قارئین جو کہانی آپ کو سنانے جا رہی ہوں بالکل سچی ہے۔ میری شادی کا اوّلین زمانہ تھا میرے سسرال میں مشترکہ خاندانی سسٹم تھا‘ میرے سسر کے پانچ بھائی سب ایک ہی گلی میں ہی رہائش پذیر تھے۔ صدر دروازے سب کے علیحدہ تھے لیکن رہائشی حصے میں چھوٹا دروازہ بنا کر ایک دوسرے کے گھر میں داخلہ گلی کی مدد لیے بغیر ممکن تھا۔ یہ کہانی قلمبندکرنے کے لیے جس کردار نے مجبور کیا وہ میرے میاں باقر کے تایا زاد بھائی حذیفہ عرف(مونی ) ہے۔
مونی اللہ لوک تھا یعنی عقل سے محروم نشوونما اس کی اچھی ہوئی تھی قد کاٹ بھی اچھا تھا‘ جسمانی کوئی کمزوری نہ تھی سوائے اس کے کہ سماعت کچھ متاثر تھی زبان بھی مکمل نہیں اٹھتی تھی۔ چہرے پر معصومیت ایسی کہ دل پگھل جائے‘ کم از کم میرے ساتھ تو ایسے ہی ہوا۔ لیکن مجھے یہاں پر حذیفہ کے ساتھ رکھے جانے والے رویے نے دکھی کیا۔
میاں باقر کا اپنا خاندان تو مونی کو سر پر بٹھاتا تھا بلکہ اس کے وجود کو باعث برکت سمجھتے‘ خدمت کو ثواب باقاعدہ اس سے ہر اہم کام کے آغاز میں خیر کی دعا منگوائی جاتی۔ لیکن مونی کی بھابھیاں اس کے وجود سے خار کھاتیں۔ باقر کی تائی حیات نہ تھیں‘ دن رات سسر کے کان کھائے جاتے کہ مونی کو پاگل خانے داخل کروایا جائے۔ سسر نے ابتدا میں ان کی باتوں کو درخور اعتنا نہیں جانا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس تقاضے میں شدت آگئی۔ بیٹے بھی بیویوں کے ساتھ مل گئے۔
’’میرا بیٹا مجذوب ہے‘ نقصان پہنچانے والا پاگل جنونی نہیں ہے‘ میں اسے پاگل خانے کیوں بھیجوں؟ یہ غریب تمھیں کیا کہتا ہے‘ میں اپنے جیتے جی ایسا نہیں ہونے دوں گا میرے مرنے کے بعد ایسا کر لینا بلکہ اللہ سے دعا ہے کہ میرے سامنے اسے سمیٹ لیں۔‘‘ بوڑھے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے اور جھریوں زدہ چہرے پر آنسو بہنے لگے۔
جواب میں بھابھیوں کے پاس اعتراضات کی لمبی لسٹ ہوتی کہ کھاتا زیادہ ہے‘ گند پھیلاتا ہے‘ میلا رہتا ہے رال بہتی ہے۔ بڑی بھابھی یہاں تک کہہ دیتیں کہ مجھے اس سے خوف آتا ہے دیکھتا کیسے ہے توبہ توبہ۔ چھوٹی بہو کہتی کہ مجھے اس سے کراہیت آتی ہے۔
باقر کے تایا نے بھی بہوئوں کے خوب لتے لیے کہ’’ تم اسے کتنا پکا کر دیتی ہو تمھارے میاں کا نہیں کھاتا۔‘‘ اور یہ واقعی سچ تھا میری ساس‘ چچی ساس اور ان کی بہوؤیں مونی کے کھانے پینے کا خیال رکھتیں اور باقر کے تایا ریٹائرڈ فوجی تھے ان پنشن آتی تھی کسی کے محتاج نہ تھے۔ باقر اور اس کے تایا دیگر کزنز صفائی کا خیال رکھتے۔ نہلا دیتے مونی ماحول کی وجہ سے بذات خود سلجھا ہوا تھا۔ والدین نے پیار سے پالا پوسا تھا۔ مجذوب عموماً کم عقلی میں تکلیف دے جاتے ہیں لیکن اس کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ تھی بلکہ فائدے ہی فائدے تھے۔
