پاکستان نصف صدی قبل (جولائی 1971 )

296

جولائی ۱۹۷۱ء تک سرحدوں پر مقبوضہ علاقوں میں اور خاص طورپر ڈھاکہ کے شمال اور جنوب میں گوریلا کارروائیاں تباہ کن نتائج کے ساتھ شروع ہوگئیں۔ اُس وقت زیادہ پریشان کن تریپورہ اور آسام کے ساتھ واقع پہاڑی سرحدی علاقے تھے جو باغیوں کی کارروائیوں کے لئے مناسب تھے۔ اہم ریلوے لائنوں پر ٹرینوں کی آمد ورفت معطل ہوگئی۔ کومیلا کے جنوب میں فینی کے مقام پر، چاٹگا م کو ڈھاکہ اور سلہٹ سے ملانے والی ریلوے لائن پر اہم پل کو تباہ کردیا گیا۔ متبادل پل اور سڑکیں استعمال کے قابل نہیں تھیں۔ فوج تخریب کاری کے مقام کے نزدیک ترین دیہات کو اپنی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے میں مصروف تھی۔ کومیلا، برہمن باڑیہ روڈ پر ویسے ہی ٹریفک کم چل رہی تھی، لیکن اسے بھی شیلنگ کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ سرحد کے ساتھ علاقوں کو خالی کرالیا گیا تھا تاکہ سرحد پار سے آنے والے گوریلا باغیوں سے مؤثر طریقے سے نمٹا جاسکے۔
اس سنگین صورتحال میں مشرقی پاکستان میں شدید غذائی قلت پیدا ہوگئی اور اس مسئلے کا حل تلاش کیا جانے لگا کہ وہاں غذائی اجناس کی ترسیل کیسے کی جائے، کیونکہ بھارت نے تمام راستے بند کررکھے تھے اور باغیوں نے مشرقی پاکستان میں بیشتر مواصلاتی رابطے تباہ کردئیے تھے۔کافی دوڑ دھوپ کے بعد اقوام متحدہ کے ذریعہ چارٹر پر فوجی طیارے حاصل کئے گئے۔ جولائی کے اواخر میں امریکی حکومت نے دو ملین ڈالر دئیے جس سے سترہ جہاز چارٹر کئے گئے۔ اس عطیے سے اگر دریائی جہاز خرید لئے جاتے تو معاشی طور پر وہ بہتر فیصلہ ہوتا۔ مگر یو ایس ایڈ کے اصرار پر ان طیاروں کو تین سے چار ماہ کے لئے کرائے پر لیا گیا۔
ایک جانب اکثریت کو اقتدار سے محروم کرکے انہیںعلیحدگی کے انتہائی اقدام کی جانب دھکیل کر ان کے خلاف آرمی ایکشن کیا گیااور دوسری جانب جنرل یحییٰ نے ۲۸؍جون کو اپنے سب سے اہم سیاسی اقدام کا اعلان کیا۔ بھٹو صاحب کے فوج میں تعلقات تھے، چنانچہ ان کے علم میں یہ بات آئی کہ فوجی حکومت کا منصوبہ ہے کہ آئینی انتظامات سے قبل مسلم لیگ کے تینوں دھڑوں کو متحد کرنے کی کوششیں شروع کی جائیں۔ جنرل یحییٰ کی تقریر سے ایک دن قبل بھٹو صاحب نے شریف الدین پیرزادہ کو خط لکھ کر اس جوڑ توڑ کے خلاف احتجاج کی ۔ اس کے باوجو د جنرل یحییٰ خان نے اپنی نشری تقریر میں کہا کہ ہمیں کسی جماعت کے اندر ذیلی جماعتوں کے دھندے سے احتراز کرنا چاہیے۔ ان کے ۲۸؍جون کے منصوبے کے اہم نکات یہ تھے:
(الف) قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ’’جنہوں نے مملکت کے خلاف کارروائیاں کیں یاجو جرائم کے مرتکب ہوئے یا جنہوں نے سماج دشمن کارروائیوں میں حصہ لیا، وہ (اسمبلیوں کی رکنیت کے لئے) نااہل قرار دئیے جائیں گے‘‘۔ اس طرح خالی ہونے والی نشستوں کو پُر ککرنے کے لئے تحقیقات کے بعد ضمنی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔
