’’پپو یار تنگ نہ کر‘‘… یہ جملہ آپ نے کسی نہ کسی بڑی گاڑی کے پیچھے لکھا ضرور دیکھا ہوگا۔ ہم نے تو ’’پپو یار تنگ نہ کر‘‘ کا عملی مظاہرہ پپو کی شادی والے روز اُس وقت دیکھا جب بارات کے ساتھ جانے کے لیے لوگ پپو کے گھر جمع ہوچکے تھے۔ ساتھ جانے والی گاڑیاں اور سارے باراتی پپو کے والد کے اشارے کے منتظر تھے تاکہ باجوں کی آواز کے ساتھ بارات کی روانگی ڈالی جائے۔ گلی میں چہل پہل بڑھتی جارہی تھی، خواتین اور بچوں سمیت ہر کسی کی تیاری مکمل تھی۔ ایک طرف بنے سنورے باراتی تھے، تو دوسری جانب پپو کی گمشدگی کا شور بلند ہونے لگا۔ ہر کوئی پپو کی تلاش میں لگ گیا۔ ظاہر ہے جس کے لیے یہ کارواں بنایا گیا تھا اُس کے بغیر اس کا چلنا ناممکن تھا۔ ہر زبان اپنا فسانہ بیان کررہی تھی۔ کوئی پپو کو لاپروا ہونے کا طعنہ دیتا، تو کوئی غیر ذمہ دار کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا۔ سارے باراتی پپو کی گمشدگی سے پریشان ہونے لگے۔ اس ساری صورتِ حال میں پپو کے والد خاصے مطمئن تھے، کسی قسم کی پریشانی کے آثار اُن کے چہرے پر نہ تھے۔ بولے: ’’کیا شور مچا رکھا ہے! پپو تیار ہونے گیا ہے، آئے گا تو بارات جائے گی‘‘۔
رات کے گیارہ بجے تک تیاری کا سن کر ہم بھی وہاں سے اسے برآمد کروانے نکل پڑے جہاں وہ گیا ہوا تھا، اور لوگوں سے پوچھتے پوچھتے اُس جگہ جاپہنچے جہاں پپو میاں کی سجاوٹ کی جارہی تھی۔ دیکھنے میں تو یہ دکان حجام کی تھی لیکن مردوں کے بیوٹی پارلر سے کم نہ تھی۔ ’ناصر بیوٹی سیلون‘ نامی اس دکان میں داخل ہوتے ہی ہمیں چہرے پر لیپ لگائے بڑے سکون سے آدھے لیٹے اور آدھے بیٹھے پپو کے دیدار ہوگئے۔ اس سے پہلے کہ ہم کوئی سوال کرتے، سیلون مالک نے یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ پپو سے بات نہ کی جائے، اس کے چہرے پر ایسا ماسک لگایا گیا ہے جس کے دوران بات کرنے سے چہرے پر جھریاں پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ سیلون مالک کی طرف سے دی جانے والی ہدایت سننے کے بعد ہم خاموشی سے بیٹھ گئے اور ساری تیاری دیکھتے رہے۔ پپو کے چہرے کو کسی ریگ مال نما چیز سے رگڑا جارہا تھا۔ ہم بھی یہ ساری کارروائی بڑی حیرت سے دیکھتے رہے۔ وقت گزرتا جارہا تھا، لوگ پپو کے انتظار میں تھے، خاصی دیر ہوچکی تھی لیکن سیلون مالک پپو کی جان چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ نئی سے نئی کریموں سے بنے مربے لگا کر پپو کے چہرے پر اس طرح مساج کیا جارہا تھا جیسے تانبے کے کسی پرانے برتن پر قلعی کی جارہی ہو۔ اس سیلون میں تقریباً ساری کرسیوں پر اسی طرح کی مشق ہوتی دیکھ کر مجھے وہ زمانہ یاد آگیا جب بال تراشنے والے کو ’نائی‘ کہا جاتا تھا۔ محلے میں نائی کی دکان پر گاہک کے بال اور ناخن تراشے جاتے۔ نائی فنِ جراحی سے بھی واقف ہوتا۔ بعض نائی بچوں کے جسم پر ہونے والے موسمی دانوں کا علاج بھی کیا کرتے تھے۔ محلے کے بزرگ صبح سویرے اٹھ کر علاقے کے نائی کی دکان پر جسے حمام بھی کہا جاتا، جا بیٹھتے۔ اخبارات کا مطالعہ ہوتا، غسل کے انتظام کے ساتھ ساتھ محلے کے مسائل پر بھی بات چیت ہوا کرتی۔ نائی ہر گھر کے افراد کو جانتا، یعنی وہ محلے کے ہر گھر کا فرد بھی ہوتا۔ شادی بیاہ و دیگر تقریبات کے دعوت نامے تقسیم کرنے کی ذمہ داری بھی نائی پر ہوتی، کیونکہ وہ لوگوں کے خاندان کو جانتا تھا، اس طرح نائی خاندانوں کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتا۔ کسی کے گھر اگر کوئی تقریب ہوتی تو نائی ہی باورچی کے فرائض انجام دیتا۔ یوں بال تراشنے سے لے کر شادی بیاہ میں کھانا پکانے تک ساری ذمے داری نائی کے سپرد ہوتی۔ وقت گزرتا گیا، نائی ’ہیر ڈریسر‘ اور نائی کی دکان ’بیوٹی سیلون‘ بن گئی۔
