”یہ کیا ہورہاہے؟“
”کچھ نہیں، تھوڑا کام تھا، اُسی میں لگا ہوا ہوں۔“
”میز پر بکھرے ہوئے کاغذات دیکھ کر تھوڑا سا کام تو نہیں لگتا، بلکہ کمرے کی حالت دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی دفتر کا ریکارڈ روم ہو۔“
”ارے نہیں بھائی! ایسی بات نہیں ہے۔“
”ایسی بات نہیں ہے تو پھر ان کاغذات کو لیے کیا کررہے ہیں؟“
”کوئی خاص نہیں، یہ مالی سال ختم ہوا ہے، اس لیے آنے والے سال کا بجٹ بنا رہا ہوں۔ ان کاغذات میں کچھ بینک اسٹیٹمنٹ ہیں اور کچھ کاروباری دستاویزات اور مختلف اوقات میں کی گئی خریداری کی رسیدیں ہیں۔ ہر سال جون کے مہینے میں بس اسی طرح سر کھپانا پڑتا ہے، مگر اس سے یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ گزرے ہوئے سال میں ہونے والے اخراجات سامنے آجاتے ہیں، جبکہ آنے والے سال کے لیے بجٹ کی رقم مختص کرنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔“
”لیکن یہ تو جون کا مہینہ ہے، نیا سال تو جنوری سے شروع ہوتا ہے۔“
”وہ تو ہیپی نیو ایئر منانے والوں کے لیے ہوتا ہے، کاروباری لوگوں کے لیے تو جون ہی پہلا مہینہ ہے۔ یعنی معاشی معاملات اسی مہینے سے منسلک ہیں۔ بس اسی لیے کاغذات میں الجھا ہوا ہوں۔“
”آنے والے سال کا بجٹ بنانا… یہ تو مشکل کام لگتا ہے۔ کب کتنے پیسوں کی ضرورت پڑ جائے کوئی نہیں جانتا، تو پھر تم کس طرح سال بھر کے لیے رقم رکھ لیتے ہو؟“
”ارے اس میں کیا مشکل ہے!“
”مشکل تو ہے، مثلاً ہمارے یہاں آئے دن اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ لگا رہتا ہے، بلکہ چیزیں مہنگی ہوتی رہتی ہیں۔ ایسی صورت میں تو مالی مسائل کا جنم لینا لازمی ہے۔“
”نہیں نہیں ایسا نہیں ہے۔ سال بھر کا بجٹ بنانے کے بعد مجھے کسی بھی قسم کا کوئی مالی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ دیکھو، جب پورے سال کا بجٹ بنایا جاتا ہے تو جولائی سے اگلے سال جون کے مہینے تک کھانے پینے، سیر و تفریح، شادی بیاہ، یہاں تک کہ دوادارو کے لیے بھی رقم رکھ لی جاتی ہے۔“
”یہ سب حکومتی سطح تک تو کیا جاسکتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عام آدمی، میرا مطلب ہے کہ کوئی بھی انسان پورے سال کا شیڈول بنائے اور اس کا بجٹ آؤٹ نہ ہو! یعنی کب کتنے پیسوں کی ضرورت آن پڑے، کوئی نہیں جانتا۔ کوئی کب کسی بیماری میں مبتلا ہوجائے، خدا جانے! بڑے بوڑھوں کو کہتے سنا ہے کہ شادی بیاہ، مقدمے بازی اور بیماری پر آنے والے اخراجات کا تعین نہیں کیا جاسکتا، اور تم سال بھر ہونے والے اخراجات کا شیڈول بنانے کی باتیں کررہے ہو!“
”یہ چھوٹے لوگوں کی چھوٹی سوچ ہے۔ جب سے پیسہ آیا میرا یہی طریقہ کار ہے، مجھے تو کبھی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔ ہاں، جس کے پاس مال و دولت ہوتی ہے وہی اس فارمولے پر عمل کرسکتا ہے۔ دیکھو، گزشتہ برس میں نے صرف کچن کے اخراجات کی مد میں ماہوار پچاس ہزار روپے مختص کیے تھے، اِس مرتبہ ستّر ہزار رکھے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ساری کی ساری رقم ختم نہیں ہوسکتی۔ اس میں سے کچھ نہ کچھ تو بچے گا ہی۔ اسی لیے یہ روز روز کے دال دلیے کی مجھے کوئی فکر نہیں۔“
”لگتا ہے دروازے پر کوئی دستک دے رہا ہے۔“
”کون ہے بھئی؟“
”احمد بھائی! میں ہوں ارشد پلمبر۔“
”ڈرائنگ روم میں ہی آ جاؤ۔“
”ریاض! میں تمہیں دو گھنٹے سے تلاش کررہا ہوں، اور تم یہاں بیٹھے ہوئے ہو۔“
”دو گھنٹے! ارے مجھے یہاں بیٹھے اتنی دیر ہوگئی! باتوں باتوں میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔“
”ایسی کون سی باتیں ہورہی تھیں جنہوں نے تمہیں یہاں باندھ رکھا تھا؟“
”بھائی کا موڈ خراب لگتا ہے، خیریت تو ہے؟“
