وہ بولی: ’’اپنے بچوں کی خاطر دی گئی قربانیاں میرا رب دیکھ رہا ہے جو انھیں ہرگز رائیگاں نہیں جانے دے گا، دنیا والے مجھے اِس دنیا میں گھر نہ بسانے کے طعنے ضرور دے سکتے ہیں، مگر مجھے اپنے مالکِ کائنات پر کامل یقین ہے، جنت میں ایک محل میرا منتظر ہوگا، کیوں کہ میں نے مصائب کے دوران کیے جانے والے صبر، اور بے ضمیر لوگوں کی جانب سے برسائے جانے والے طنزکے تیروں کو آزمائش سمجھ کر زبان سے اپنے رب کا شکر بجا لانا شعار بنائے رکھا، اپنے ساتھ کیے گئے ہر ظلم اور زیادتی کو اپنے رب کے حضور اس کی عدالت میں رقم کرکے مجھے اب کوئی فکر نہیں، وہ جو ستّر مائوں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے اس میں اُس کی مصلحت ہی کارفرما ہوگی۔‘‘
یہ الفاظ ہیں انتیس سالہ عالیہ کے، جو اپنے تین بچوں کو اکیلے پال رہی ہیں۔ عالیہ کی شادی کو پانچ سال کا عرصہ ہوا مگر کہتی ہیں ’’لگتا ہے گویا ان پانچ سال میں پانچ عشرے گزار دیے ہوں۔‘‘
ہمارے معاشرے میں اکیلی ماں کو بے شمار مشکلات درپیش ہیں، خاص طور پر ایسی ماں جسے اُس کے بچوں کے باپ نے چھوڑ دیا ہو اور طلاق بھی نہ دے۔ ہمارے معاشرے میں بیوہ کے ساتھ ہمدردی بھی کی جاتی ہے اور اس کے یتیم بچوں پر دستِ شفقت بھی رکھا جاتا ہے، مگر طلاق یافتہ یا شوہر کی جانب سے حق تلفی کا شکار عورت سچی ہونے کے باوجود معاشرتی ستم کا نشانہ بنتی ہے۔ خوب صورت، سلیقہ مند اور نیک سیرت ہونے کے باوجود اسے گھر نہ بسائے جانے کا ذمہ دار ٹھیرایا جاتا ہے، حقائق جانے بغیر مشکوک سمجھا جاتا ہے۔
’’اکیلی ماں‘‘ سے مراد ہے جذباتی، جسمانی اور معاشی تینوں محاذ پر تنہا مقابلہ کرکے اپنے بچوں کو پروان چڑھانے والی۔ کوئی بھی عورت یہ سوچ کر شادی نہیں کرتی کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ وہ طلاق یافتہ کہلا کر اکیلے اپنی اولاد کی پرورش کرے گی۔ اس اکیلی ماں کو نوکری پر رکھنے والے یہ سوچ کر ریجیکٹ کردیتے ہیں کہ یہ عورت ماں اور باپ دونوں کے فرائض اکیلے نبھا رہی ہے، گھر پر اس کے بچے اکیلے اس کا انتظار کررہے ہوں گے اور سارے مسائل اسے اکیلے ہی حل کرنے ہیں جو شاید کبھی ختم ہی نہیں ہوں گے، اور اس وجہ سے وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے گی۔
’’میں چوبیس سال کی تھی اور وہ چالیس سال کے۔ عمر کے اس فرق کو میرے گھر والوں نے اس لیے نظرانداز کردیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بیرون ملک برسرروزگار تھے۔ کراچی کی ایک معروف انجینئرنگ یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد امریکا سے ایم ایس کیا ہوا تھا۔ میرے پاس ڈاکٹر آف فارمیسی کی ڈگری تھی اور ایک اچھی فارماسوٹیکل کمپنی میں جاب کررہی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہم امریکا شفٹ ہوگئے۔ میرے شوہر کی اچھی تنخواہ تھی مگر انھوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں بھی ملازمت کروں۔ میں شرعی پردہ کرتی تھی۔ بالآخر ایک میڈیکل اسٹور پر نوکری مل گئی جس کا مالک مسلم تھا اور انھیں میرے پردے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اپنی آدھی سے زیادہ تنخواہ میرے شوہر پاکستان بھیج دیتے اور گھرکے اخراجات کے لیے میری تنخواہ خود رکھ لیتے، کہتے کہ یہاں پر مرد عورت سب برابر ہیں، گھر کا کرایہ، گروسری سب کے خرچ میں تم شیئر کروگی۔