(ب) درایں اثناء ماہرین کی ایک کمیٹی نیا آئین ترتیب دینے میں مصروف ہے۔ قومی اسمبلی خود اس میں دئیے گئے طریقۂ کار کے مطابق اس میں ترامیم کرسکے گی۔
(ج) جب آئین تیار ہوجائے گا اور ضمنی انتخابات مکمل ہوجائیں گے ، اُس وقت صدر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس طلب کریں گے اور صوبوں اور مرکز میں ، دونوں جگہوں پر حکومتوں کی تشکیل ہوگی، لیکن
(د) منصوبے کا مکمل طورپر آغاز اسی وقت ہوگا ، جب ملک میں امن وامان کی صورتحال قدرے معمول پر آجائے گی۔ میڈیا میں مسلسل دعوؤں کے برخلاف ، صدر اب تسلیم کررہے تھے کہ ملک میں یعنی مشرقی پاکستان میں تین مہینوں کے آرمی آپریشن کے بعد بھی صورتحال معمول پر نہیں آئی تھی۔ جنرل یحییٰ کو امید تھی کہ منصوبے پر عمل درآمد چار مہینے میں مکمل ہوجائے گا۔
حقیقت تو یہ تھی کہ منصوبے پر عمل پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔ اپریل میں جنرل یحییٰ نے ایم ایم احمد، کارنیلیس، پیرزادہ اور حسن کو ایک اجلاس کیلئے طلب کیا اور انہیں بتایا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ خود ملک کو آئین دیں گے۔ انہوں نے آئین مرتب کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی جس میں ان چاروں صوبوں کے علاوہ جی ڈبلیو چودھری کو شامل کیا گیا ۔ کمیٹی کے ممبران سے کہا گیا کہ وہ چودھری کے بنائے ہوئے آئین کو استعمال کریں اور اس میں عوامی لیگ کے وہ نکات شامل کرلیں جو قابل قبول ہیں۔
ابتداء میں عوامی ردعمل غیریقینی ہونے کی بناء پر اور شاید اسلئے بھی کہ بھٹو کی یہ تجویز تھی ، جنرل یحییٰ اس مرحلے پرعبوری آئین نافذ کرنا چاہتے تھے تاکہ حکومت میں چیدہ سیاسی نمائندوں کو شامل کرسکیں۔ کمیٹی کی صدر کی سربراہی میں ۲۶؍ مئی کے اجلاس میں ، جس میں کمیٹی کے تمام ارکان بشمول جی ڈبلیو چودھری نے شرکت کی، کارنیلیس نے اعلامیہ اور عبوری آئین کا مسودہ پیش کیا۔ اس وقت تک جنرل یحییٰ کومعلوم ہوگیا تھا کہ انہیں مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کی مکمل حمایت حاصل تی۔ یہ سیاستدان چاہتے تھے کہ جنرل یحییٰ آئین نافذ کریں اور اس طرح بنگالیوں کے مطالبات کی نفی کریں۔ چنانچہ جنرل یحییٰ نے کمیٹی کے ارکان کو مطلع کیا کہ اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ملک کو مستقل آئین دیں گے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ملک کی سیاسی فضا ایسی ہے کہ قوم صدر کی دی ہوئی آئینی دستاویز قبول کرلے گی۔ جنرل یحییٰ نے کمیٹی کو مندرجہ ذیل ہدایات دیں:
(۱) اسلامی نکات کو نہیں چھیڑا جائے ۔ صدر نے بتایا کہ مجیب یہ نہیں چاہتے تھے کہ ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ ہو اور انہوں نے (مجیب نے ) سوال کیا تھا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ مملکت کا سربراہ مسلمان ہو؟
(۲) صوبائی خودمختاری اتنی نہیں ہونی چاہئے جتنی مارچ میں عوامی لیگ کے دباؤ میں آکر تسلیم کی گئی تھی۔
(۳) مشرقی پاکستان کے علاوہ باقی صوبے اپنے مشترکہ مفاد کے معاملات کے لئے آئین میں ترامیم کرسکتے یہں۔