”ہاں خیریت ہی ہے، ایک ضروری بات کرنی ہے اس لیے ڈھونڈ رہا تھا۔ اٹھو، چلو میرے ساتھ۔“
”دو منٹ ٹھیرو احمد بھائی! اپنی بات مکمل کرلیں، پھر چلتے ہیں۔“
”اتنی دیر سے بیٹھے ہو، کیا اب تک بات مکمل نہیں ہوئی؟“
”ارے ہم مہینے کے بجٹ سے متعلق بات کررہے تھے، بس تھوڑی سی دیر میں چلتے ہیں۔“
”ان فضول باتوں سے تمہارا کیا تعلق؟ ریاض میاں! ہم لوگ روز کمانے روز کھانے والے ہیں، یہ ماہانہ اور سالانہ بجٹ وجٹ سے ہمارا کیا لینا دینا؟“
”اگر کوئی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس سے تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ تم خود تو کچھ کرنا نہیں چاہتے، کوئی دوسرا اگر اپنے گھریلو حالات درست کرنے کے لیے سمجھنا چاہتا ہے تو اس کی مخالفت کیوں کرتے ہو؟“
”میں تم سے بات نہیں کررہا، میں تو ریاض سے مخاطب ہوں۔“
”میرے گھر میں بیٹھ کر مجھ سے ہی بات نہ کرنے کا مطلب؟“
”احمد بھائی! اگر ریاض یہاں نہ آیا ہوتا تو شاید میں کبھی بھی اس گھر میں داخل نہ ہوتا، مجبوراً آنا پڑ گیا ہے۔“
”بڑے مزاج ہیں، میں نے تمہارا کون سا مال دبا رکھا ہے جس کی بنا پر تم اتنے جل بھن رہے ہو!“
”تمہیں پیسے کا کچھ زیادہ ہی غرور، اور خودنمائی کا شوق ہے۔ اسی لیے تم ریاض جیسے سیدھے سادے لوگوں کو اپنے بینک بیلنس اور عیاشیوں کے قصے فخریہ انداز میں سنایا کرتے ہو۔“
”ہاں ہاں تو اس میں غلط کیا ہے! اِس دنیا میں جس کے پاس مال ودولت ہے وہی عزت دار ہے۔ میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہر شے میرے اختیار میں ہے، جو چاہتا ہوں خرید لیتا ہوں، جہاں چاہتا ہوں گھوم پھر آتا ہوں۔ دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں جو میرے گھر نہ ہو، تو پھر اس کا پرچار کیوں نہ کروں! تم جیسے لوگ مجھ سے جلتے ہیں اور جلتے ہی رہیں گے۔“
”جانتا ہوں اور خاص طور پر تم جیسے لوگوں کو تو خوب جانتا ہوں۔ احمد بھائی! میرا اختلاف تم سے تمہارے مال و زر کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ تمہاری خودنمائی ہے۔ مجھے تمہاری دولت سے کیا لینا دینا! میں جانتا ہوں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں تو اپنا رونا رویا کرتا ہوں۔ ظاہر ہے جب بے روزگاری کی وجہ سے مجھ جیسے غریب فاقہ کشی پر مجبور ہوں تو ایسی صورت میں تمہاری باتیں زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوتی ہیں۔ ارے سرمایہ دار طبقہ ایک طرف، یہاں تو حکومت بھی غریبوں کا خون چوس رہی ہے۔ حکومت نے ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ 22 ہزار روپے مقرر کی ہے، لیکن 80 فیصد مزدوروں کو 15 سے 17 ہزار روپے دی جارہی ہے۔ ایک طرف پاکستان میں اربوں روپے کے سامانِ تعیش بنائے اور خریدےجاتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک کسان کا بیٹا دوائی کے پیسے نہ ہونے کے باعث اپنی ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے، اور تم جیسے لوگ ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں ٹی وی پر پیش کی جانے والی خبریں دیکھ کر محض افسوس ہی کیا کرتے ہو۔ صرف افسوس، اور وہ بھی بناوٹی۔ دوزخ کا نظارہ بہت ہی خطرناک ہوتا ہے، شاید اسی لیے اسے دُور سے ہی دیکھنا امیروں کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ ارے بھوک کس چڑیا کا نام ہے تم کیا جانو! تمہیں کیا خبر دو وقت کی روٹی کمانے والے اگر سب کچھ چھوڑ کر صرف سبزی، دال یا صرف اٹا ہی پھانک کر جینا چاہیں تو بھی انہیں نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنی پڑتی ہے، کیونکہ جہاں سبزی100 روپے سے 150 روپے کلو، چاول160 روپے سے 200 روپے کلو، آٹا 75 سے 80روپے، مسالہ جات 400روپے،لہسن 240 روپے، ادرک 320 روپے، اور تیل 300 روپے کلو فروخت ہورہا ہو… اور تو اور ایک کمرے کے مکان کا کرایہ 12سے15ہزار روپے، پانی کا چھوٹا کین 15روپے، گیس، بجلی کا خرچہ ایک روز کا کام ازکم 200 روپے آتا ہو، وہاں تم جیسوں یعنی سال بھر کا بجٹ بنانے والوں کو آٹھ سو سے بارہ سو روپے روز پر کام کرنے والے مزدوروں کے گھر ہونے والے فاقوں سے کیا غرض! ارے غریب صبح کھا لیں تو شام کی فکر لاحق ہوا کرتی ہے۔ کل ملے نہ ملے، بس یہی سوچ انہیں رات بھر سونے نہیں دیتی۔ وہ ہر صبح نئی امید لیے مزدوری کی تلاش میں سڑک کے ساتھ بنی فٹ پاتھ پر بے روزگاروں کی صف میں جا بیٹھتے ہیں۔ سال بدلے یا زمانہ بدل جائے، یا پھر حکمران بدل جائیں… سب کچھ بدل جائے تب بھی ہم جیسے غریبوں کے حالات نہ بدلیں گے۔ میں پڑھ لکھ کر بھی پلمبری کرنے پر مجبور ہوں۔ غریب کل بھی مسائل کی یلغار میں آہ و فغاں کرتے نظر آتے تھے، آج بھی مہنگائی اور بے روزگاری کا ہی رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مصائب کا سفر کل رکا اور نہ اج تھما۔ ایک عام آدمی پہلے ہی غربت اور تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر بہت تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور تھا، اب تو نوبت خودکشی تک آن پہنچی ہے۔ سابق حکمرانوں کے دور میں جنہیں چور، ڈاکو اور مافیا کہا جاتا ہے، 45 سے 50 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے تھے، اب 70 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئے پاکستان میں لوگ خوشحالی کی راہ تکتے تکتے مایوس ہوچکے ہیں۔ اب تو وہ پرانے پاکستان کو یاد کرتے ہیں۔“
ارشد اور احمد کے درمیان ہونے والی معاشی بحث کا کیا نتیجہ نکلا، میں نہیں جانتا۔ ہاں یہ بات ضرور جان چکا ہوں کہ ہمارے حکمران نئے پاکستان کے نعرے لگا رہے ہیں، معاشی ترقی کے ایسے ایسے دعوے کیے جارہے ہیں جنہیں سن کر ایک عام پاکستانی کی عقل بھی دنگ رہ جاتی ہے۔ معاشی اشاریے، شرحِ نمو، زرمبادلہ کے ذخائر میں اتار چڑھاؤ، جی ڈی پی گروتھ، اور نہ جانے کیا کیا… روز نئی سے نئی نہ ختم ہونے والی داستانیں سناکر سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے، عوام اس گورکھ دھندے کو نہیں جانتے، وہ تو بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ہمارے مسائل کو مزید گمبھیر کررہی ہے، ہمارے نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لیے روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں، لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ حکمرانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں۔ عوام کو زیادہ مالی وسائل مہیا کرنے سے ہی افراطِ زر کی شرح قابو میں رہے گی، یعنی عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرکے ہی معاشی مسائل میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت اگر اپنے اللے تللوں میں کمی لے آئے تب بھی خاصی حد تک معاشی مسائل کم کیے جاسکتے ہیں۔ جبکہ جاگیردارانہ نظام نے بھی ملک کو ترقی کی راہ سے ہٹا دیا ہے اور مسلسل ہماری معیشت کو کمزور بنا رہا ہے۔ نام نہاد جاگیردار زمینوں، فیکٹریوں اور کارخانوں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور غریب عوام کا استحصال کررہے ہیں۔ یہی وہ معاشی مسائل ہیں جن کے اثرات سے پاکستانی عوام کشمکش اور تناؤ کا شکار ہیں، جس کے باعث عوام میں نفسیاتی کھنچاؤ بڑھ رہا ہے۔ اس صورتِ حال میں حکمرانوں کی جانب سے معاشی ترقی کے اشاریوں کا پہاڑا سنانے کے بجائے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