بھائیوں کی اولادیں پالیں دن بھر گود میں رکھا جھولے دیے پیمپر تک بدلے‘ بھابھیوں کو سودا سلف لا کر دینے کی ذمہ داری اپنے سر لی‘ چھوٹے موٹے ہزار کام کر دیے۔ مجھے مونی کی بھابھیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے پر شبہ ہوا۔ یہ کوئی جاہل عورتیں نہ تھیں۔ بڑی بھابھی سرجن دوسری لیکچرر تیسری بھی ڈاکٹر لیکن ان کی سوچ اور رویے پر جہالت شرمائے۔ حذیفہ کو پاگل خانے بھیجنے میں ناکامی کے بعد معصوم کو خوب زچ کیا گیا خصوصاً بڑی بھابھی اور اس کے بچوں نے‘ جنھیں ماں سے ورثے میں جہالت ملی۔ مونی تمام تلخ رویے سمجھتا تھا‘ محمل الفاظ میں برا بھلا کہتا۔ اللہ لوک ہی تو تھا۔ بھتیجا بھتیجی کے انتہائی زچ کرنے پر نوبت یہاں تک پہنچی کہ پتھر اٹھا کر بھاگا۔ بچے مجذوب چچا کو مارتے اپنے ٹیرس سے یہ مناظر دیکھ کر میری بس ہوگئی۔ ساس کے ساتھ میں باقر کے تایا کے گھر گئی اور کہا خوف خدا کریں بھابھی مونی بھی اللہ کی تخلیق ہے‘ اس کے ہر تخلیق بے عیب ہے اسے حقیر نہ جانے‘ آپ کا رویہ بتاتا ہے کہ تعلیم آپ کے سر سے گزر گئی ہے‘ شعور کی شدید قلت ہے آپ میں‘ ذہنی جسمانی کمزوری اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ نے جسے یہ سب نعمتیں دی ہیں اس سے پکڑ بھی اتنی ہے‘ سوال بھی زیادہ کریں گے کہ ان نعمتوں کا کیا استعمال کیا اور جو آپ کے پاس ہے‘ اس میں آپ کا ذاتی کمال نہیں نعمت کم ہے تو چھوٹ بھی ہوگی اور اللہ نے جس میں کمی رکھ دی‘ قوت گویائی نہیں دی تو عقل زیادہ دے دی‘ بصارت نہیں دی تو اندازے تیز دیے‘ سماعت نہیں تو محسوسات شارپ دیے اور جسے عقل نہیں دی اس کا رب سے براہ راست واسطہ ہے۔ مونی کی بد دعا نہ لیں‘ اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ سورہ الحجرات میں ہے کہ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو نہ مذاق اڑائیں مرد مردوں کا‘ ہوسکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں مذاق اڑانے والوں سے اور نہ مذاق اڑائیں عورتیں عورتوں کا ہوسکتا ہے کہ ہوں وہ بہتر مذاق اڑانے والیوں سے۔‘‘
میں اور میری ساس مونی کو اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں جب آپ رویہ تبدیل کرنے کا سوچیں تو لے جائیے گا۔ لیکن بھابھی دل ہی دل شرمندگی کے باوجود ہونہہ کر کے رہ گئیں۔
آنے والے دنوں میں مونی کی بھابھی کے ہاں سے نو مولود کی خبر ملی خدا کا کرنا دیکھیں ڈاکٹر بھابھی کوکھ کا بھید نہ پاسکی‘ پیدا ہونے والا چوتھا بچہ اب ان کا اپنا مونی تھا اللہ لوک مونی کی طرح آسمان کی طرف دیکھتا رہتا آنکھیں ٹھہرتی نہ تھیں‘ رال بہہ رہی اور چہرے پر ایسی معصومیت جو دل پگھلا دے۔ میرے واعظ نے تو نہیں لیکن اس معصوم نے اس دفعہ مونی کی بھابھی کا دل پگھلا دیا۔