دنیا میں ہر شخص خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا جوان، خواندہ ہو یا ناخواندہ، امیر ہو یا غریب… اپنی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ کامیابی کے حصول کے لیے ہر ایک نے اپنے اہداف مقرر کررکھے ہیں، جن کے حصول کے لیے وہ عمر بھر تگ و دو میں لگا رہتا ہے، اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جائز و ناجائز ہر قسم کی تفریق بھلا بیٹھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کامیابی کا وہ معیار ہے کیا، جس پر پہنچ کر انسان کو سکون میسر ہوتا ہے؟ ماحول کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کے نزدیک کامیابی کا معیار مختلف ہے۔ کسی کے لیے مال و دولت کا حصول کامیابی ہے، کسی کے لیے بڑا عہدہ، منصب اور شان و شوکت، کسی کے لیے ڈگری کا حصول، بیرونِ ملک کا ویزا اور نوکری مل جانا، کسی کے لیے عالی شان گھر بنا لینا، اور کسی کے لیے اپنی محبت کو پا لینا کامیابی ہے۔
آج کے دور میں کسی مرد کو اچھا روزگار مل جائے، کاروبار سیٹ ہوجائے، مالی آسودگی حاصل ہو، خوب صورت بیوی اور اولاد کی نعمت سے اللہ نواز دے، تو وہ ہمارے معاشرے کے لحاظ سے کامیاب ہوگیا۔ اسی طرح جس عورت کو اچھا دولت مند خاوند اور سسرال مل جائے، اولاد اور وہ بھی نرینہ ہو تو وہ بھی اپنے تئیں خود کو کامیاب سمجھتی ہے۔ لیکن جب بغور مشاہدہ کریں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ جس چیز کو بندہ کامیابی سمجھتا ہے اور اپنی ساری جدوجہد اسے حاصل کرنے میں لگا دیتا ہے، اس کے حاصل ہوجانے کے بعد بھی اس کے کھو جانے کے ڈر سے وہ سکون میں نہیں رہتا۔ گویا انسانوں نے کامیابی کے جو خودساختہ معیار بنا رکھے ہیں وہ کامیابی نہیں۔
تو پھر آخر کامیابی ہے کیا؟ کامیاب انسان ہے کون؟ ہمارے رب نے قرآن پاک میں واضح فرما دیا کہ کامیاب کون ہے: ’’بے شک اُس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کرلیا‘‘( سورۃ الاعلیٰ۔ 87 : 14)۔ جس نے تزکیۂ نفس کرلیا، وہ پاک ہوگیا۔ اب یہ تزکیۂ نفس ہے کیا؟ تزکیۂ نفس کہتے ہیں نفسِ انسانی میں موجود شر کے غلبے کو دور کرنا، اور ہر طرح کے گناہوں کی آلودگیوں، آلائشوں اور اخلاقِ رذیلہ سے دل کو ستھرا کرنا۔ دل کی گندگی ہے کیا اور دور کیسے ہوگی؟ سائنس نے آج اتنی ترقی کرلی لیکن کوئی ایسا آلہ ایجاد نہ ہوسکا جو روحانی بیماریوں کو جانچ سکے اور ان کی صفائی کرسکے۔ باطن کی تمام گندگیوں کو دور کرسکے۔ ظاہری بیماریوں کا تو ہم میں سے ہر ایک کو احساس ہوتا ہے، اور ہم ان کے لیے معالج سے رجوع بھی کرتے ہیں، لیکن آخر یہ روحانی بیماریوں کا احساس کیسے ہو؟
منافقت و نفاق، کینہ کپٹ، بغض و حسد، طمع و لالچ، نفسانی شہوانی خواہشات جیسی مہلک بیماریوں کو دل سے دور کیسے کیا جائے؟ اس کام کے لیے ہمیں اہلِ نظر کو تلاش کرنا ہوگا۔ اللہ والوں کی صحبت میں رہنا ہوگا۔ قرآن بھی رہنمائی کے لیے موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ سے وابستہ رہنا بھی ذریعۂ نجات ہے۔ لیکن تزکیۂ نفس کے لیے اہلِ اللہ کا دامن تھامنا بے حد ضروری ہے۔
اللہ والوں سے تعلق رکھنے کی اہمیت اس مثال سے سمجھ لیجیے: آپ ایک برتن میں پانی اور صابن لے کر چوبیس گھنٹے بھی کپڑا ڈالے رہیں تو کیا وہ خود بہ خود صاف ہوجائے گا؟ یقینا نہیں۔ جب کہ صابن بھی کپڑے کو صاف کرتا ہے اور پانی بھی، تو پھر کپڑا صاف کیوں نہیں ہوا؟ اس لیے کہ ایک ہاتھ چاہیے جو اس کو رگڑے، نچوڑے، کپڑے کو گندے پانی سے نکالے، صاف پانی میں غوطہ دے، تب کہیں جاکر کپڑا صاف ہوگا۔ جو اللہ والے ہوتے ہیں، وہ بھی ایسے ہی قلوب سے میل کچیل دور کردیتے ہیں۔ دل کا تزکیہ کرنا ہے، اسے ستھرا کرنا ہے، سنوارنا ہے تو اللہ والوں سے تعلق بنانا پڑے گا، تب کہیں جاکر باطن کی گندگی دور ہوگی اور تزکیۂ نفس حاصل ہوگا۔ اللہ والوں سے تعلق قائم کیے بغیر اصلاح ناممکن تو نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
آج کے دور میں تو جو تابع شریعت ہوں اور سنت کی پیروی کرنے والے ہوں، جن کی صحبت سے اللہ کی محبت پیدا ہوجائے، آخرت کی فکر اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہو، اعمال و اخلاق درست ہونے لگیں، لوگوں سے معاملات بہتر ہوجائیں… بس جان لیں وہی اللہ والے ہیں۔ ہم جیسے ناقص اور گناہ گاروں کے لیے ان کی صحبت اور نظرکرم فائدے سے خالی نہیں۔ بس ان کے دامن سے وابستہ ہوکر نفس کا تزکیہ کرلیجیے۔ بلاشبہ کامیابی اور فلاح کا دارومدار تزکیۂ نفس پر ہے۔ دل پاک صاف ہوگیا تو اُخروی نعمتیں بھی استقبال کریں گی اور دنیا میں بھی سکون و اطمینان حاصل ہوگا۔ اپنے قول و فعل کا جائزہ لیں اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو سنوارنے کی بھی کوشش کریں۔ جو شخص ایمان کی سلامتی کے ساتھ قبر میں پہنچ گیا بس وہی کامیاب ہے۔