ایشیا اور یورپ کے شمالی اور وسطی ممالک میں جہالت اور پسماندگی اپنے انتہائی عروج پر تھی۔ یہ ملک اُن خانہ بدوش اور وحشی قبائل کی شکار گاہیں تھیں جو مختلف ادوار میں منگولیا سے نکل کر یورپ اور ایشیا کے میدانوں میں پھیل جایا کرتے تھے۔ زرخیز خطوں پر قبضہ جمانے کے بعد جب یہ خانہ بدوش نسبتاً متمدن زندگی کے عادی ہوجاتے اور کھیتی باڑی کی بدولت وسائل حیات کی فراوانی اُن کی بددیانہ خصوصیات بدل ڈالتی تو وسط ایشیا سے وحشت اور بربریت کے طوفان کی ایک اور لہر اُٹھتی اور ان ترقی یافتہ وحشیوں کو اپنے انتہائی پسماندہ اور خونخوار بھائیوں کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی۔ سیتھین، ہُن اور ونڈال جن کی وحشت اور بربریت کبھی مشرق میں سلطنت ایران اور کبھی مغرب میں سلطنت روما کے لیے خطرہ عظیم بن جاتی تھی۔ انہی قبائل کی شاخیں تھیں جو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے منگولیا کی چراگاہوں کو ناکافی پا کر نئی چراگاہوں کی تلاش میں نکل پڑتے تھے۔
عرب، روم اور ایران کی عظیم سلطنتوں کا ایک گمنام اور حقیر ہمسایہ تھا۔ لیکن اس ملک کے باشندے اپنے ہم جوار ممالک کے اچھے یا برے اثرات سے محفوظ تھے۔ مشرق یا مغرب سے اگر کوئی طوفان نمودار ہوتا تھا تو اُس کی لہریں اس صحرا کی ریت میں گم ہو کر رہ جاتی تھیں۔ اہل عرب مدنیت کے شعور کی اُس منزل سے صدیوں پیچھے تھے جہاں افراد یا قبائل کے اتحاد سے قوم یا ملت معرضِ وجود میں آتی ہے اور زمین کے خطے ایک سلطنت کے اجزا بن جاتے ہیں۔
یہاں بیرونی تہذیبوں کے خفیف سے اثرات صرف اُن بستیوں اور شہروں تک محدود تھے جو یمن اور شام کے درمیان قدیم تجارتی شاہراہ پر آباد تھے۔ سلطنت کا تصور جزیرہ نمائے عرب کے اُن بیرونی اور نسبتاً زرخیز علاقوں تک محدود تھا جہاں مستقل آبادی اپنے وسائل حیات کے تحفظ کے لیے کسی طاقتور خاندان کی سیادت قبول کرنے پر مجبور ہوجاتی تھی۔ صحرائی آبادی اُن خانہ بدوشوں پر مشتمل تھی جو اونٹ کے بالوں یا بکریوں کی کھالوں کے خیموں میں رہتے تھے۔ اُن کے نزدیک بھیڑ بکریاں، اونٹ یا گھوڑے پالنا اور شکار کھیلنا ہی مردانہ کام تھے۔ جنوب کے زرخیز علاقے میں سلطنتیں بنی اور ختم ہوگئیں لیکن بے آب و گیاہ وادیوں کے مکین ان انقلابات سے محفوظ رہے۔ پانی کی کمیابی، خوراک کی قلت اور جھلسا دینے والی گرمی کے باعث بیرونی حملہ آوروں کے لیے اس خطہ زمین میں کوئی کشش نہ تھی لیکن اس کے باوجود یہ صحرا نشین امن وسکون سے ناآشنا تھے۔ وہ بیرونی جارحیت سے تو محفوظ تھے لیکن جہالت کا عفریت جسے وہ اپنی مخصوص تہذیبی اور اخلاقی روایات کا محافظ سمجھتے تھے اُن کے لیے روم و ایران کی استبدادی قوتوں سے زیادہ خطرناک بن چکا تھا۔ وہ باہر کی آندھیوں سے محفوظ تھے لیکن اپنے گھر کی آگ سے اُن کے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی۔
