ہر روز ایک نئی خبر… دورِ پُرفتن میں فتنوں کا بارش کے قطروں کی طرح ٹپکنا دلِ مضطرب کو محسوس ہوتا ہے۔
ہمارے ساتھی پروفیسر صاحب کے سانحہ ارتحال کی خبر نے دلِ پُرملال کو مزید اضمحلال میں مبتلا کردیا۔ جیسے ہی پروفیسر صاحب کی وفات کا پیغام موصول ہوا، گروپ میں دعاؤں اور تعزیتی پیغامات کی ایک لمبی فہرست شروع ہوگئی۔ آخر دو سو کے قریب گروپ ممبرز تھے، سبھی اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ دل میں ایک احساس سا جاگا کہ کون کہتا ہے نفسا نفسی کا زمانہ ہے! یہاں تو ہر شخص احساس اور جذبۂ ہمدردی سے معمور ہے، ہر پیغام ’’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘کا بہترین عکاس ہے۔
میرے دل سے بے ساختہ دعائیں نکلیں تمام گروپ ممبرز کے لیے کہ ایسے ہوتے ہیں ساتھی، ہر غم وفکر میں ساتھ ساتھ۔ ہم اِس جہانِ فانی سے گزر بھی گئے تو ان کی دعائیں ہم رکاب، اور باقی رہ جانے والوں کی دل جوئی بھی یہی لوگ کریں گے۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ جنازے کے مقام اور وقت کا پیغام بھی موصول ہوگیا۔ وہ دیکھ ہی رہا تھا کہ بیگم نے ہفتے کے سودے کی لسٹ تھما دی، ساتھ ہی فوری لانے کی تاکید بھی۔ میں نے انہیں گم سم سی کیفیت میں دیکھا اور دوبارہ موبائل کی طرف متوجہ ہوگیا۔
’’کیا بات ہے، آج تو کوئی کلاس ہے نہ کوئی ضروری کام، پھر کیا مصروفیت ہے جو یوں گم سم ہوگئے سودے کی لسٹ دیکھ کر!‘‘بیگم نے اپنی طرف سے مذاق کرنا چاہا۔
’’نہیں مصروفیت تو کوئی نہیں، بس ایک ہم نفس ان تمام جھمیلوں سے فرصت پاکر سکون پا گئے ہیں، اُن کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرکے ان کا آخری حق ادا کرنے جانا ہے‘‘۔ میں نے افسردگی سے تفصیل بتائی تو وہ بھی سنجیدہ ہوگئیں۔
’’چلیں چھوڑیں، سودا تو روز کا کام ہے، آتا رہے گا، آپ بتائیں کس وقت چلنا ہے، میں جلدی سے روٹیاں ڈال لوں، بچے مدرسے سے آنے ہی والے ہوں گے، ان کو کھانا دے کر بس نکلتے ہیں۔‘‘ وہ عجلت میں لسٹ پرس میں واپس ڈال کر کچن کی طرف روانہ ہوئیں۔
میں نے بے ساختہ کہا ’’ارے بیگم! آپ کا کیا کام…! نمازِ جنازہ میں مجھے شرکت کرنا ہے، آپ کو نہیں۔‘‘
وہ اسی سرعت سے پلٹیں اور بولیں’’بے شک جنازہ آپ مرد حضرات ہی پڑھیں گے، مگر میں پروفیسر صاحب کے اہلِ خانہ سے تعزیت کے لیے ساتھ جاؤں گی، کل کو ہمیں بھی تو مرنا ہے، اور ہمارے مرنے کے بعد کوئی ہمارے بچوں کے پاس نہ آیا تو کتنے تنہا ہوجائیں گے وہ، میں یہی سوچ کر جاتی ہوں کہ ہر جانے، انجانے کے گزر جانے کے بعد اس کے لیے ہم دعائے مغفرت اور اس کے لواحقین کے لیے دو بول تسلی کے بول دیں گے تو یہی سب کچھ ہمارا رب ہمیں ضرور لوٹا دے گا، اسے اپنے بندوں سے حیا آتی ہے۔ جو اس سے ڈر کر خالص اس کے لیے کوئی عمل کرتا ہے، وہ پیارا رب کئی گنا بڑھا کر لوٹاتا ہے۔ بس تیاری پکڑیں، ہم دونوں جائیں گے۔‘‘
’’مگر تمہیں اُن کے گھر میں کوئی نہیں جانتا۔‘‘ میں تذبذب کا شکار تھا۔
’’پہلا تعارف تو جہاں کہیں مسلم گھرانے میں جاؤں تو نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہے، اس کے بعد اور کسی تعارف کی ضرورت تو نہیں رہتی، مگر اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے اس کے بعد تعارف آپ کے ساتھ کا حوالہ ہے، دے دوں گی بس … اور یہ میرا مسئلہ ہے، آپ بس لے چلیں۔‘‘