خیر بات ہورہی تھی پپو کی تیاری کی۔ کریموں اور لوشنوں کی تہ در تہ لگا کر تیار کیا جانے والا پپو، سیلون سے ’’پپی‘‘ بناکر ہمارے حوالے کردیا گیا۔ دلہنوں سے بھی بڑھ کر مردوں کے بنائو سنگھار نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ شاید میرے لیے چہروں پر مساج یا مختلف کریموں کا استعمال حیرت کا باعث ہو، لیکن فی زمانہ اگر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو دیکھا جائے تو یہ عام سی بات لگتی ہے، یعنی معاشرے سے الگ دکھائی دینے کے چکر میں ہمارے ملک کا ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی طریقے سے گورا ہونے کی دوڑ میں شامل ہوتا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں رنگت کو ترجیح دینا اور اس پر تنقید کرنا عام سی بات ہے، لہٰذا ہمارے ملک میں بھی اسی نفسیات نے اپنا کام دکھایا، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہاں آلودگی، ٹریفک کا دھواں اور دھول مٹی ہو، جہاں ہوا میں اضافی نمکیات ہونے کے باعث لوہا کالا پڑ جائے، وہاں کے رہنے والوں کو اپنے رنگ اور جلد کی حفاظت کی زیادہ فکر لاحق ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے ملک کے نوجوانوں کا گورا ہونے کی دوڑ میں شامل ہونا فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسی کریموں اور لوشنوں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا، عوام ان کریموں کو اپنی اہم ضرورت سمجھنے لگے، یہاں تک کہ ان کے استعمال کے بغیر گھر سے نکلنے کو معیوب سمجھا جانے لگا۔ رنگ گورا کرنے کے لیے نوجوان نہ صرف کریموں کا استعمال کرنے لگے بلکہ اسی نام سے فروخت ہوتے صابن اور مختلف بلیچ، فیس واش اور میڈیسن طرز پر بنائی جانے والی گولیاں اور انجکشن بھی استعمال کیے جانے لگے۔ پھر کیا تھا، ہر دوسری لوکل کمپنی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے میدان میں آگئی۔ اکثر کمپنیوں نے ’’ایک ہفتے میں شرطیہ رنگ گورا‘‘ کا نعرہ لگاکر عوام میں انتہائی خطرناک کیمیکل فروخت کرنا شروع کردیا۔ حیرت کی بات تو یہ کہ ہمارے نوجوان گورا ہونے کے لیے اس قدر نفسیاتی ہوچکے ہیں کہ انہیں اس کی کوئی خبر نہیں کہ وہ کیا اور کس قدر خطرناک کام کیے جارہے ہیں، کریموں میں شامل مضر صحت کیمیکل جِلدی مساموں کے ذریعے اپنے جسم میں اتارے جارہے ہیں۔ ویسے تو جلد کی حفاظت اور اس کا خیال رکھنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہمارے یہاں ان جنونی نوجوانوں نے ایسی کریموں کا استعمال شروع کررکھا ہے جو اُن کی جلد کو وقتی طور پر تو گورا کردیتی ہیں لیکن آگے چل کر یہی ان کی جلد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جلد کا رنگ تبدیل کرنا درست ہے، نہ ہی خوبصورتی کی علامت۔ بلکہ میرے نزدیک جلد کی حفاظت اور قدرتی رنگت کو برقرار رکھنا زیادہ ضروری ہے، جو کہ قدرتی طور پر غذائوں کے ذریعے ہی ہونا چاہیے۔ اگر اس کے لیے کسی مصنوعی طریقے سے کام لیا جائے گا تو لازمی طور پر نقصان ہی ہوگا۔
