دنیا کی سب سے زیادہ معصوم اور بھولے عوام پاکستانی، جنہیں شاطر و خود غرض حکمران اپنی چکنی چپڑی باتوں سے جب چاہیں متاثر کر لیتے ہیں اور وہ صد بار ٹھوکریں کھانے کے باوجود بھی کسی چھوٹے بچے کی طرح ان کی انگلی پکڑ کر جدھر وہ چلانا چاہیں چل پڑتے ہیں۔ عوام شیخ عبدالحفیظ کو وزارت خزانہ کے عہدے سے ہٹانے پر خوشیاں منا رہے ہیں اور دل میں یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ آنے والا وزیر اب راتوں رات پاکستان کی معیشت کو ترقی کے پہیے لگا دے گا۔ روپیہ کھوئی ہوئی قدر حاصل کر لے گا۔ ڈالر کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ لیکن اس سیدھے سادے معصوم عوام کو کیا خبر کہ یہ وزیر شیخ صاحب کوئی ناکام واپس نہیں جا رہے بلکہ وہ آئی ایم ایف کی طرف سے لگایا گیا مشن پورا کر کے جا رہا ہے۔ وہ پاکستان کی معیشت تباہ کر کے پاکستان کا قومی بینک آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں تھما کر جارہا ہے اور آنے والے کے بارے میں بھی کیا جانیں؟ آئی ایم ایف، ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ہے جو کہ بین الاقوامی یہودی سود خوروں کا ادارہ ہے۔ پاکستان کی سالمیت کے درپے صرف بھارت ہی نہیں بلکہ یہودی بھی پاکستان کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوششیں انہوں نے کئی سال پہلے ہی شروع کر دی تھیں۔ اس کا انہوں نے باقاعدہ منصوبہ بنایا۔ اسٹیٹ بینک کے ایک عرصے سے تعینات ہونے والے گورنروں کی چھان بین کر کے دیکھ لیں وہ امپورٹ کردہ، آئی ایم ایف سے وابستہ ان کے چمچے ہی نکلیں گے۔ جس کی بہترین مثال گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر ہے۔ جو تقریباً 20 سال سے آئی ایم ایف سے وابستہ ہے اور اس کے ایجنڈے کو ہی پایۂ تکمیل تک پہنچا رہا ہے۔ جو پہلے آئی ایم ایف کی طرف سے مصر میں تعینات تھا۔ مصر میں اپنا مشن پورا کیا۔ اس کی معاشی حالت تباہ و برباد کر کے رُخ مشن پاکستان کی طرف موڑ لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسٹیٹ بینک یہودیوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔
بینک دولت پاکستان یا اسٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان کا مرکزی بینک ہے۔ یکم جولائی 1948ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کا افتتاح کیا۔ یہ بینک 1973ء تک نجی رہا۔ یکم جنوری 1974ء کو اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسے قومی ملکیت میں لے لیا۔ ان کے اس اقدام سے پاکستانی معیشت کو حکومتی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ لیکن 21 جنوری 1997ء میں ملک معراج خالد کی نگراں حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خود مختار کردیا۔ تب یہ حکومت پاکستان کے ماتحت نہ رہا بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ بن گیا۔ لیکن اس کے گورنر کی تعیناتی وفاقی حکومت کے حکم سے ہی کی جاتی رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ قرضہ دینے کی مد میں آئی ایم ایف، اس بینک کا گورنر اور وزیر خزانہ کی صورت میں اپنے ایجنٹ پاکستان کی معاشی اسٹیبلشمنٹ بھی شامل کرتا رہا۔ ہماری موجودہ حکومت نے چند ٹکوں کے قرضے کی خاطر اپنے اسٹیٹ بینک کو یہودیوں کے پاس گروی رکھوا دیا ہے جس نے پہلی شرط ہی یہ عائد کی ہے کہ بینک حکومت پاکستان کو کوئی قرضہ نہیں دے گا۔ اس بینک پر آئی ایم ایف کی ہی اجارہ داری ہوگی۔ گورنر انہی کی مرضی کا ہوگا۔ سودی لین دین کو خوب فروغ حاصل ہوگا۔ بینک منی لانڈرنگ اور مجرمانہ گھپلوں کی صورت میں پاکستانی قانون کی گرفت سے باہر ہوگا۔ سادہ الفاظ میں یوں کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی معیشت اپنے دشمنوں کے ہاتھ میں پکڑا دی ہے۔
ہمیں ریاست مدینہ کا چکمہ دینے والی موجودہ حکومت نے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے تیس ہزار ارب روپے سے زائد قرض لے کر ہمیں مفلوک الحال اور مقروض ترین قوم بنا دیا ہے۔
یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے اور بھی بہت کچھ ہے۔ کیا ہمارے لیے ابھی خوابِ غفلت سے بیداری کا وقت نہیں آیا؟ جس نظریہ کی حفاظت کے لیے ہمارے لاکھوں لوگوں نے اپنی جان و مال، عزت وآبرو کی قربانیاں دیں۔ آج غیروں کے ہاتھوں میں اپنی املاک دے کر اس نظریے کا شیرازہ بکھیرا جا رہا ہے۔ ملز، فیکٹریاں، موٹروے، ائرپورٹ، گروی رکھوا کر سکون نہیں ملا تھا جو اسٹیٹ بینک کو بھی گروی رکھوا دیا۔
اسٹیٹ بینک غیروں کے ہاتھوں میں دینا، ایسا کوئی غیرت مند قوم گوارہ نہیں کرتی۔ پاکستان معدنیات کی دولت سے مالا مال ملک ہے۔ گیس، کوئلہ، تیل، سونا، شمار کرو تو نعمتیں گنی نہ جائیں۔ زرعی لحاظ سے سونا اُگلتی زمینوں والا ملک، صرف نااہل اور اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے والی قیادت اس کا مقدر رہی۔ جس کی وجہ سے یہ ملک معاشی تنزلی کا ہی شکار رہا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہر نعمت سے مالا مال ملک کی برآمدات سالانہ صرف 3 ارب 75 کروڑ ڈالر ہیں جب کہ درآمدات 800 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہیں۔ در آمدات میں 80 فیصد ایسی چیزیں آتی ہیں جن کا ہمارے ملک میں بہترین متبادل موجود ہے اور ان کی ہمیں کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اگر ہم ان غیر ضروری درآمدات کو ختم کر دیں تو شاید ہمیں قرضہ لینے کی نوبت ہی نہ آئے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لیکن کسان کی ترقی کے لیے اقدامات کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ وہ تو سدا اپنی کرسیوں کے چکر میں رہے یا پھر اپنی تجوریاں بھرنے اور احباب و دوستوں کو نوازنے میں۔ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی زراعت سے فائدہ ہی نہ اٹھا سکے۔ ہمارا کسان اس ترقی یافتہ دور میں بھی غریب اور مفلوک الحال ہی ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور اپنے وطن کی سالمیت کے خلاف کچھ بھی قبول نہ کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