مجھے نہ امریکا میں رہنے کا شوق تھا نہ ہی مردوں کی برابری کرنے والی مغربی عورت بننے کی خواہش تھی۔ میں نے کہا میں ایک مشرقی عورت ہوں، میں نے گھر میں رہ کر خاندان کی تشکیل کرنے کا ارادہ کرکے شادی کا فیصلہ کیا تھا، میں آپ کے لیے کھانا بناتی ہوں، گھر کے کام کرتی ہوں، شوہرکے حقوق پورے کرتی ہوں، آپ کے ساتھ وفادار اور مخلص ہوں، اور اب میں آنے والی اولاد کی بہتر صحت و تربیت کے لیے گھر میں رہنا چاہتی ہوں۔ مگر اُن کاکہنا تھا کہ تم کون سا انوکھا کام کررہی ہو! یہاں پر عورتوںکے بچے بھی ہیں اور وہ نوکری بھی کرتی ہیں۔
میں نے بہت مشکل سے وہ وقت گزرا اور بالآخر بیٹی کی پیدائش کے بعد نوکری چھوڑ دی۔ میرے شوہر کی تنخواہ ہزاروں ڈالر تھی مگر بیوی بیٹی کے لیے چند ڈالر بھی نہ تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ میری بہنوں نے مجھے اس شرط پر شادی کی اجازت دی تھی کہ شادی کے بعد تم اپنا خرچا خود اٹھائوگی، اسی لیے میں نے ایک پڑھی لکھی نوکری کرنے والی لڑکی کا انتخاب کیا، مگر تم نے شادی کے بعد نوکری چھوڑ دی، اور دوسری شرط یہ کہ تم میری بہنوں کے ساتھ گھر میں نہیں رہوگی۔ حالانکہ وہ گھر میرے شوہر نے اپنی کمائی سے بنایا ہے۔
بیٹی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے میرے شوہر نے تجویز دی کہ تم کھانا بہت اچھا پکاتی ہو، ایسا کرو آرڈر پر لوگوں کا کھانا بنادیا کرو، چند ڈالرز ہی آجائیں گے، ویسے بھی تمہیں گھریلو مشرقی عورت بننا ہے۔ پھر میں نے اپنی معصوم بچی کے ساتھ کام شروع کیا۔ بہت مشکل ہوتی تھی، اکیلے سارا دن کام کرنا، بچی کی دیکھ بھال کرنا اور گھر کے دیگر کام بھی کرنا، رات کو جاگنا۔ مگر کچھ تو کرنا تھا، مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔ پھر اللہ نے ایک ساتھ دو بیٹوں کی نعمت سے نوازا، مگر میرے شوہر نے خوشی کا اظہار نہ کیا اور سسرال والوں نے تبصرہ کیا کہ شادی کے دوسال میں تین بچے وہ بھی امریکا میں، کتنا مہنگا ہے وہاں اولاد پالنا۔ کیوں کہ میرے شوہر کی کمائی سے ان کی بہنوں کی اولاد پل رہی تھی اس لیے بھائی کی اولاد کے پیدا ہونے کی انھیں کوئی خوشی نہ تھی۔ شوہر نے کہا میں نے پڑھی لکھی، نوکری کرنے والی لڑکی سے اس لیے شادی کی تھی کہ وہ میرا بوجھ ہلکا کرے گی، لیکن تم نے تو میری ذمے داریوں میں اضافہ کردیا ہے۔ مجھے تمہیں یہاں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، تم واپس پاکستان چلی جائو اپنی ماں کے گھر، مجھے بیوی کے رشتے کی کوئی خاص ضرورت نہیں، تم سے پہلے بھی میرا گزارا ہورہا تھا، آئندہ بھی کرلوں گا۔