اُن کے ماضی کی تاریخ خاندانی جھگڑوں یا قبائلی جنگوں تک محدود تھی۔ یہ جنگیں عام طور پر افراد سے شروع ہوتی تھیں جو کبھی کسی پانی کے چشمے یا چراگاہ پر قبضہ کرنے اور کبھی ایک دوسرے کے مویشی چھیننے کے لیے آپس میں اُلجھ پڑتے تھے، پھر تمام کے تمام قبیلے میدان میں آجاتے اور برسوں تک لوٹ مار، قتل و غارت اور انتقام در انتقام کا سلسلہ جاری رہتا۔ جب ایک نسل کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک بہہ نکلتا تو نئی نسل میدان میں آجاتی۔ اُن کے خطیب اور شاعر نفرت و انتقام کے جہنم کے لیے تازہ ایندھن مہیا کرتے تھے۔ اُن کا بیشتر شعر و ادب اُن قصائد اور ہجویات پر مشتمل تھا جس کی بدولت وہ اپنی پرانی عداوتیں زندہ رکھ سکتے تھے۔
قبائلیت بددی سوسائٹی کی بنیاد تھی۔ ایک فرد کی زندگی کا اولین مقصد اپنے قبیلے کی انا کی تسکین کا سامان مہیا کرنا تھا۔ اپنے قبیلے کے کسی فرد کے قاتل کے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ ایسا مجرم فرار ہو کر ہی قبیلے کے انتقام سے بچ سکتا تھا۔ لیکن ہمسایہ قبائل کے خلاف انتہائی گھنائونے جرائم کا ارتکاب بھی قابل تحسین سمجھا جاتا تھا۔
کمزور قبائل کو اپنی سلامتی کے لیے کسی طاقتور قبیلے کی پناہ لینا پڑتی تھی اور اس کے بدلے وہ خراج ادا کرتے تھے۔ بعض اوقات ایک غیر جانبدار قبیلہ فریقین کے درمیان کود پڑتا تو ایک عارضی مدت کے لیے صلح بھی ہوجاتی تھی لیکن تصفیہ کا اصول تھا کہ جنگ میں جس قبیلے کے کم آدمی مارے جاتے تھے اُسے اپنے حریف کی زائد اموات کا خون بہا دینا پڑتا تھا۔
قبائل صرف پیدائشی اور نسلی رشتوں ہی سے نہیں بنتے تھے بلکہ ایک اجنبی کسی کے گھر کا کھانا کھانے اور اُس کے خون کی چند بوندیں چکھنے کی رسم ادا کرنے کے بعد اُس کے قبیلے میں داخل ہوسکتا تھا۔ بعض اوقات ایک چھوٹے اور کمزور قبیلے کے تمام افراد اپنی بقا کے لیے کسی بڑے اور طاقتور قبیلے میں جذب ہوجاتے تھے، اور اس طرح انہیں اپنی قوت میں اضافہ کرنے کے بعد اپنے دشمنوں کے مظالم کا حساب چکانے کا موقع مل جاتا تھا۔
عرب جس قدر جاہل تھے اُسی قدر ضدی، خونخوار اور مغرور تھے۔ صحرا کی آب و ہوا نے انہیں اونٹ کی طرح جفاکش اور کھجور کے درختوں کی طرح سخت جان بنادیا تھا لیکن یہ جفاکشی کسی صحت مند معاشرے کی بجائے انہیں اپنے ماحول کی تاریکیوں میں ثابت قدم رکھنے کے کام آرہی تھی۔ اپنے اسلاف کی بدترین روایات پر قائم رہنا اُن کے نزدیک بہادری اور اپنے اسلاف کا راستہ چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا اُن کے نزدیک بزدلی اور بے غیرتی کے مترادف تھا۔
مکہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ یہاں ابراہیم علیہ السلام نے خدا کا پہلا گھر تعمیر کیا تھا۔ لیکن شرک کی آندھیاں یہاں توحید کا چراغ بجھا چکی تھیں۔ اور خدا کا یہ گھر ایک بت کدہ بن چکا تھا۔ عرب اب بھی خانہ کعبہ کو اپنا روحانی مرکز سمجھتے تھے لیکن صدیوں کی جہالت کی طغیانیوں میں دین ابراہیمؑ کی تعلیم، چند مشرکانہ رسوم کا مجموعہ بن کر رہ گئی تھی۔ خال خال ایسے لوگ تھے جن کے دلوں کی گہرائیوں میں دین ابراہیمؑ کی لَو جھلملارہی تھی لیکن ظلمت کے طوفانوں کے آگے چند ٹمٹماتے ہوئے چراغوں کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ عرب سے باہر مجروح انسانیت کو اپنے زخموں کا احساس تھا۔ وہاں بھٹکے ہوئے قافلے کسی رہنما کے جویا ہوسکتے تھے۔ بالخصوص شام میں عیسائی اور یہودی مذاہب کے پیشوا جب اپنے گردوپیش سے مایوس ہوتے تھے۔ تو ان کی نگاہیں فلسطین کی وادیوں میں اُس نجات دہندہ کو تلاش کرتی تھیں جس کی آمد کی بشارت اُن کے آسمانی صحیفوں میں موجود تھی۔ اگر وہ تاریکی میں بھٹک رہے تھے تو انہیں کسی روشنی کا انتظار تھا۔ اگر وہ جبر واستبداد کی چکی میں پس رہے تھے تو انہیں عدل و انصاف اور رحم و کرم کی طلب تھی۔ لیکن عرب کا ضمیر اُس روشنی سے محروم ہوچکا تھا جو اچھائی اور برائی میں تمیز کرسکتی ہے۔ انہیں اپنے اندوہناک ماضی پر فخر تھا، وہ اپنے حال کی پستیوں پر مغرور تھے۔ اُن کے مقدر کی ظلمتوں کو کسی روشنی کی احتیاج نہ تھی وہ جس ڈگر پر چل رہے تھے اُسی پر چلتے رہنا چاہتے تھے۔ کوئی نیا راستہ جس پر اُن کے اسلاف کے نشان قدم موجود نہ تھے اُن کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ کوئی برائی جو انہیں ورثے میں ملی تھی قابل نفرت نہ تھی۔ اور کوئی نیکی جسے اُن کے آبائو اجداد ٹھکرا چکے تھے اُن کے نزدیک قابل التفات نہ تھی۔ اُن کا وجود زندگی کی ہر سعادت کی نفی کرتا تھا۔ وہ اپنے ظلمت کدے کو اس صبح کی روشنی سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے جس کے انتظار میں امن و سکون کے جویائوں کی نگاہیں پتھرا گئی تھیں۔ لیکن یہی وہ ظلمت کدہ تھا جو روشنی کے جویائوں کی نگاہوں کا مرکز بننے والا تھا۔ یہی وہ بنجر اور سنگلاخ زمین تھی جسے قدرت نے اپنے انعامات کی بارش کے لیے منتخب کیا تھا۔ اور یہی وہ اُفق تھا جس کی بھیانک تاریکیاں، آفتاب رسالتؐ کی ضیا پاشیوں کی اولین مستحق سمجھی گئی تھیں یہ داستان فرزندان آدم کی تاریخ کے اُس دور سے تعلق رکھتی ہے جب مکہ میں ایک نئی صبح کی روشنی نے تاریک رات کے مسافروں کو چونکا دیا تھا۔
باب ۳
ایک دن یثرب کے یہودیوں کا ایک بااثر سردار کعب بن اشرف کھجوروں کے باغ سے گھرے ہوئے اپنے قلعہ نما مکان سے نمودار ہوا، وہ شمعون اور اُس کے خاندان کے آٹھ آدمی جو کھجوروں کی چھائوں تلے، چٹائیوں پر بیٹھے اُس کا انتظار کررہے تھے اُسے دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔
کعب نے شمعون سے پوچھا۔ ’’ہبیرہ ابھی تک نہیں آیا؟‘‘
شمعون نے جواب دیا۔ ’’جناب میرے غلام نے اُسے آپ کا پیغام پہنچادیا تھا اور اُس نے بہت جلد آنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ وہ ایک بدمزاج آدمی ہے۔ آپ ذرا سختی سے بات کریں۔ ان لوگوں کی یہ جرأت نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے مقروض ہو کر ہمی کو آنکھیں دکھائیں۔ پچھلے مہینے میں اُس کے پاس گیا تھا تو وہ لڑنے مرنے کو تیار ہوگیا تھا‘‘۔
