا ، لیکن مجال ہے جو کوئی بیلنسڈ کوریج کی کوئی مثال سامنے آئی ہو۔حیران کن طور پر ہم ٹی وی فیشن ایوارڈپر بھی سوشل میڈیا پر سخت رد عمل آیا۔ اس کو بین کرنے ، NotoVulgarityکی بات کی گئی جبکہ یہ فنکشن اس کے علاوہ لکس اسٹائل ایوارڈ تو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ مغرب کی نقالی و اس سے مستعار لیے گئے اس ایوارڈ فنکشن کی تمام تر جزئیات ، عریانی، فحاشی ، لبرل ازم اور سیکولرازم سے گندھی ہوتی ہیں ۔ چونکہ کچھ دن قبل ہی وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے خواتین کے لباس پر ایک جاندار مبنی برحق موقف دہرایا تھا اور اتفاق سے چند دن بعد ہی اس ایونٹ میں کچھ خواتین ایسے عریاں لباس پہن کر آئیں کہ سوشل میڈیا پر تمام طبقات کی جانب سے بھی سخت رد عمل آگیا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ بے لباسی والے لباس وہ ہر سال پہن کر آتی رہی ہین ان ایوارڈ فنکشن میں ، مگر ایوارڈ فنکشن صرف ایوارڈ نہیں بانٹتے وہ بنیادی طور پر ساری انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے لیے ایک تربیت گاہ ہوتے ہیں جو انہیں اگلے سال کے لیے ایوارڈ و شہرت کی دوڑ میں لگا کر حدود و قیود سے پاک ہونے کی جانب مضبوط کرتے ہیں۔ویسے اس حوالے سے قرآنی آیات و احادیث جتنے بڑے پیمانے پر شیئر کی گئیں وہ لوگوں کو اس جانب جھنجھوڑنے کا سبب بنیں۔ لبرل افراد اپنے موقف پر ڈٹے نظر آئے اور مردوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیتے رہے۔انصار عباسی اس بار بھی فحاشی کے خلاف اپنی حق گوئی پر اس طبقہ کی تنقید کا نشانہ بنے ۔
سنگا پور میں سال2020کے جرائم کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہو اکہ 43فیصد جرائم سائبر کرائم تھے ۔سائبر کرائم عالمی معیشت کو 6 ٹریلین ڈالر کے نقصانات پہنچا رہا ہے جبکہ کارپوریٹ فراڈ سالانہ 5 کھرب ڈالر سالانہ پر پہنچ چکا ہے۔ دبئی میں انٹرنل آڈٹ میں بینچ مارکنگ کے بارے میں منعقدہ اندرونی آڈٹ پر سمپوزیم میں یہ اعداد و شمار پیش کیے گئے ۔متحدہ عرب امارات میں سائبر کرائم میں 250فیصد اضافہ ہوا ، یہ سب کورونا کے لاک ڈاؤن کے اندر ہوا۔کرو کیبرطانیہ اور یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ، انسداد فراڈ اسٹڈیز سینٹر کی ایک تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ مالی دھوکہ دہی کی مالی لاگت 5.38 کھرب ڈالر رہی جو کہ عالمی جی ڈی پی کا 6.4 فیصد ہے۔ان سارے فراڈ میں معاونت کرتا ہے ہمارا ڈیٹا ۔اس لیے 2021 میں، یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ڈیٹا کی رازداری اب بھی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے مباحثوں میں سب سے نمایاں موضوع میں سے ایک ہے۔ڈیٹا کی خلاف ورزیوں اور ان الزامات کے درمیان کہ سوشل میڈیا نیٹ ورک دوسری کمپنیوں کو صارف کا ڈیٹا بیچ رہے ہیں۔ لوگوں کو مختلف انداز سے آگہی دی جا رہی ہے کہ اپنا ڈیٹا ، اپنی معلومات سنبھال کر رکھیں کیونکہ کمپنیوں کو اپنی ذاتی معلومات کی تلاش اور اس کا غلط استعمال کتنا آسان ہوسکتا ہے۔سائبر کرائم کی دنیا کھڑی ہی ڈیٹا پر ہے۔ اگر ہم انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں ، اینڈرائڈ فونا ستعمال کرتے ہیں تو جان لیں کہ ہمارے آئی ڈی پاس ورڈ سب کچھ ہمارے قیمتی ترین اثاثے ہیں ۔ ان سے لا پرواہی ہمارے لیے بے شمار اقسام کے مسائل لا سکتی ہے۔کورونا کی وبا کے دوران ذاتی ڈیٹا اور مواد کو آن لائن شیئر کرنے کی مقدار میں نمایاں حد تک اضافہہوا ، صارفین کی تعداد انکا انٹرنیٹ سے جڑے رہنے ،استعمال کرنے کے اوقات ، مصارف سب کچھ بڑھے ہیں۔ آن لائن تجارت یا آن لائن خریداری نے سب سے زیادہ ہمارے ڈیٹا کو رسک پر ڈالا ہے۔دنیابھر میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں اضافہ اور دستیاب مواد کی مقدار میں اشتہار شدہ مواد بھی تیزی سے بڑھا ہے ۔اس وجہ سے، ہمیں توقع کرنی چاہئے کہ سوشل میڈیا نیٹ ورک اپنی سائبر سیکیورٹی کو بڑھا کر اور ایسے اقدامات کریں گے جو صارفین کے نجی ڈیٹا کو تحفظ فراہم کرسکیں۔ اس میں پرائیویسی آٹومیشن کی خصوصیات شامل ہیں جو خود بخود جمع، گروپ اور صارف کو ڈیٹا پیش کریں گی۔لیکن ہوایہ کہ چند ماہ قبل جب یہ افواہ پھیلائی گئی کہ واٹس ایپ اپنے صارفین کا ڈیٹا محفوظ نہیں رکھے گا تو ایک شور مچ گیا لوگ ٹیلی گرام کی جانب رجوع کرنے لگے تا آنکہ واٹس ایپ کو اپنا فیصلہ طاہری طور پر واپس لینا پڑا۔ لیکن یہ تو ظاہری اعلان تھا نا۔ چند ماہ قبل نادرا کے ملازمین کا ایک گرو گرفتار ہوا جو موبائل سم ایکٹیویٹ کرانے کے لیے لوگوں کے انگوٹھوں کے نشان کا ڈیٹا مافیاؤں کو بیچتا تھا۔ کے الیکٹرک کے سسٹم پر سائبر حملہ مشہور ہوا تھا جس نے ڈیٹا اٹھا لیا تھا صارفین کا اور بدلے میں بڑی رقم مانگی۔اس لیے اپنی ڈیٹا پرائیویسی پالیسیوں کو اپ ڈیٹ کرنے سے، کمپنیاں اور سوشل میڈیا نیٹ ورک بھی اپنے مسابقتی فائدہ کے طور پر صارفین کی رازداری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو پوزیشن میں رکھنے کے قابل ہوں گے، کیونکہ صارفین ان پلیٹ فارم کی طرف راغب ہوں گے جنھیں وہ زیادہ قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔ایک کمپنی جس نے حال ہی میں اپنی رازداری کی پالیسی کو اپ ڈیٹ کیا ہے وہ ایپل ہے، جس میں اس کی ایپ ٹریکنگ ٹرانسپیرنسی متعارف کروائی گئی ہے، جو آئی او ایس صارفین سے اپنے ڈیٹا کو تیسرے فریق، جیسے فیس بک کے ساتھ شیئر کرنے سے پہلے اجازت طلب کرتی ہے۔گوگل نے اسی طرح کی ایپ سے باخبر رہنے کی پالیسی کی ترقی پر غور کرتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ صارف کے ڈیٹا کے کنٹرول کو کمپنیوں سے صارفین میں واپس منتقل کرنے کا رجحان باضابطہ طور پر حاصل کرلیا ہے۔