وہ ٹھان بیٹھی تھیں، میں نے سوچا چلو ہے تو نیکی۔ اور دیگر ساتھیوں کے گھر والے یا ساتھی خواتین بھی تو ہوں گی، آخر ہماری یونیورسٹی کے حاضر سروس فرد تھے پروفیسر صاحب۔‘‘
بہرحال قصہ مختصر! ہم ظہر کے وقت پہنچے، میں بیگم کو فوتگی والے گھر میں چھوڑ کر جنازہ گاہ کی طرف روانہ ہوا۔ دل بہت دُکھی تھا۔ جانے والوں کے لیے دعائیں اور باقی رہ جانے والوں کی عمروں میں برکت کی فریادیں کرتے ہوئے جنازہ گاہ میں قدم رکھے۔ دو سو افراد والے گروپ میں سے دو افراد نظر آئے۔ سوچا، ہوسکتا ہے ظہر پڑھنے تک سب آجائیں۔ یہی سوچ کر نماز ادا کرکے سلام پھیرا تو چار افراد اور نظر آئے، تسلی ہوئی۔ مگر جنازہ پڑھنے کے بعد بھی ہم چھ، سات سے دس بھی نہ ہوسکے، اور بہت ساری دعائیں اور جنازہ پڑھنے کے بعد ان چھ سات ساتھیوں سے سلام دعا کرکے واپسی کی راہ لی۔ بیگم کو فون کیا، باہر نکل آئیں۔ میں نے کہا ’’جنازہ پڑھ لیا ہے، اب واپس جانا ہے۔‘‘
جیسے ہی بیگم فوتگی والے گھر سے نکلیں، ہم واپس روانہ ہوئے۔ میں نے پوچھا ’’کیسا رہا؟‘‘
’’حسبِ معمول۔ جس گھر سے کسی کا پیارا گزر گیا ہو، وہ تو اس غم میں گرفتار ہوتا ہے کہ دیواروں کو بھی گلے لگا کر رو پڑتا ہے، ہم تو انسان ہیں، بغیر کسی تعارف کے پہلے تو صرف غم بانٹا کہ وہ خواتین اس وقت صرف کندھا ڈھونڈ رہی تھیں رونے کے لیے، جن کا جان سے پیارا بھائی ہمیشہ کے لیے انہیں چھوڑ گیا تھا۔ جب روکر، تسلی دلاسوں کے بعد انہیں یاد آیا تو پوچھا۔ میں نے آپ کے حوالے سے جیسے ہی کہا کہ پروفیسر صاحب کی یونیورسٹی کے ساتھی کی بیگم ہوں تو یقین جانیں اپنے بھائی سے جڑا تعلق انہیں اتنا توانا کرگیا کہ اور زیادہ چاہت کے ساتھ، اور زیادہ تعلق کے مان کے ساتھ اپنے غم کی تفصیل بتائی۔ ویسے بھی اور تو کوئی تھا ہی نہیں ان دونوں بہنوں کے پاس، صرف دو تین عورتیں تھیں ایک پڑوسن، ایک کرایہ دارخاتون اور ایک رشتے دار خاتون، باہر ایک ماسی۔ ہم نے بہت اچھا کیا آکر، بس اللہ ہماری گواہی لکھ لے اور ہمارے مرنے پر اگر انسان میسر نہ بھی ہوئے تو وہ رب فرشتوں کو بھیج دے گا ہمارے بچوں کی داد رسی و دل جوئی کے لیے۔‘‘
وہ حسبِ معمول جذباتیت اور زود رنجی کا شکار تھیں۔ میں نے بھی حسبِ معمول اس کیفیت کو درخور اعتناء نہ جانا، مگر اُس وقت سے سوچ میں پڑا ہوا ہوں کہ دو سو کے اس گروپ میں اتنے سارے تعزیتی پیغامات کیا صرف ’’برق نامے‘‘ تھے جو برق رفتاری سے اُڑ گئے، اور عملی جنازہ، عملی تعزیت سب کچھ مفقود؟ کیا یہ ’’برقی زمانہ‘‘ احساسات کو کچل گیا؟ یا یہ احساسات پر ہی برق گرا کر انہیں سوختہ کرگیا کہ چلیں خواتین ممبرز کا تو پہنچنا مشکل ہے، حضرات کے گھروں میں بھی بیگم جیسے جذباتی لوگ کم کم ہوتے ہیں۔ (خوش قسمت افراد ہیں، وگرنہ میری طرح زندگی مشکل ہوجائے، بندہ دوسروں کے دکھوں پر بیگم کی اشک شوئی میں ہی زندگی گزار دے) مگر بیگمات کے ہمراہ نہ سہی اکیلے ہی سہی، اپنے ہر روز کے ساتھیوں کو اس آخری روز باضابطہ الوداع کہنا تو بنتا ہے ناں!