پانچ عرب، باغ سے مکان کی طرف آنے والے راستے پر نمودار ہوئے اور کعب نے اُن کی طرف اشارہ کہتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو! وہ آرہا ہے۔ تمہیں اُس سے بات کرتے ہوئے ذرا تدبر سے کام لینا چاہیے۔ اوس اور خزرج کو ایک طویل جنگ نے تھکا دیا ہے اور اُن کے کئی سرکردہ لوگ درپدہ مصالحت کے لیے کوشاں ہیں۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ اگر اُن کی لڑائی ختم ہوگئی تو وہ کسی دن ہمارے خلاف متحد ہوجائیں گے، ہمیں کسی فریق کو بھی اس قدر آرزردہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مایوسی اور بے بسی کی حالت میں اپنے دشمن سے مصالحت کرنے پر آمادہ ہوجائے‘‘۔
ہبیرہ اور اُس کے ساتھیوں کو قریب آتے دیکھ کر یہودی خاموش ہوگئے۔ ہبیرہ کی ڈاڑھی کے نصف بال سفید ہوچکے تھے تاہم اُس کے بھاری جسم اور بارعب چہرے سے تندرستی اور توانائی مترشح تھی۔ اُس کا دایاں بازو کہنی کے اوپر سے کٹا ہوا تھا اور پیشانی اور بائیں گال پر پرانے زخموں کے نشان تھے۔ اُس کے بائیں ہاتھ میں ایک مضبوط لاٹھی تھی۔ باقی چار افراد جن میں سے دو کی عمر پندرہ اور اٹھارہ برس کے درمیان معلوم ہوتی تھی اور دوہبیرہ کے ہم عمر تھے، تلواروں سے مسلح تھے۔
یہ لوگ کعب کے اشارے سے یہودیوں کے قریب بیٹھ گئے۔ اور کعب نے اُن کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا ’’ہبیرہ میں حیران ہوں کہ تم امن کے دنوں میں بھی مسلح آدمیوں کے پہرے میں گھر سے باہر نکلتے ہو‘‘۔
ہبیرہ نے جواب دیا ’’میرا خیال ہے کہ خالی ہاتھوں کے مقابلے میں تلواریں امن کی بہتر ضمانت ہوسکتی ہیں؟‘‘
ایک یہودی نے کہا ’’احتیاط بُری چیز نہیں، پرسوں بنو خزرج کے تین آدمی ہتھیار بند شہر میں پھر رہے تھے‘‘۔
کعب نے کہا ’’ہبیرہ: شمعون کو شکایت ہے کہ تم نے اُس سے بدعہدی کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم آپس میں تصفیہ کرلو‘‘۔
ہبیرہ کا چہرہ غصے سے تمتما اُٹھا، اُس نے قہر آلود نگاہوں سے شمعون کی طرف دیکھا اور کہا ’’میں نے اس کے ساتھ کوئی بدعہدی نہیں کی‘‘۔
شمعون نے کہا ’’جناب اس نے میرا قرض ادا کرنے کی بجائے اپنے گھوڑے کہیں باہر بھیج دیئے ہیں‘‘۔
ہبیرہ نے شمعون کے بدلے کعب کی طرف متوجہ ہو کر کہا ’’جناب میں نے اس کا قرض ادا کرنے سے انکار نہیں کیا۔ صرف چند ماہ کی مہلت مانگی تھی‘‘۔
شمعون نے کہا ’’اگر تم اپنے گھوڑے دوسروں کے ہاتھ بیچنا چاہو تو میں تمہیں مہلت کیوں دوں، میں اُس دن کا انتظار کیوں کروں جب تم اپنا باغ، جانور اور گھر کا تمام اثاثہ بیچ کر کہیں بھاگ جائو‘‘۔
ہبیرہ خون کا گھونٹ پی کر رہ گیا اور کعب نے فوری مداخلت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کہا ’’شمعون تمہیں ایک معزز آدمی سے اس طرح بات نہیں کرنا چاہیے۔ میں ہبیرہ کو جانتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ تمہارا ایک ایک درم ادا کردے گا‘‘۔
ہبیرہ نے شکایت کے لہجے میں کہا ’’میں نے جو رقم اس سے لی تھی اُس سے تین گنا سود ادا کرچکا تھا۔ اور یہ کہتا تھا کہ اگر میں اسے اپنے آٹھ بہترین گھوڑے دے دوں تو بھی صرف سود کی بقایا رقم ہی پوری ہوچکے گی۔ اور میں یہ چاہتا تھا کہ اس کا پورا حساب چکا دیا جائے، پچھلے دنوں شام میں گھوڑوں کی بہت مانگ تھی اس لیے میں نے گھوڑے وہاں بھیج دیئے تھے‘‘۔
