سفید پوش

157

کراچی کی گرمی بھی بیروزگاری کی طرح سال بہ سال بڑھتی جارہی ہے۔ پھر کورونا جیسی وبا بھی انسانی رویوں کی طرح اُتار چڑھائو کا تماشا دکھلا رہی تھی۔ بلا ہے کہ ٹل ہی نہیں رہی تھی۔ ہمارے کتنے ہی پیاروں کو نگل گئی۔ لاک ڈائون نے بھی کاروباری سرگرمیوں پر برف کی سلیں رکھ چھوڑی ہیں جو باوجود شدید گرمی کے پگھل ہی نہیں رہی۔ دراصل سلطان ایک سفید پوش آدمی تھا جو کہ گھر سے ہی عمارتی مٹیریل کی سپلائی کا کاروبار کرتا تھا۔ پچھلے چار ماہ سے بیکار تھا اور جو کچھ بھی جیب میں تھا وہ سب خرچ کرچکا۔ بجلی گیس کے بل بھی پچھلے دو ماہ کے واجب الادا تھے۔ گویا بنیادی ضرورتوں نے گھر کی بنیادیں ہلادیں تھیں۔ سفید پوش لوگوں کی ڈھونڈ ڈھونڈ کر مدد کیجیے۔ بس اسی جملہ کی گردان اور بازگشت اپنے پڑوسیوں، عزیزواقارب اور سوشل میڈیا سے سنائی دے رہی تھی۔ سلطان اور اس کی بیوی یہی سوچتے رہتے تھے کہ یہ سفید پوش لوگ کون ہوتے ہیں۔ ان کی پہچان کیا ہوتی ہے اور کیا ہم سفید پوش نہیں؟ اور سلطان کے خاندان والوں کا ملنا تو درکنار فون کرکے بھی خیریت پوچھنا گوارہ نہ تھا۔ سلطان اور اس کی بیوی سوچتے تھے کہ کس طرح لوگوں کو اپنی سفید پوشی کا بتایا جائے۔ فلاحی ادارے راشن کی بوریاں پتا نہیں کن لوگوں کو ڈھو کر بے حال ہوئے جارہے تھے۔
معاشرے کی بے حسی پر اس وقت زیادہ افسوس ہوا جب لوگ سلطان سے غریبوں اور سفید پوش لوگوں کی مدد کے لیے چندہ مانگنے آتے۔ تو خدا خدا کرکے سلطان کو ایک سپلائی کا آرڈر ملا تو سب سے پہلے بیگم سجدے میں گر گئی کہ اے اللہ تو ہی دلوں کے بھید جانتا ہے۔ خوشی و گھبراہٹ میں بغیر چینی کے چائے پی اور صبح ہی نکل کھڑا ہوا۔ سلطان نے 12 بجے تک مال کا بندوبست کیا تو گرمی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ بہرحال اللہ کا نام لے کر سلطان نے پرانی جان پہچان والے ہول سیلر سے مال بھاڑے کی گاڑی میں لوڈ کروایا اور خود کو موٹر سائیکل پر گرم اور خشک لو کے تھپیڑے کھانے پر راضی کیا۔ تقریباً دس گیارہ کلو میٹر کا سفر تھا اور دل میں یہ خوف بھی کہ کلائنٹ کو مال پسند آجائے۔ گرمی کی وجہ سے سڑکوں پر اتنا رش نہ تھا۔ احساس کمتری اور محرومی کے مارے ہوئے بیروزگار آدمی کے پاس سوائے اللہ کی یاد کے اور کیا ہوسکتا تھا۔ جو انیس بیس سورتیں یاد تھیں سب آگے پیچھے کرکے پڑھ ڈالیں۔ ٹینشن یہ کہ بس پیسے مل جائیں۔ نہ روڈ سینس کا پتا اور نہ ٹریفک سینس کا۔ گاڑیوں کے بے تکے ہارن مزید بوکھلائے دے رہے تھے اور لوگوں کی ذرہ نوازی کہ تمیز کے دائرے میں گالیوں کی صدائیں بھی کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔
بہرحال سلطان کلائنٹ کے بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچا تو کلائنٹ باہر ہی پیپل کے سایہ دار درخت کے نیچے محفل سجائے کھڑا تھا۔ اس نے دور سے ہی سلطان کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا تو سلطان کو وہ بہت چھوٹا آدمی لگا۔ البتہ کپڑوں سے سیٹھ دکھائی دیا لیکن شکل سے مڈل کلاس اور بات چیت میں نامناسب لگا۔ سلطان کا مال چیک ہوا تو سلطان تیزی سے تسبیح پڑھنے لگا۔ پھر کلائنٹ نے اندر آفس میں آنے کا کہا۔ ’’مال تو ٹھیک ہے بھائی تمہارا‘‘۔ اس کا یہ تصدیق جملہ سلطان کو آسمان سے اترتا دکھائی دیا۔ ’’جی جی سر میری کوشش ہوتی ہے کہ ایک نمبر کام کروں‘‘۔ سر آفس تو بہت شاندار ہے آپ کا۔ ہاں بھیا ہم بھی کام ایک نمبر کرتے ہیں۔ کلائنٹ نے چپراسی کو ہدایت دی کہ اکائونٹنٹ سے کہو کہ ان کا وائوچر بنا کر ان سے سائن لے کر پیمنٹ کلیئر کردے۔ سلطان کو اکائونٹنٹ صاحب نے جو کہ باریش آدمی تھے اندر بلا کر مژدہ سنایا کہ آپ بیٹھیں میں نماز پڑھ کر آپ کو پیمنٹ کرتا ہوں۔ ایسی خود سری پر خون کھول اُٹھا۔سر جی… وہ میں دراصل بہت دور گرمی میں تپتا ہوا آیا ہوں تو مہربانی ہوگی کہ مجھے ابھی پیمنٹ کردیتے تو میں بھی نماز کے لیے آپ کے ساتھ چلتا۔ خیر پیمنٹ ہوگئی۔سلطان نے کانپتے ہاتھوں سے تین بار نوٹ گنے اور گھر کی راہ لی۔ ارے جب جیب گرم ہوئی تو ہوائیں ٹھنڈی چلنے لگیں۔ موسم بھی سلطان سے اٹھکلیاں کرنے لگا۔
راستے میں سلطان ایک بیکری پر رکا۔ ناشتہ لیا اور فخریہ انداز میں پانچ ہزار کا نوٹ کائونٹر پر دیا اور بڑی بے اعتنائی سے بقیہ پیسے جیب میں رکھے اور پھر ایک ریسٹورنٹ سے کھانا لیا پیسے دینے لگا تو سلطان کے ہوش اڑ گئے کہ ایک ہزار کا نوٹ کم تھا سوچا کہیں راستے میں گر گیا۔
نہی نہی یقینا بیکری والے نے کم دیے ہیں۔
بائیک کو کک ماری تو نیا عذاب کہ ایک بڑی سی گاڑی (جس کی قیمت میرے گھر کے جتنی ہوگی) نے غلط پارکنگ کرکے نکلنے کا راستہ بند کردیا۔ پیچھے گارڈز کو دیکھا تو ایسے بھرم کے خدا کی پناہ۔
کچھ کہنا بے سود تھا۔
چارونا چار دوسری موٹر سائیکلوں کو ہٹا کر سلطان سیدھا بیکری کے کائونٹر پر پہنچا تو بیکری والے نے درشت لہجے میں انکار کیا۔ بہرحال تھوڑی سی منہ ماری کرکے گھر کی راہ لی۔
سلطان پیچ و تاب کھاتا ہوا بیکری سے باہر آیا تو باہر کھڑے بھکاری کو اپنے جیسا پایا۔ ہاں ہاں تمہارے لیے ہی تو کماتا ہوں ہٹو آگے سے۔ ظاہر سی بات ہے بھکاری کمزور لوگ تھے ان پر تو سلطان کا زور چل سکتا تھا۔ سلطان نے گھر کا دروازہ کھولا تو زمین پر کوئی بل پڑا تھا ۔ بل دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اور پھر لائٹ کٹ گئی۔

حصہ