جس انسان کو حرام اور مکروہ طریقے سے اپنی خواہشات پوری کرنے کی لت لگی ہو، اُسے جائز اور حلال راس نہیں آتا۔ جن نوجوانوں کی خواہش کے باوجود صحیح عمر میں شادی نہ کی جائے وہ بری عادتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود پورن سائٹ کا کاروبار ایسے ہی افراد کی وجہ سے چمکتا ہے۔ آنکھوں سے شروع ہونے والا یہ چسکا گناہِ کبیرہ پر جاکر انجام کو پہنچتا ہے۔ اس گناہ میں وہ والدین برابر کے شریک ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی تربیت میں کوتاہی برتتے ہیں اور ٹھیک عمر میں بچوں کی شادی نہیں کرتے، اور کبھی بہنوں کی شادیوں کے انتظار میں بھائیوں کو بھی غیر شادی شدہ رہنا پڑتا ہے۔
اسے بچپن سے یہ گھٹی پلائی گئی تھی کہ بیوی تو دوسری بھی آسکتی ہے، ماں بہنیں نہیں۔ میں نے اپنے شوہر کو راہِ راست پر لانے کی بہت کوششیں کیں لیکن ناکام رہی، بالآخر تھک ہار کر علیحدگی اختیار کرلی اور اپنے بچوں کی ماں اور باپ دونوں کے فرائض خوش اسلوبی سے نبھائے۔
پاکستان آکر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری مل گئی، اور الحمدللہ اب اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں۔ سنگل مدرزکے لیے ایک ادارہ قائم کیا ہے جہاں ان کی معاشی مدد اور اخلاقی تربیت کی جاتی ہے کہ ماں کا مقام رب نے کتنا بلند رکھا ہے، اس کے قدموں کے نیچے جنت کیوں ہے، زندگی کے کسی بھی موڑ پر ماں ہمت ہار دے تو بچے برباد ہوجاتے ہیں۔ ماں مضبوط و مستحکم بنے، چاہے وہ اکیلی ہی کیوں نہ ہو۔
میرے شوہر کہتے ہیں: مجھے معلوم ہے میرے بچے ایک قابل ماں کی زیرتربیت پروان چڑھ رہے ہیں اور مجھے یقین ہے تم مجھے معاف کردوگی جب بڑھاپے میں مجھے تمہاری اور بچوں کی ضرورت ہوگی، کیوںکہ تم ایک نیک اور مشرقی عورت ہو۔
جو مرد ساری دنیا کی عورتوں کو دیکھ چکے ہوتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ انھیں ایسی شریکِ حیات ملے جس کی ایک جھلک بھی کسی نامحرم نے نہ دیکھی ہو۔ میرے شوہر نے بھی یہی سوچ کر میرا انتخاب کیا تھا، مگر بدقسمتی سے مجھے ایسا شوہر نصیب ہوا جو ایک تابعدار بیٹا اور ذمے دار بھائی تو تھا مگر مخلص شوہر اور شفیق باپ نہ بن سکا، اور اپنی بہنوں کے دبائو میں آکر اپنے بیوی بچوں کی حق تلفی کرتا رہا، جس کی ایک بہن نے آئیڈیل کی تلاش میں اپنے آنے والے رشتے ٹھکرا کر عمر گزار دی اور بھائی کی شادی شدہ زندگی کو اپنی حسرتوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ دوسری بہن نے اپنی اولاد کو بھائی کی کمائی سے جوان کرکے اپنے شوہر کو نکما بنا دیا، بھائی کے بیوی بچوں کو بے گھر کرکے گھر پر اپنا قبضہ قائم رکھا۔
