قیام پاکستان سے قبل ترقی پسند تحریک نے زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا۔ اس تحریک کا فلسفہ یہ تھا کہ مسائل کے خلاف آواز بلند کی جائے اور شاعری کا غیر تحریر شدہ آئین بھی یہی ہے کہ ظلم و ستم کے خلاف جہاد کیا جائے‘ معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کیا جائے اور امن و سکون کو فروغ دیا جائے‘ ہندوستان میں لوگ انگریزوں سے تنگ آچکے تھے اس لیے ترقی پسند تحریک کی پزیرائی ہوئی۔ شاعروں نے زمینی حقائق پر زیادہ اشعار کہے‘ گل و بلبل کے افسانے دم توڑ گئے‘ ترقی پسند تحریک نے نظم گوئی کی طرف زیادہ زور دیا اس زمانے میں نظمیں بہت کہی گئیں لیکن فی زمانہ نظم کہنے والے کم ہو رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار فراست رضوی نے طارق جمیل کے مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو شعری نشستیں بہت کامیاب ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم زبان و ادب کی ترقی کے لیے گھریلو نشستوں کا اہتمام کریں۔ انہوں نے طارق جمیل کو خراج تحسین پیش کیا کہ وہ شعر و سخن کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ آج کی محفل راشد نور کے اعزاز میں سجائی گئی ہے جو کہ ایک قادرالکلام شاعر ہیں۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی تاجدار عادل نے کہا کہ اب صورت حال یہ ہے کہ مشاعروں سے سامعین ختم ہوتے جارہے ہیں لیکن شعر و سخن کے پروگراموں میں سامعین آتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب شاعری میں جدید لب ولہجہ سامنے آرہا ہے ادب میں نئے نئے رجحانات جنم لے رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ادب روبۂ زوال نہیں ہے۔ راشد نور نے کہا کہ وہ طارق جمیل کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے یہ محفل سجائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعرائے کرام کا طبقہ ہر معاشرے کی ضرورت ہے۔ یہ ادارہ ذہنی آسودگی فراہم کرنے کے علاوہ علم و آگہی کی ترویج و اشاعت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تحریک پاکستان میں بھی شعرائے کرام نے اپنے اشعار کے ذریعے لوگوںکو متحرک کیا اور آج بھی شعرائے کرام پاکستان کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ میزبانِ مشاعرہ طارق جمیل نے کہا کہ آج کی محفل میں مختلف الخیال لوگ موجود ہیں لیکن وہ سب شعر و سخن کے دلدادہ ہیں میں ان تمام کو خوش آمدید کہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ یہ لوگ آئندہ بھی تشریف لائیں گے۔ انہوںنے مزید کہا کہ گروہ بندی سے ادب کو نقصان ہو رہا ہے۔ کراچی کی تمام ادبی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ قلم کاروں کے حقوق کے لیے آگے آئیں‘ ہم اس کام کے لیے ان کے ساتھ ہیں‘ ہم نے زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے بزمِ شعر و سخن قائم کی ہے جس کے صدر سلطان احمد پرفیوم والا اس وقت یہاںموجود ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اردو زبان ترقی کرے۔ مشاعرے میں فراست رضوی‘ تاجدار عادل‘ راشد نور‘ رونق حیات‘ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ سخاوت علی نادر‘ واحد رازی‘ تنویر سخن‘ خالد میر‘ سہیل شہزاد‘ یاسر سعید صدیقی‘ شائق شہاب‘ عمار خاں اور یحییٰ سرور چوہان نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ مشاعرے میں امتیاز حسین‘ طاہر سلطان پروفیوم والا‘ عبید ہاشمی‘ وقار چھتری والا‘ شفیق اللہ اسماعیل‘ فاروق عرش‘ فہیم برنی‘ عدیل سلیم‘ شاہین مصور‘ امجد محمود‘ افتخار ملتانی‘ فاروق نسیم خان‘ شکیل صدیقی‘ شوکت علی‘ عمران اور کمال فاروق نے بہ طور خاص شرکت کی۔