سود (قسط40)

اعتقادی قانون:
اعتقادی قانون کے لحاظ سے دنیا دو ملتوں پر منقسم ہے۔ اسلام اور کفر۔ تمام مسلمان ایک قوم ہیں اور تمام کفار دوسری قوم۔اسلام کو ماننے والے سب کے سب اسلامی قوامیت کے افراد ہیں اور اخوت دینی کی بنا پر سب کوایک دوسرے پر حقوق حاصل ہیں۔ ’’مسلمان کی جان‘ اس کا مال‘ اس کی عزت ہر چیز مسلمان کے لیے حرام ہے۔‘‘ (حجۃ الوداع) اسلام کے جملہ احکام کی اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں بستا ہو جو کچھ فرض کیا گیا ہے وہ سب کے لیے فرض ہے‘ جو کچھ حلال کیا گیا ہے سب کے لیے حلال ہے‘ اور جو کچھ حرام ٹھہرایا گیا سب کے لیے حرام ہے کیوں کہ جملہ احکام کے مخاطب الذین امنوا ہیں‘ کسی حال اور مقام کی قید اس کے ساتھ نہیںہے‘ اس کی مقابلے میں کفر ایک دوسری ملت ہے جس سے ہمارا اختلاف اصول اور اعتقاد اور قومیت کا ہے۔ اس اختلاف کی بنا پر اصلاً ہمارے اور ان کے درمیان جنگ قائم ہے‘ الا یہ کہ اس پر صلح یا معاہدہ یا ذمہ کی کوئی حالت عارض ہو جائے۔ پس اسلام اور کفر اور مسلم اور کافر کے درمیان صلح اصل نہیں بلکہ جنگ اصل ہے اور صلح اس پر عارض ہوتی ہے‘ مگر یہ جنگ بالفعل نہیں بالقوہ ہے‘ عملی نہیں نظری اور اصولی ہے اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ جب تک ہماری اور ان کی قومیت الگ ہے اور ہمارے اور ان کے اصول ایک دوسرے سے متصادم ہیں‘ ہم میں اور ان میں حقیقی و دائمی صلاح اور دوستی نہیں ہوسکتی۔
اس مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر حدیث میں، تمام و کمال بیان فرما دیا ہے۔ ’’مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کا بندہ اور رسول ہے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کریں اور ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں جب وہ ایسا کریں گے تو ہمارے اوپر ان کے خون اور ان کے اموال حرام ہو جائیںگے اس کی کہ کسی حق کے بدلے میں ان کو لیا جائے۔ ان کے حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوںکے ہیں اور ان پر فرائض وہی عائد ہوں گے جو مسلمانوں پر ہیں۔ (ابودائود بابعلی مایقاتل المشرکین)
اس اعتقادی قانون کی رو سے اسلام اور کفر کے درمیان ابدی جنگ ہی‘ مگر یہ جنگ محض نظری ہے‘ ہر کافر حربی ہے مگر اس معنی میں کہ جب تک ہماری اوراس کی قومیت الگ ہے ہمارے اور اس کے درمیان بنائے نزاع قائم ہے۔ ہر دارالکفر ہے محلِ حرب ہے یا بالفاظِ دیگر حربیت کا کلی ارتقاع صرف اختلافِ قومیت ہی کے مٹ جانے سے ہو سکتا ہے۔ اس قانون نے محض ایک نظریہ اور قاعدۂ اصلیہ واضح طور پر مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا ہے جس پر ان کی حکمتِ عملی کی بنا قائم ہے۔ باقی رہے حقوق و واجبات اور جنگ و صلح کے عملی مسائل تو ان کا اس قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دستوری اور بین الاقوامی قانون سے تعلق رکھتے ہیں۔
دستوری قانون:
دستوری قانون کی رُو سے اسلام دنیا کو حصوں پر تقسیم کرتا ہے‘ ایک دارالاسلام‘ دوسرے دارالکفر۔ دارالاسلام وہ علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو اور اس حکومت میں اسلامی قانون بالفعل نافذ ہو‘ یا حکمرانوں میں اتنی قوت ہو کہ اس قانون کو نافذ کرسکیں۔ اس کے مقابلے میں جہاں مسلمانوں کی حکومت نہیں اور اسلامی قانون نافذ نہیں وہ دارالکفر ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے تمام وہ ممالک جن میں انگریزی حکومت ہے انگریزی علاقہ کہلائیں گے اور جو علاقے ان حدود سے باہر ہوں گے ان کو علاقۂ غیر کہا جائے گا۔ اسلامی حکومت اسلام کے احکام کو صرف ان لوگوں پر نافذ کرسکتی ہے جو اس کی اپنی حدودِ عمل میں رہتے ہوں۔ اسی طرح وہ صرف انہی اموال اور اعراض اور نفوس کی حفاظت کر سکتی ہے جو اس کے اپنے حدودِ اختیار یا علاقۂ مقبوضہ میں واقع ہوں۔ ان حدود کے باہر کسی چیز کی حفاظت کی وہ ذمہ دار نہیں ہے۔