(۴) تینوں افواج( بری، بحری، اور فضائی) کے سربراہان میں جو مقدم ہوگا، وہ آئین کے تحفظ کا ذمہ دار ہوگا ۔ مگر اس سلسلے میں ترکی کی نقل نہیں کی جائے گی۔
(۵) قومی اسمبلی صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے درخواست کرسکتی ہے کہ وہ جب تک مناسب سمجھیں ، مارشل لاء برقرار رکھیں۔
(۶) لیگل فریم ورک آرڈر میں دی گئی نااہلیت کی شرائط کے علاوہ صدر ، ایسی تحقیق کے بعد جسے وہ مناسب سمجھیں، قومی یا صوبائی اسمبلی کے کسی رکن کو چھ سال کی مدت کے لئے نااہل قرار دے سکتے ہیں۔ اس نااہلی کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیاجاسکے گا۔
(۷)ملک میں تین سیاسی جماعتوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیں، مسلم لیگ کی طرح، کسی سیاسی جماعت کو دھڑوں میں تقسیم ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کسی جماعت کے ارکان کی اکثریت اُس جماعت کے نام کو استعمال کرنے اور اس کو کنٹرول کرنے کی حقدار ہوگی۔ جماعت کا اقلیتی ٹولہ تحلیل ہوکر اکثریت میں ضم ہوجائے گا۔ اگر کوئی جماعت اسمبلی کی نشستوں کی کم از کم مقررکردہ تعداد جیتنے میں ناکام ہوجائے تو وہ جماعت تحلیل کردی جائے گی۔
(۸) اگر کسی صوبے کے رکن نے آئین میں ترمیم کے لئے کوئی ایسی قرارداد پیش کی جس سے کسی دوسرے صوبے کے مفادات متاثر ہوتے ہوں تو اس ترمیم پر ووٹنگ ایک خاص طریقے سے ہوگی۔
(۹) عام معافی نہیں دی جائے گی۔ یہ صدر کی صوابدید پر ہوگا کہ وہ کس کومعاف کرنا چاہتے ہیں اور کس کو نہیں۔
(۱۰) کارنیلیس نے وضاحت کی کہ یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ نئے آئین کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے ایک اعلامیے کے ذریعے نافذ کی جائے۔ جب سب ارکان اس آئین میں دئیے گئے حلف کو لے لیں گے تو یہ سمجھا جائے گا کہ آئین کو قومی اسمبلی کی منظوری حاصل ہوگئی ہے۔
یہ اس لیگل فریم ورک آرڈر سے بہت مختلف تھا جسے جی ڈبلیو چودھری نے بنگالی قیادت سے مشاورت کے بعد تیار کیا تھا۔ وہ کمیٹی کے واحد بنگالی رکن تھے اور انہوں نے لندن کے مختصر دورے کرکے اپنی سفارشات تیار کی تھیں، جن میں انہوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کی امنگوں کا خیال رکھنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ جبکہ جنرل یحییٰ خان کے اس اقدام کا تعلق مغربی پاکستان کی حساسیت سے تھا اور انہوں نے بنگالیوں کی تشویش اور اُن کی رضامندی کو یکسر نظرانداز کردیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاست علاقائیت کی نذر ہوگئی۔ مشرقی پاکستان کی حقیقی قیادت کی غیرموجودگی میں بنگالیوں کی قومی امور میں شرکت برائے نام رہ گئی تھی اور قومی منظرنامے پر مغربی پاکستان کی درونِ خانہ اقتدار کی کشمکش چھاگئی تھی۔ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان کشمکش کی بنیاد شخصی اور نظریاتی تھی۔ یہ کشمکش روایتی سیاست بمقابلہ نئی عوامی سیاست کی وجہ سے بھی تھی۔ بھٹو نے ایسا پروگرام پیش کیا تھا جو عوام میں مقبول ہوا اور وہ اُ س پروگرام کو بازاروں اور عظیم الشان جلسوں میں لے آئے ، جس کا ان کے مخالفین کو کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا۔ اُن کے مخالفین بند دروازوں کے پیچھے مذاکرات ، اتحاد اور جوڑ توڑ کی سیاست کے عادی تھے ان دونوں کے درمیان قومی بحران کے حل کے لئے کوئی مغربی پاکستانی سیاسی اتفاق ہونا بہت مشکل ہوگیا تھا۔