گورے رنگ کے پیچھے بھاگنے والوں کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر بھیانک کھیل کھیل رہے ہیں جس کے وقت گزرنے کے ساتھ انہیں نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ ہمارے ملک کے نوجوان مرد وخواتین جانے انجانے میں اپنی جلد پر جن کریموں کا استعمال کررہے ہیں اس سے متعلق ایک رپورٹ منظرعام پر آئی ہے، رپورٹ کے مطابق ایسی زیادہ تر کریموں میں پارے (Mercury) کا استعمال کیا جاتا ہے جو انسانی جسم کے لیے انتہائی مضر کیمیکل ہے۔ یہ پارہ انسانی جلد کی پہلی تہ کو جلا دیتا ہے جس سے جلد گوری لگنے لگتی ہے۔ جس کریم میں اس کیمیکل کی زیادہ مقدار ہوگی وہ اتنی ہی جلدی گورا کردے گی۔ یہ پارہ اس قدر خطرناک اور نقصان دہ ہے کہ اگر کسی حاملہ عورت کی جلد کے ذریعے جسم میں داخل ہوجائے تو نہ صرف ماں، بلکہ بچے کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے ایسی تمام کریموں پر پابندی لگادی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بازاروں میں فروخت ہونے والی ڈبہ پیک اشیاء پر اجزا کی تفصیل درج ہوتی ہے لیکن فروخت ہوتی کریموں پر ایسی کوئی چیز درج نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ ہم کیا اور کس طرح کے کیمیکل استعمال کررہے ہیں۔ جو کمپنیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی مصنوعات میں کسی قسم کا کیمیکل شامل نہیں کیا جاتا اُن کے بارے میں بھی یہ رپورٹ منظرعام پر آچکی ہے کہ وہ ہائیڈرو کوئن اور اسٹیرائیڈ استعمال کرتی ہیں جس سے چہرے کی جلد پتلی ہوجاتی ہے اور چہرے پر دانے، مہاسے ہوتے ہیں۔ اور آج کل تو دودھ، بادام اور انڈے سے بنے ہوئے صابن کے اشتہار دیکھ کر سمجھ نہیں آتا کہ ان سے نہانا ہے یا انہیں کھانا ہے!
جبکہ بعض کمپنیاں گلوناتھائن کا استعمال کرتی ہیں۔یہ کیمیکل انسانی جسم میں خودبخود پیدا ہوتا ہے جس میں پارہ جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔گلوناتھائن مختلف سبزیوں اور پھلوں میں بھی پایا جاتا ہے۔اس کا کام جگر کی صفائی اور انسانی جسم سے فاضل مادوں کا اخراج کرنا ہوتا ہے۔ یوں تو یہ انتہائی مفید چیز ہے لیکن کسی بھی چیز کا غلط استعمال اور زیادتی نقصان دہ ہوا کرتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گلوناتھائن کسی زمانے میں جان بچانے والی ادویہ میں ڈالا جاتا تھا جسے اب رنگ گورا کرنے والی کریموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔گلی محلّوں میں فروخت ہوتی کریموں کو ’فارمولا‘ نام سے فروخت کیا جاتا ہے جس میں گاڑی کی بیٹری کا پانی ڈالا جاتا ہے۔ بیٹری میں ڈالا جانے والا پانی تیزاب ہوتا ہے جس سے انسانی جلد کی تہ کسی آلو کی طرح چھل جاتی ہے،جو جِلدی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ گلی محلّوں میں کریمیں فروخت کرنے والے،معاشرے میں ’فارمولا‘ کے نام پر بیماریاں سپلائی کررہے ہیں۔
گورا ہونے کی خواہش کرنے والوں کو یہ بات کون بتائے کہ خوبصورتی اُن کی رنگت میں نہیں بلکہ شخصیت میں ہوا کرتی ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی صحت کے اصولوں کے مطابق گزاریں تو خوبصورت نظر آنے لگیں گے اور معاشرہ بھی آپ کی اس حقیقی صحت و خوبصورتی کی تعریف کرے گا۔اس کے لیے خوراک، دودھ، دہی،پھلوں اور کچی سبزیوں کا استعمال بڑھانا ہوگا۔صاف پانی کے استعمال کے ساتھ صبح سویرے اٹھ کر سیر و تفریح اور رات کی پوری نیند لینی ہوگی۔رنگت خدا کی دین ہے،اس کی حفاظت کی جائے۔کیونکہ تازہ دم چہرے ہی جاذبِ نظر ہوتے ہیں۔
بات ہورہی تھی پپو کی شادی کی، اور کہاں سے کہاں نکل آئی۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ رات گئے بارات کی واپسی ہوئی۔ گرمی اور بہتے پسینے کے باعث پپو کے چہرے پر لگا استر اتر گیا، یعنی حقیقی رنگت نمایاں ہونے لگی۔ یوں پپو ایک مرتبہ پھر کالا کٹو دکھائی دینے لگا۔