مگر یہ سب ظلم ڈھانے والا مرد بھی مظلوم ہوتا ہے، وہ اپنی ماں، بہنوں اور حالات کی وجہ سے اچھا بیٹا اور بھائی تو بن جاتا ہے مگر محبت کرنے والا شوہر اور ذمے دار باپ نہیں بن پاتا۔ پاکستان کے قانون میں یتیم بچوں اور والد کے لاپتا ہونے والوں کی شناختی دستاویزات کے لیے تو قانون موجود ہے، لیکن ایسے بچے، جن کے والد حیات ہوں اور تعاون ناپید، ان کے لیے قانون خاموش ہے۔‘‘
تطہیر کہتی ہیں: ’’والد کا نام میری دستاویزات میں تو موجود ہے لیکن والد کا میری زندگی میں کوئی کردار نہیں‘‘۔ تطہیر فاطمہ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں اپنا نام ’تطہیر بنتِ پاکستان‘ لکھا ہے، اور یہی دراصل ان کا مطالبہ بھی ہے کہ وہ 22 برس کی عمر میں اپنی دستاویزات میں ولدیت کے خانے سے اپنے والد شاہد ایوب کا نام ہٹا دینا چاہتی ہیں۔
تطیہر کہتی ہیں: ’’مجھے میٹرک سے لے کر اب تک تعلیمی اسناد اور سفری دستاویزات میں والد کی جانب سے کسی قسم کا تعاون فراہم نہیں کیا گیا۔ میں انھیں والد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہوں۔ وہ جس نے کبھی میرا نام نہیں لیا۔ ان کے خاندان کے شجرے میں میرا نام ہی موجود نہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں باپ کہاں ہے؟ کیا یہی تمھاری ماں ہے۔ میں نے سماجی سطح پر ذلت سہی ہے۔‘‘
میڈیا سے گفتگو میں تطہیر نے بتایا کہ ’’آج میں جس مقام پر ہوں، اپنی ماں کی وجہ سے ہوں۔ میں نے آج تک اپنے والد کو نہیں دیکھا تھا، اور پہلی بار آج عدالت میں بھی میں نے ان کی جانب دیکھنا نہیں چاہا۔ یہ شاید پہلی اور آخری ملاقات ہو۔‘‘
تطہیر اور ان کی والدہ کو شکایت ہے کہ جب میٹرک میں انھیں فارم ’ب‘ بنانے کی ضرورت تھی تو والد نے انکار کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب 2009ء میں میٹرک کرتے وقت والد کو خود فون کیا تو والد نے صاف انکار کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ ’’پہلے اپنی والدہ کے خلاف تھانے میں درخواست دو کہ وہ اچھی خاتون نہیں تب میں تمھارے لیے سوچوں گا۔‘‘
سپریم کورٹ میں اس کیس کی دوسری سماعت کے موقع پر تین رکنی بینچ کے روبرو اپنے والدین کے ہمراہ کھڑی تطہیر فاطمہ نے روتے ہوئے یہی مطالبہ پھر سے دہرایا۔
یہ ایک فیملی کورٹ کا منظر دکھائی دے رہا تھا جس میں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو اس صورت حال کا ذمے دار قرار دے رہے تھے۔ شاہد ایوب کے بقول جب 1998ء میں ان کی فہمیدہ سے علیحدگی ہوئی تھی تو پشاور میں خاندان کے جرگے نے ان سے کہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔ بعد میں ایک آدھ بار کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ انھوں نے عدالت کی اس سرزنش پر کہ ’’کیا آپ نے کبھی کسی ریاستی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ ملنے کا سبب بنے‘‘ بتایا ’’جی میری کوتاہی ہے، میں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔‘‘
ان جیسے باپ کی کوتاہیوں کو شاید عدالت درگزر کردے، لیکن کیا روزِ محشر اللہ کی عدالت میں ان کی بخشش ہوپائے گی؟