نئے آئین کی اساسی شرائط کا مسودہ جولائی میں تیار ہوگیا تھا۔ جنرل یحییٰ کی تجویز تھی کہ اس مسودے پر سیاستدانوں سے مشاورت کی جائے۔ ان کا ارادہ ڈھاکہ جانے کا بھی تھا ، تاکہ وہاں موجود بنگالی قیادت سے مشورہ کیا جائے۔ لیکن مشرقی پاکستان کا دورہ ممکن نہیں ہوا، کیونکہ وہاں ان کی کوئی حقیقی قیادت تھی ہی نہیں، جس سے مشاورت کی جاتی۔ پیپلز پارٹی کا پروگرام تھا کہ وہ وسط جولائی میں نئے مجوزہ آئین اور دیگر معاملات پر غور کرے گی۔ اسی دوران بھٹو صاحب اقتدار کی منتقلی کا مطالبہ کررہے تھے، اور ان کی پارٹی کے جنرل سیکرٹری کوثر نیازی نے اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی ضمنی انتخابات میں حصہ لے جو جنرل یحییٰ کے کے نئے نظام کے اہم ستون تھے۔ مسلم لیگ کے دو دھڑوں کے سربراہان خان عبدالقیوم خان اور میاں ممتاز دولتانہ نے مشرقی پاکستان میں حالات مکمل طورپر معمول پر آنے سے پہلے اقتدار کی منتقلی کی شدید مخالفت کی اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریاں شروع کردیں۔ دولتانہ نے اقتدارکی منتقلی کے بجائے جنرل یحییٰ کے ہاتھ مضبوط کرنے پر زور دیا۔ بھٹو کے علاوہ مغربی پاکستان کے تمام سیاسی لیڈروں نے جنرل یحییٰ کے منصوبے کی حمایت کی۔
۱۵؍جولائی کو پیپلز پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ جو ساڑھے دس گھنٹے جاری رہا اوراس میں ۲۸؍جون کے پلان پر غور کیاگیا۔ بھٹو نے جنرل یحییٰ کو اپنی پارٹی کے اعتراضات بتاتے ہوئے صدر کے منصوبے کی مختلف غیرجمہوری خصوصیات پر مایوسی کا اظہار کیا۔پیپلز پارٹی کی کوشش تھی کہ اسے آئین سازی اور دوسرے امور میں مغربی پاکستان کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کیا جائے۔ بھٹو صاحب کو مشرقی پاکستان میں خونیں کھیل اور اپنے ہی مسلمان ہم وطنوں کے بجائے حصول اقتدار سے دلچسپی تھی۔
جنرل یحییٰ میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ ایک اور سیاسی مخالفت مول لیں، خاص طور مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت سے۔ وہ دو دن بعد بھٹو سے ملے اور ان کے دھمکی آمیز رویے پر خفگی کا اظہار کیا ، لیکن ساتھ ہی انہوں
نے پیپلز پارٹی سے مفاہمت جاری رکھنے کی خواہش بھی ظاہر کی۔ چنانچہ ۲۹؍ جولائی کو جنرل یحییٰ اور بھٹو اور اُن کے معاونین کے درمیان کراچی میں باقاعدہ اجلا س ہوا۔ بھٹو نے اجلاس میں تجویز پیش کی کہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے دو یا تین ہفتے پہلے صدر مجوزہ آئین کے مسودہ کو شائع کردیں اور اسمبلی کا اجلاس بطور آئین ساز اسمبلی منعقد ہو۔ اسمبلی دوہفتوں کے اندر آئین کا مسودہ معمولی اکثریت کے ساتھ جیسا ہے ویسا ہی منظور کرلے گی، یا پھر اس میں تجویز منظور کرے گی ۔لیکن جنرل یحییٰ نے بھٹو کا فارمولا مسترد کردیا۔