کعب نے کہا ’’اگر تمہارا یہ خیال تھا کہ شمعون تمہارے گھوڑوں کی قیمت کم لگاتا ہے تو یہاں کسی اور کے ہاتھ فروخت کردیئے ہوتے‘‘۔
ہبیرہ نے کہا ’’اگر وہ تمام گھوڑے میرے اپنے ہوتے تو میں شاید یہی کرتا۔ لیکن اُن میں میرا بھتیجا عاصم بھی حصہ دار تھا۔ اور وہ انہیں یہاں بیچنے کی بجائے شام لے جانے پر مصر تھا، اُس کے اصرار کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں اسلحہ کی بے حد ضرورت تھی۔ عاصم شام میں گھوڑے بیچنے کے بعد تلواریں خرید کر لائے گا۔ اور ہم یہاں اپنی ضرورت سے زائد تلواریں اپنے قبیلے کے لوگوں کے ہاتھ تگنی قیمت پر فروخت کرسکیں گے۔ پھر میرے لیے شمعون کا قرضہ اتارنا مشکل نہ ہوگا۔ شمعون مجھ پر بدعہدی کا الزام لگاتا ہے لیکن آپ اس سے پوچھیے کیا اس نے ہمارے خاندان کے آدمیوں سے بیس تلواریں مہیا کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد ہمیں دھوکا نہیں دیا اور وہ تلواریں ہمارے دشمنوں کے ہاتھ فروخت نہیں کیں؟‘‘
شمعون نے کہا ’’جب قبیلہ خزرج کے لوگ مجھے زیادہ قیمت دیتے تھے تو میں تم سے سودا کیوں کرتا؟‘‘
ہبیرہ نے کہا ’’پھر تمہیں یہ شکایت کیوں ہے کہ میں نے اپنے گھوڑے سستے داموں تمہارے ہاتھ فروخت کیوں نہیں کیے؟‘‘
شمعون نے جواب دیا ’’اس لیے کہ تم میرے مقروض ہو‘‘
ہبیرہ نے طیش میں آکر کہا ’’تمہاری تمام دولت ہمارے خون اور پسینے سے نچوڑی ہوئی ہے اور اب تم ہمیں مقروض ہونے کا طعنہ دیتے ہو؟‘‘
کعب نے کہا ’’دیکھو! جھگڑنے سے کوئی فائدہ نہیں، میں نے تمہیں اس لیے بلایا ہے کہ تمہارا تصفیہ کرادیا جائے‘‘۔
ہبیرہ نے کہا ’’آپ جو کہیں میں ماننے کو تیار ہوں، لیکن شمعون کو مجھ سے بدکلامی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ میں نے آج تک اس سے کوئی بدعہدی نہیں کی لیکن اس نے ہمیشہ میری مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے مجھ سے پہلے اس نے میرے بھائی کو قرض دیتے وقت جو شرائط منوائی تھیں وہ انتہائی تکلیف وہ تھیں لیکن ہم نے مجبوری کی حالت میں سب کچھ برداشت کیا۔ میرے بھائی کو اپنا نصف باغ اور چشمے سے اپنے حصے کا نصف پانی اس کے پاس رہن رکھنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ یہ پانی رہن شدہ باغ کی آبیاری کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا، لیکن جب میرا بھائی قرضے کی نصف سے زائد رقم ادا کرچکا تو اس کی نیت میں فتور آگیا اور اس نے پانی اپنے لیے باغ کو دینا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مزید تین سال گزرنے کے بعد جب میرے بھائی نے پوری رقم ادا کرکے اپنا باغ چھڑایا تو اُس کے بیشتر درخت سوکھ چکے تھے‘‘۔
شمعون نے کہا ’’لیکن تم یہ بات بھول گئے ہو کہ تمہارے بھائی نے اپنے ایک بیٹے کو بھی میرے پاس رہن رکھا تھا اور ہمارا معاہدہ یہ تھا کہ قرضے کا آخری درم ادا ہونے تک وہ میرے پاس رہے گا‘‘۔
