سید منور حسن ،ایک درویش ،مجاہد اور فکروعمل کا پیکر

488

کراچی کے حکیم صادق حسین مرحوم کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ حلقہ کراچی کے تین مرتبہ امیر رہے۔ پہلا دورِ امارت نومبر ۱۹۵۲ء سے اکتوبر ۱۹۵۵ء تک، دوسرا فروری ۱۹۷۰سے ۱۹۷۲ء تک اور تیسرا نومبر ۱۹۷۸ء سے اپریل ۱۹۸۰ء تک جاری رہا۔
نماز فجر میں مسجد میں داخل ہونے والا پہلا نمازی
سید آصف علی مرحوم جو جماعت کے دیرینہ رکن، جماعت اسلامی حلقہ کراچی کے اہم ذمہ دار اور برسوں جامعہ حنفیہ کے مہتمم رہے، اس واقعے کے راوی ہیں کہ حکیم صادق حسین مرحوم کے تیسرے دور امارت کے شروع میں ان کے ایک دوست اور معاون نے ان کو یہ مشورہ دیا کہ اسلامی جمعیت طلباء کے ایک سابق ناظم اعلیٰ اور رکن جماعت جو ایک بہت اچھے خطیب بھی ہیں، ان کو اپنا قیم مقرر کرلیں تو حلقہ کراچی کی کارکردگی بہت بہتر ہوجائے گی اور آپ کو ایک اچھا اور فعال معاون میسر آجائے گا۔ سید آصف علی مرحوم کے نواسے سید شجاع الحسنین، اپنے نانا کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ اس مشورے پر انہوں اپنے دوست سے کہا کہ وہ کل فجر کی نماز اس مسجد میں ادا کریں جہاں آپ کے یہ مذکورہ ممدوح نماز ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اگلے روز شادمان ٹائون کی مسجد حبیبیہ میں فجر کی اذان کے وقت پہنچ گئے اور موذن سے سید منور حسن کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ چند منٹ توقف کریں آپ کی ملاقات ہوجائے گی، میں اذان دے لوں۔ اذان کی آخری تکبیر ختم ہوتے ہی مسجد میں سفید براق کرتا شلوار اور خوبصورت قراقلی کیپ پہنے ہوئے ایک باریش خوبصورت جوان داخل ہوا اور باآواز بلند السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘ کے الفاظ ادا کیے۔ موذن نے جو اذان سے فارغ ہوچکے تھے ان کی طرف اشارہ کیا کہ یہ آپ کے مطلوب شخص ہیں۔ پتہ چلا کہ سید منور حسن صاحب کو برسوں سے فجر کی نماز میں مسجد میں داخل ہونے والے پہلے نمازی کا اعزاز حاصل ہے۔ ملاقات اور فجر کی ادائیگی کے بعد سید منور حسن صاحب کو حکیم صادق حسین کا پیغام پہنچادیا گیا، بعد ازاں سید منور حسن حلقہ کراچی کے قیم اور کئی سال بعد جنوری ۱۹۸۹ء تا نومبر ۱۹۹۱ء حلقہ کراچی کے امیر رہے۔ قاضی حسین احمد، امیر جماعت پاکستان نے منصورہ بلاکر انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا قیم مقرر کردیا۔
شفیع نقی جامعی، اسلامی جمعیت طلباء کے ایک سابق رہنما اور بعد میں بی بی سی کے ایک معروف نامہ نگار اور صحافی نے ایک انٹرویو میں ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد سید منور حسن سے یہ سوال کیا تھا کہ جب جماعت اسلامی نے شوکت اسلام کے نام سے جلوس نکالے تھے، آپ کی جماعت میں پورا پاکستان امڈ آیا تھا لیکن اس کے فوری بعد ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جماعت کو قومی اسمبلی میں صرف ۴ نشستیں حاصل ہوسکیں جبکہ کراچی کے شوکت اسلامی کے جلوس میں جس میں خاکسار اپنے دوست شمس الدین خالد کے ہمراہ شروع سے آخر تک شریک رہا اور جس کی قیادت قیم جماعت میاں طفیل محمد کررہے تھے، یہ دعویٰ کیا تھا کہ انشاء اللہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں جماعت کی ۷۰ سے ۸۰ نشستیں تو کہیں نہیں گئیں۔ شفیع نقی جامعی کے اس سوال کے جواب میں سید منور حسن نے فرمایا تھا کہ ہاں، ہوا تو ایسا ہی تھا، یقینا ہمارے پیغام میں کوئی کمی رہ گئی ہوگی، ہم قائل نہ کرسکے ہوں گے اور شاید لوگ ڈرتے بھی تھے کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو اللہ جانے ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا تو ہمیں یہ ڈر بھی دور کرنا ہے اور اسلام مخالف پروپیگنڈے کا توڑ بھی کرنا ہے۔