اس قانون کے لحاظ سے ہر وہ جان اور مال اور عزت ’’معصوم‘‘ ہے جو دارالاسلام مین اسلامی حکومت کی حفاظت کے اندر واقع ہو ‘ عام اس سے کہ وہ مسلمان کی ہو یا کفر کی اور ہر وہ جان اور مال اور عزت ’’غیر معصوم‘‘ ہے جو دارالکفر میں ہو اور جس کی محافظ اسلامی حکومت نہ ہو‘خواں اس سے کہ وہ مسلمان کی ہو یا کافر کی غیر معصوم ہونے کا مال صرف اس قدر ہے کہ اگر اس کی جان و مال یا عزت پر کسی کا حملہ کیا جائے تو اسلامی حکومت اس پر کوئی مواخذ نہ کرے گی کیوں کہ یہ فعل اس کی حدودِ عمل سے باہر واقع ہوا ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ خدا کے نزدیک وہ فعل گناہ ہو یا نہ ہو اور خدا کے ہاں اس پر مواخذہ ہو یا نہ ہو۔ پس کسی چیز کا غیر معصوم ہونا اس امر کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ مباح بھی ہے‘ نہ اس کی عدم عصمت کو اس معنی میں لیا جاسکتا ہے کہ اسے نقصان پہنچانا یا اس پر قبضہ کر لینا عنداللہ بھی جائز اور حلال ہے۔ اسی طرح دستوری قانون کے نقطۂ نظر سے اگر کسی ایسے فعل کو جائز ٹھہرایا ہوگا کہ اسلامی حکومت کو اس سے کوئی تعرض نہیں‘ وہ اس پر کوئی سزانہیں دے گی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس فعلِ حرام پر خدا کے ہاں بھی کوئی گرفت نہ ہوگی۔
یہاں اعتقادی قانون اور دستوری قانون کے حدود الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ اعتقادی قانون جس مسلمان کو بھائی کہتا ہے اور جس کی جان و مال کو حرام ٹھہراتا ہے وہ دستوری قانون کی نگاہ میں غیر معصوم ہے‘ اس لیے کہ وہ سلطنت اسلامی کے حدودِ اختیار سے باہر رہتا ہے اور جس کافر کو اعتقادی قانون دشمن قرار دیتا ہے دستوری قانون اسے معصوم ٹھہراتا ہے صرف اس بنا پر کہ وہ اسلامی سلطنت کی حفاظت میں آگیا ہے۔ جس فعل کو اعتقادی قانون سخت گناہ اور جرم ٹھہراتا ہے‘ دستوری قانون اس پر کوئی گرفت نہیں کرتا کیوں کہ وہ اس کے حدودِ عمل سے باہر ہوا ہے۔ دونوں میںکھلا ہوا فرق یہ ہے کہ اعتقادی قانون کا تعلق آخرت سے ہے اور دستوری قانون کا تعلق صرف دنیا اوراس کے معاملات سے‘ لیکن امام ابو حنیفہؒ کے سوا تمام فقہا نے کم و بیش ان دونوں میں غلط ملط کیا ہے اور وہ ان کے حدود میں پوری طرح تمیزنہیں کرسکے ہیں۔
چند مثالوں سے ہم اس پیچیدہ مسئلے کی توضیح کریں گے۔
-1 فرض کیجیے کہ ایک مسلمان تاجر امان لے کر دارالحرب میں جاتا ہے اور وہاں سے کچھ مال چرا لاتا ہے۔ یہ فعل اعتقادی قانون اور بین الااقوامی قانون کی رو سے حرام ہے کیوں کہ اس شخص نے عہد شکنی کی ہے۔ لیکن دستوری قانون اس شخص کو اسی مال کا جائز مالک قرار دیتا ہے اور اس سے کوئی باز پرس نہیں کرتا۔ (ہدایہ باب المستامن)
-2 فرض کیجیے کہ دارالاسلام کی رعایا کا ایک شخص دارالحرب میں قید تھا۔ وہ وہاں قید سے چھوٹ گیا یا چھوڑ دیا گیا۔ اب وہ وہاں خواہ چوری کرے‘ شراب پیئے‘ زنا کرے‘ سب کچھ دستوری قانون کی رو سے ناقابلِ مواخذہ ہے (بحرالرائق ج5 :ص 107) یعنی اسلامی حکومت اس پر نہ اس کا ہاتھ کاٹے گی نہ حدود زنا و شراب جاری کریگی نہ قصاص لے گی۔ مگر اعتقادی قانون کی رُو سے وہ خدا کے ہاں گناہ گاہ ہوگا۔