مشرقی پاکستان کے بحران کے حل کے لئے سفارتی سطح پر بھی کوششیں کی جارہی تھیں، اس حوالے سے مسلم ملکوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ تنکو عبدالرحمن ایران، کویت اور سعودی عرب کے نمائندوں پر مشتمل وفد کے ساتھ ۱۸؍جولائی کوکراچی پہنچے، پاکستان آنے سے قبل انہوں نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ جہاں بھارتی حکومت نے وفد کے ایرانی اور کویتی ارکان کو مہاجر کیومپوں کے دورے کی اجازت نہیں دی تھی۔
مشرقی پاکستان کے بحران کے سفارتی جھگڑوں میں فیصلہ کن عنصر امریکی پالیسی تھی ، جو وہائیٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے درمیان کشمکش کا شکار ہوگئی۔ نکسن اور کسنجر باقی انتظامیہ، کانگریس اور میڈیا مشرقی پاکستان کے انجام پر متفق تھے ، ان کے درمیان صرف اس انجام تک پہنچنے کے لئے چالوں پر اختلافات تھے۔ جنرل یحییٰ امریکی پالیسی سازوں کے محرکات کو کبھی نہیں سمجھ سکے۔ وہائٹ ہاؤس کی حمایت نے انہیں یہ غلط تاثر دیا تھا کہ بھارت سے کسی جنگ میں امریکہ ان کی بھرپور مدد کرے گا۔ دفتر خارجہ نے انہیں کبھی نہیں سمجھایا کہ جب تک امریکہ کے تمام اہم اداروں کے درمیان کسی معاملے پر اتفاق نہ ہو، خصوصا ً وہ مسائل جن سے خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا تعلق ہو ، امریکی صدر خود کسی ملک کی امداد کا حکم نہیں دے سکتا۔ لیکن جولائی میں بحران کے حل کے لئے آنکھیں کسنجر کے پاکستان کے دورے پر لگی ہوئی تھیں۔
لیکن پاکستانیوں کی امیدوں پر جلد ہی پانی پھر گیا۔ کسنجرکے بھارت اور پاکستان کے دورے کا اصل مقصد اُن کے بیجنگ کے خفیہ دورے سے توجہ ہٹانے کے لئے تھا ، جہاں وہ امریکی صدر کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے جارہے تھے، ان کے بیجنگ کے خفیہ دورے کو جنرل یحییٰ نے ممکن بنایا ۔چنانچہ کسنجر پہلے دہلی گئے اور پھر ۸؍ جولائی کو اسلام آباد پہنچے ۔ نئی دہلی سے روانگی کے وقت انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ بھار ت مہاجرین کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے جنگ کرنے پر تُلا بیٹھا ہے۔ وہ پاکستانی جرنیلوں(کی سوچ اور لن ترانیوں ) پر دم بخود تھے۔ اُن جرنیلوں کے دعوے کہ مسلمان فوجی ہندؤوں سے برتر ہیں، اُن کی جھوٹی خوداعتمادی اور پاکستان کی تنہائی سے ان کی لاعلمیت، وہ ان سب باتوں سے محظوظ ہوئے۔
(باقی صفحہ نمبر 9)
۱۵؍ جولائی کے بعد پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ فوجی اور سول حلقے اور مغربی پاکستان کے عوام بہت خوش تھے۔ گوکہ یہ کسی پر واضح نہیں تھا کہ یہ نئی واردات پاکستان کو کس طرح اُس دلدل سے نکا ل سکتی ہے جس میں وہ