تو یہ کیسے کیجیے گا؟
جواب تھا ’’جہد مسلسل سے‘‘۔
یہ جہد مسلسل کب تک چلے گی؟
جب تک ہم کامیاب نہیں ہوجاتے اور ہمارا پیغام عوام تک نہیں پہنچ جاتا۔
شفیع نقی جامعی کا کہنا تھا کہ اس ترکی بہ ترکی جواب سے مجھے اپنا پینترا بدلنا پڑا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یوم شوکت اسلام میں شامل دینی جماعتوں نے یکجا ہونے کے بجائے، الگ الگ ہوکر انتخابات لڑے اور مجموعی طور پر تیس سے زیادہ نشستیں حاصل کیں، ان کے بہت سے ووٹ تقسیم ہوگئے ورنہ انہیں اس انتخابات میں چالیس سے پچاس نشستیں ضرور حاصل ہوجاتیں۔
سید منور حسن کے اس ریڈیائی انٹرویو سے ہی مجھے جماعت کی تاریخ کا عنوان ’’جہد مسلسل‘‘ حاصل ہوا جس کے تحت جماعت اسلامی پاک و ہند کی پہلی مکمل تاریخ جس میں جماعت کے فکری پس منظر، ترجمان القرآن کی تحریروں اور اشارات سے لیکر پہلے امیر جماعت سید ابواعلیٰ مودودیؒ کے دور امارت کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بھی ہم عصر مطالعہ اور تجزیہ کیا گیا ہے۔ سید منور حسن کے انتہائی قریبی دوست اور رکن جماعت حلقہ کراچی کے جناب محترم شمیم احمد جو جماعت اسلامی کو آڈیو۔ ویڈیو (Audio-Video) دور میں لے کر آئے، ان کے ایما پر اور حافظ نعیم الرحمن اور ڈاکٹر واسع شاکر کی مشاورت سے جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ کی تدوین و تالیف کا کام شروع ہوا اور سید منور حسن اور شمیم احمد کی رہنمائی میں خاکسار نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور دن رات وقف کردیے اور تحقیق و جستجو کے بعد جماعت کے سارے پرانے اور گم شدہ گوشوں کو صفحات قرطاس پر لایا اور سلیم منصور خالد، یحییٰ بن زکریا صدیقی، سعید عثمانی، حافظ نعیم الرحمن، سید اسلم سلیمی اور جماعت کے چند اور دیگر اکابرین کے تعاون سے اس کٹھن کام کو سرانجام دیا اور ۲۰۱۴ء۔ ۲۰۱۵ء تک اس کی تحریر و تدوین کا کام مکمل کرلیا اور بعد میں حوالوں اور حواشی کی جانچ پڑتال کے کام کے بعد ۲۰۱۷۔۲۰۱۸ء میں اس کی طباعت کا کام مکمل ہوا جس میں محترم شمیم احمد کے انتقال کے بعد شعبہ تصنیف و تالیف کے نگراں اور نائب امیر محترم جناب مظفر ہاشمی مرحوم اور قیم جماعت جناب عبدالوہاب کی خصوصی توجہ اور تعاون سے طباعت کا مرحلہ مکمل ہوا۔
استقامت کردار اور دنیاوی جاہ و مال سے بے نیازی
٭ جناب منور حسن نے اپنے دورِ امارت میں ان کو ملنے والے تمام تحائف، بلکہ ذاتی طور پر ان کی بیٹی فاطمہ اور بیٹے طلحہ کی شادی پر ملنے والے تمام تحائف اور زیورات جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرادیے بلکہ شادی میں جماعت اسلامی کراچی کی گاڑیوں کے استعمال کی مد میں دونوں مرتبہ پٹرول اور ٹوٹ پھوٹ اور مرمت کی مد میں ہزاروں روپے بیت المال کراچی میں جمع کرائے جس کے گواہ مجھ سمیت اور لوگ بھی موجود ہیں۔
٭ انہوں نے ایک ہمدرد جماعت کی طرف سے ایک قیمتی کار کا تحفہ بھی نہیں لیا اور کہا اگر یہ جماعت اسلامی کو دیا جارہا ہے تو قابل قبول ہے ورنہ نہیں۔
باطل قوتوں کی مزاحمت اور مخالفت
انہوں نے ایک مرد مجاہد کی طرح پوری زندگی مقامی اور غیرمقامی، مغربی اور سوشلزم کی مخالفت جاری رکھی، ’’گو امریکہ گو‘‘ کی تحریک کی قیادت کی۔ فوج کے ترجمان کے اصرار اور دبائو کے باوجود اپنا بیان واپس نہیں لیا۔ اس ضمن میں انہوں نے بڑے سے بڑا نقصان برداشت کیا۔ دوبارہ انتخابات میں فوج اور مرکزی شوریٰ کی مخالفت برداشت کی مگر نہ معافی مانگی اور نہ ہی اپنے بیان سے پیچھے ہٹے۔

حصہ