فرض کیجیے کہ ایک شخص دارالحرب میں مسلمان ہوااو ر وہاں سے ہجرت کرکے دارالاسلام میں نہیں آیا۔ اعتقادی قانون کی رو سے وہ مسلمان کا بھائی ہو چکا ہے‘ اس کا خون اور مال حرام ہو چکا ہے۔ مگر دستوری قانون کی رو سے وہ چونکہ اسلامی سلطنت کے حدود و عمل سے باہر ہے اس لیے اس کی کوئی چیز معصوم نہیں۔ اس کی حیثیت وہی ہوگی جو دشمن سلطنت کی رعایا کی ہے۔ اگر کوئی مسلمان دارالاسلام کے حدود سے باہر اس کو قتل کر دے تو اسلامی عدالت نہ اس پر قصاص لے گی نہ خون بہا دلوائے گی۔ بطور خود وہ کفارہ ادا کر سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان اس سے سود لے یا اس کے مال پر کسی دوسرے ناجائز طریقہ سے قبضہ کر لے تو دستوری قانون کی رو سے یہ ناقابل گرفت ہے کیوں کہ اس کا مال غیر معصوم ہے۔ اس باب میں فہق کی تصریحات نہایت معنی خیز ہیں۔
’’اگر اہلِ حرب میں سے کوئی شخص مسلمان ہو چکا ہو اور قابل اس کے کہ وہ ہجرت کرکے دارالالاسلام میں آئے‘ کسی مسلمان نے اسے بلا ارادہ قتل کردیا تو اس پر کفارہ ہے مگر خوں بہا واجب نہیں۔ اور ابو حنیفہؒ سے املا میں یہ مسئلہ منقول ہے کہ اس پر کفارہ بھی نہیں ہے کیوں کہ کفارہ کا وجوب خون کے باقیمت ہو جانے کے اعتبار سے ہے نہ کہ حرمتِ قتل کے اعتبار سے… اور خون صرف اس وقت باقیمت ہوتاہے جب کہ وہ دارالاسلام کی حفاظت میں آچکا ہو۔‘‘
(شرح السیر الکبیر مطبوعہ دائرۃ المعارف۔ ج۔1‘ ص:88)
’’اور جب ہماری پچھلی تقریر سے یہ ثابت ہوگیا کہ جو شخص مسلمان ہو کر ہجرت نہ کرے اور دارالحرب میں مقیم رہے اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔ تو اسی بنا پر ہمارے اصحاب و حنفیہ نے ایسے مسلمانوں کی حیثیت حربی ہی کی قرار دی ہے یعنی اس کے مال کو تلف کرنے والے پر کوی ضمان نہیں۔ اس حیثیت سے اس کا مال گویا حربی کا مال ہے اور اس بنا پر ابو حنیفہؒ نے اس کے ساتھ بھی اسی طرح خریدوفروخت کرنا جائز ٹھہرایا ہے جس طرح حربی کے ساتھ جائز ہے یعنی دارالحرب میں ایک درہم وک دو رہم کے عوض بیچنا۔‘‘ (احکام القرآن‘ الحنفی‘ ج:2 ‘ ص: 297)
حسن بن صالح کا قول ہے کہ جب دارالحرب کا ایک باشندہ مسلمان ہونے کے بعد دارالحرب ہی میں رہا‘ درآنحالیکہ وہ جرت کی قدرت رکھتا تھا تو اس کی حیثیت مسلمان کی نہیں۔ اس کی جان و مال کا وہی حکم ہے جو اہلِ حرب کی جان و مال کا ہے۔‘‘ (احکام القرآن)
’’جب کوئی حربی دارالحرب میں مسلمان ہو چکا ہو اور کوئی مسلمان اسے عمداً یا خطاً قتل کردے اور اس کے مسلمان ورثا بھی دارالحرب میں موجود ہوںتو اس پر کوئی قصاص یا دیت نہیں ہے۔ خطا کی صورت میں محض کفارہ ادا کر دے۔‘‘ (ہدایہ کتاب السیر)
اورجو شخص دارالحرب میں مسلمان ہو اور ہجرت نہ کرے اس کی حیثیت ابو حنیفہؒ کے نزدیک حربی کی ہے کیوں کہ ا سں کا مال ان کی رائے میں غیر مصوم ہے۔‘‘(بحرالرائق ج:5‘ ص: 147)
-4 فرض کرو کہ ایک مسلمان امان لے لر دارالحرب میں گیا اور وہاں اس نے کسی حربی سے قرض لیا یا اس کا مال غصب کر لیا۔ پھر وہ دارالاسلام واپس آگیا اور وہ حربی بھی دارالاسلام میں امان لے کر آیا‘ یہاںوہ حربی مستامن اس قرض یا اس مال مغصوبہ کے لیے دارالاسلام کی عدالت میں دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اسلامی عدالت اس کو ایک پیسہ واپس نہ دلائے گی۔ اسی طرح اگر دارالحرب میں حربی نے مسلمان کا قرض مار لیا ہو‘ اس کا غصب کر لیا ہو‘ پھر وہ حربی امان لے کر دارالاسلام میں آئے تب بھی اسلامی عدالت اس حربی کے خلاف اس مسلمان کی کوئی دادرسی نہ کرے۔ (الجامع الصغیر لامام محمد علی ہامش کتاب الخراج الام ابی یوسف ص 75)

حصہ