ہبیرہ نے کہا ’’اگر تم اُسے اپنے پاس نہیں رکھ سکے تو اس میں میرا یا میرے بھائی کا کیا قصور تھا؟ کیا یہ درست نہیں کہ جب وہ تمہاری بدسلوکی سے تنگ آکر گھر بھاگ آیا تھا تو ہم اُسے پکڑ کر تمہارے پاس لے گئے تھے لیکن تم نے خود ہی اُسے اپنے پاس رکھنے سے انکار کردیا تھا؟‘‘
شمعون نے کعب سے مخاطب ہو کر کہا ’’جناب آپ ہی انصاف کریں کہ میں نے عاصم کے ساتھ کیا بدسلوکی کی تھی۔ میں نے اُسے کام کا آدمی بنانے کے لیے اُس کی تعلیم کا انتظام کیا، لیکن جب وہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہوا تو الٹا میرا دشمن بن گیا۔ اس نے تین دفعہ میرے بڑے لڑکے کو پیٹا۔ چوتھی بار میرے چھوٹے لڑکے کو ایک سرکش گھوڑے کی پیٹھ پر بٹھا کر چھوڑ دیا۔ میرے پاس بنو خزرج کے ایک معزز شخص عدی کا لڑکا عمیر بھی رہن تھا۔ عاصم کی اس سے بھی نہیں بنتی تھی۔ ایک دن اس نے عمیر بن عدی کو اتنا پیٹا کہ اس کے منہ اور ناک سے خون بہنے لگا۔ میرے نوکروں کی مداخلت سے عمیر جان چھڑا کر گھر پہنچا تو اس کے خاندان کے بوڑھے اور جوان میرے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ عاصم کو ہمارے حوالے کردو۔ یہ عاصم کی خوش قسمتی تھی کہ وہ میری پناہ میں تھا ورنہ عدی کے بیٹے سے یہ سلوک کرنے کے بعد اُس کا ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ رہنا ممکن نہ تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے ان لوگوں کو سمجھا بجھا کر رخصت کیا۔ چند دن بعد مجھے معلوم ہوا کہ ادس اور خزرج پھر کھلے میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں مجھے ڈر تھا کہ ادس، خزرج کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اس لیے میں نے نوکروں سے کہہ دیا کہ وہ عاصم کا خیال رکھیں۔ چنانچہ لڑائی سے ایک دن قبل ہم نے اُسے ایک کوٹھڑی میں بند کردیا۔ میرا قیاس درست نکلا، اس لڑائی میں بنو ادس کا بہت نقصان ہوا۔ ہبیرہ کا ایک بیٹا اور اس کے بھائی کے دو بیٹے مارے گئے اور میری وجہ سے عاصم کی جان بچ گئی، لیکن اُس نے مجھے احساس کا بدلہ یہ دیا کہ جب اُس کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولا گیا تو وہ باہر نکلتے ہی مجھ پر ٹوٹ پڑا یہ دیکھیے‘‘! شمعون نے اپنا منہ کھول کر دانتوں پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا ’’میرے تین دانت اب بھی ہلتے ہیں‘‘۔
ہبیرہ نے فخریہ انداز میں کہا ’’یہ تم سے کس نے کہا تھا کہ میرا بھتیجا موت سے ڈرتا ہے۔ تم تو بنو خزرج کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ لڑائی کے دن تم نے ہمارے ایک شیر کو باندھ رکھا تھا۔ تمہیں اس بات کا دُکھ ہے کہ اُس نے عمیر بن عدی کو پیٹ ڈالا تھا لیکن تم نے یہ کیوں نہ سوچا کہ آگ اور پانی ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ پھر تمہارے بیٹوں کے دماغ میں یہ خیال کیسے پیدا ہوا کہ وہ میرے بھتیجے سے افضل تھے۔ ہم نے تم سے قرضہ لیا تھا، بھیک نہیں مانگی تھی‘‘۔