خود اپنے غلط فیصلوں سے پھنس گیا تھا ، پھر بھی امریکہ کی حمایت کی بہت بڑی قدرت پر فوج کا ایمان مزید پختہ ہوگیا۔ دفتر خارجہ کو امید تھی کہ ان کو اس سلسلے میں دی گئی خدمات کا صلہ ضرور دیا جائے گا اور انہوں نے اُس دن کا خواب دیکھنا شروع کردیا جب اُن کے پڑوسی کی شیطانی چالوں کے خلاف واشنگٹن، اسلام آباد بیجنگ اتحاد بنے گا۔
جب کسنجر واشنگٹن واپس پہنچے تو ان کے ذہن میں یہ واضح تھا کہ برصغیر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ برسات کا موسم ختم ہوتے ہی بھارت پاکستان پر حملہ کردے گا اوریہ کہ بھارت مشرقی پاکستان کی آزادی کے لئے امریکی ذہن میں جو ارتقائی عمل تھا ، اسے پورا نہیں ہونے دے گا۔ صدر نکسن نے اس بات کو اتنی سنجیدگی سے لیا کہ انہوں نے ۱۶؍جولائی کو قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔ جس میں کسنجر نے اپنے نئی دہلی سے حاصل ہونے والے تاثرات بیان کئے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنی رائے دی کہ بھارت ہر وہ کارروائی کررہا ہے ، جواس کے بس میں ہے تاکہ مہاجرین کی واپسی کو روک سکے۔ نکسن نے فیصلہ کیا کہ پاکستان سے کہا جائے کہ وہ مہاجرین کی واپسی کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کرے، جنگ روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے اور اگر جنگ ہوئی تو تمام امریکی امداد معطل کردی جائے۔ اور یہ کہ برصغیر میں کشیدگی کوکم کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے کوششیں کرنے کو کہا جائے۔
جولائی کے وسط تک یہ واضح ہوتا جارہا تھا کہ صرف انسان دوست اقدامات بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمکش کو کم کرنے کے لئے کافی نہیں تھے۔ اقتدار کی منتقلی کے لئے جنر ل یحییٰ کے ۲۸؍جون کے منصوبے کو بھارت نے مسترد کردیا تھا اور اسی لئے عوامی لیگ کی قیادت نے بھی رد کردیا تھا۔ جولائی کے تیسرے ہفتے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس دھماکہ خیز صورتحال کو ختم کرنے کے لئے دو اقدامات کا اعلان کیا ۔ پہلی تو
ایک تجویز تھی کہ بھارت اور مشرقی پاکستان کے درمیان سرحدوں کے دونوں جانب منتخب مقامات پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مبصرین متعین کئے جائیں ۔ تاکہ مہاجرین کو رضاکارانہ وطن واپسی کے لئے سہولتیں فراہم ہوں۔ یہ تجویز ۱۹؍جولائی کو ایک سفارتی مراسلے کی شکل میں بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو بھیجی گئی ۔ حکومت پاکستان نے فوراً ہی یہ تجویز منظور کرلی۔ اس نے اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین کے مبصرین کو سرحد پر تعینات کرنے کی تجویز کو خوش آمدید کہا، اسلئے وہ نہ صرف مہاجرین کی واپسی کی نگرانی کرتے ۔ بلکہ زیادہ اہم وہ بھارت کے علاقے میں پاکستان کے خلاف ہونے والی باغیانہ کارروائیوں کا مشاہدہ بھی کرتے ۔ ان ہی وجوہات کی بناء پر اوراسی تیزی کے ساتھ بھارت نے ۲۲؍جولائی کو تجویز نامنظور کردی۔ سورن سنگھ نے بہانہ کیا کہ اقوام متحدہ کے مبصرین کی سرحدوں پر تعیناتی سے بنگلہ دیش کے عوام کی صعوبتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھارت اور پاکستان کو سفارتی نوٹ بھیجنے کے بعد سلامتی کونسل کے صدر کو’’موجودہ حالات کے ممکنہ نتائج ، جوامن اور سلامتی کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں‘‘کے موضوع پر ایک میمورنڈم بھیجا۔ سلامتی کونسل کے صدر نے اس میمورنڈم کی کاپیاں کونسل کے رکن ملکوں کے مندوبین کو فراہم کیں اور بھارت اورپاکستان اپنے وفود بھیجے۔ انہوں نے کونسل کے ارکان سے درخواست کی کہ وہ آپس میں طے کریں کہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لئے کیااقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ۲۶؍جولائی کو بھارت اور پاکستان کے مستقل مندوبین کے ساتھ الگ الگ ملاقاتوں میںسیکرٹری جنرل نے سرحدوں پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کی بات کی ۔ سلامتی کونسل کے صدر کی کونسل کے پندرہ ارکان سے مشاورت اس بات پر اتفاق پیدا نہیں کرسکی کہ مذکورہ خطرات پر غور کے لئے کونسل کا اجلاس طلب کیا جائے۔ بھارت نے یہ طے کرلیا تھا کہ اس کے نئے علاقائی نقشہ بنانے کے منصوبے میں کسی تیسر ے ملک کو رخنہ ڈالنے نہیں دے گا۔مغربی حکومتوں نے سرحدوں پر اقوام متحدہ کے مبصرین تعینات کرنے کی تجویز کی حمایت کی تھی، مگر اطلاععات تھیں کہ سوویت یونین اس کی مخالفت کرے گا۔ ان حالات میں سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نے فیصلہ کیا کہ کونسل کا اجلاس طلب کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔
وسط جولائی تک بھارت کی رائے عامہ کے مقتدر افراد ایک اتفاق پر پہنچ گئے تھے ۔ یہ اتفاق اس طرح ممکن ہوا کہ نمایاں قائدین نے عوام میں ہسٹریا پیدا کیا اور پالیسی سازوں نے پیچیدہ تجزیہ کیا کہ مشرقی پاکستان کی آزادی صرف پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی سے ہی ممکن ہوگی۔ نیم سرکاری ادارے کے سربراہ کے سبرامنیم نے وسط جولائی مں ’’بنگلہ دیش اور بھارت کی قومی سلامتی : بھارت کے لئے امکاناتــ‘‘ کے موضوع پر ایک دستاویز تیار کی ، جسے مغربی اخبارات میں تقسیم کیا گیا۔
اس دستاویز کو دی ٹائمز (The Times)نے ۱۳ ؍جولائی کو شائع کیا ۔ اُس دستاویز کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ ایک مرتبہ مشرقی بنگالیوں کو’’بچانے کا عہد کرنے کے بعد ، بھارتی حکومت اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی ہے‘‘۔ یہ امیدیں کہ دنیا کی طاقتیں جنرل یحییٰ کو مجبور کرلیں گی کہ وہ کوئی ’’معنی خیز‘‘ سیاسی سمجھوتہ کرلیں ، یا یہ کہ مکتی باہنی پاکستان کی افواج کو شکست سے دوچار کردیں گی، پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھیں۔ پاکستان کی معیشت نے مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوج کے اخراجات کو برداشت کرلیا تھا۔ سبرامنیم کا کہنا تھا کہ بحران کو بین الاقوامی رنگ دینے کے لئے اب ضروری ہوگیا ہے کہ بھارت خود مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کرے۔

حصہ