’’علم و ادب سوسائٹی‘‘ طالبات کی ایک ادبی تنظیم ہے، اس کے تحت گزشتہ دنوں ایک نشست منعقد کی گئی، جس کا عنوان تھا ’’آئیے دنیا کو لکھاری کی نظر سے دیکھیں‘‘۔ کورونا کے سبب یہ نشست آن لائن رکھی گئی تھی۔ میزبان علم و ادب سوسائٹی کی نگراں ماہین خان تھیں۔ علم و ادب کی مرکزی نگراں شفا ہما نے بھی شرکت کی۔ معروف شاعرہ و قلم کار ڈاکٹر عزیزہ انجم کوگفتگو کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر صاحبہ نے ابتدا کرتے ہوئے کہا کہ لکھاری کی نظر وسیع ہوتی ہے۔ لکھاری مضمون نگار ہو، شاعر یا انشائیہ نگار… وہ ایک نئے زاویے سے نہ صرف دنیا کو دیکھتا ہے بلکہ ان پہلوؤں پر بھی نگاہ رکھتا ہے جو نظر نہیں آتے۔ لکھاری مظاہرِ فطرت اور سفر کے احوال سے ایک نیا خیال ڈھونڈ کر لاتا ہے، یہی اصل لکھاری کی پہچان ہے۔ وہ جو سوچتا ہے ایک عام آدمی نہیں سوچ سکتا۔ خاص طور سے اُس وقت جب دنیا حالتِ جنگ میں ہے۔ افکار و نظریات کی جنگ، اخلاقیات کی جنگ، حیا کی جنگ، حق و باطل کی جنگ اور ریاست اور سیاست کی جنگ… تو قلم کار کو اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا ہے کہ آج حق اور ناحق کی جنگیں قلم اور کیمرے کی آنکھ سے لڑی جارہی ہیں۔
سوشل میڈیا کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی رائے یا اپنا نظریہ شیئر کرتا ہے، تو پھر تبصروں کے ساتھ ایک معرکہ برپا ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں سچ اور حق لکھنا اہم ہے، لہٰذا کیوں نا بحیثیت قلم کار ہم اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔
شرکا شش و پنج میں تھے کہ وہ آخر کب اور کیا لکھیں؟ اس موقع پر محترمہ عزیزہ انجم نے اس بات کا صاف اور واضح جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہر انسان اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار چاہتا ہے اور اس کے لیے قلم اٹھاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا تھا کہ آمد کے وقت لکھیں، جس وقت ذہن میں آئے لکھ لیں، اور عنوانات کے تحت لکھیں۔
انہوں نے نشست میں نوآموز لکھاریوں کو مشورہ دیا اور کہا کہ ڈائری لکھنے سے آغاز کرنا بہت معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ نئے لکھنے والے درجہ بہ درجہ آگے بڑھیں۔ ڈائری کے بعد پوسٹ اور پھر بلاگز لکھیں، جو مزاح لکھ سکتے ہیں وہ مزاح لکھیں۔ لکھتے رہنے سے ہی بہتری آتی ہے، روانی اور ترتیب سمجھ میں آتی ہے۔ یوں آہستہ آہستہ سنگِ میل طے ہوتے ہیں۔
اس موقع پر میزبان محترمہ ماہین خان نے سوال کیا کہ لکھا کیسے جائے؟ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا تھا کہ پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کن جہتوں میں لکھ سکتے ہیں؟ اس کے لیے مختلف ورکشاپ اور کتابوں سے بھی رہنمائی لی جاسکتی ہے۔
اب سوال یہ درپیش تھا کہ آخر کیا نہ لکھیں؟
اس پر ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے تجربے کی روشنی میں کچھ اصول بڑی خوبی سے بیان کیے۔ ان کے مطابق غیر متعلقہ موضوع، حد سے زیادہ مبالغہ آرائی تحریر کو نہ صرف بوجھل بلکہ غیر دلچسپ بھی بنادیتے ہیں۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر عزیزہ انجم نے سہل انداز میں لکھنے اور فی زمانہ رائج بات چیت کے طور طریقوں کو اپنی تحریر کا حصہ بنانے پر زور دیا۔ بلاگ سے شاعری تک ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔ تحریر کا آغاز کرنے کے بارے میں بتایا۔ تحریر کی جن خصوصیات کو پیش نظر رکھنا چاہیے، ان پر بات کی، بلکہ یہ بھی بتایا کہ کسی کی تحریر اور فن اہم ہوتا ہے، شخصیت اہم نہیں ہوتی۔ ایک عرصے سے یہ رجحان چلا آرہا ہے کہ مختلف نظریات یا کسی بھی قابلِ اعتراض نکتے کی موجودگی کی وجہ سے ہم بہت سے بڑے سخن وروں کا انکار کرتے آئے ہیں جو کہ سیکھنے والوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ مطالعہ اچھی تحریر کے لیے لازم ہے، یعنی قلم کار کا کتاب سے رشتہ مضبوط ہونا ضروری ہے۔
شاعری کے حوالے سے اپنے تجربے کی روشنی میں اُن کا کہنا تھا کہ شاعری آمد کے ساتھ جڑی ہے، اس میں جبراً مشقت درکار نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ اچھا تخلیق کار ہمیشہ اصلاح کے لیے سرگرداں رہتا ہے اور تنقید بہ خوشی قبول کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ کی گفتگو نے ایک سماں باندھ دیا تھا کہ وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔ ’’کن شعرا کو پڑھا جائے؟‘‘ شرکا کی جانب سے اس سوال پر انہوں نے کہا کہ پرانے شعرا کو پڑھنا چاہیے، گو کہ ان کی شاعری آج کے زمانے سے میل نہیں کھاتی، مگر شاعری کے اصل اصول وہیں سیکھنے کو ملتے ہیں۔ شعر و ادب کی دنیا سے احمد فراز، جون ایلیا اور ادا جعفری کو سیکھنے کی چابی قرار دیا۔ جدید شاعری کے حوالے سے علی زریون کا نام بھی لیا۔
اسی نقطے پر نشست کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ محترمہ آمنہ صدیقی نے دعا کروائی، اور یوں ایک خوب صورت، سیر حاصل اور موضوع کا حق ادا کرتی ہوئی نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