سود قسط نمبر 38

ہاشا وکلا‘ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ مولانا نے بالقصد اسلام کی غلط نمائندگی کی ہے‘ میں یقین رکھتا ہوں کہ انہوں نے قانونِ اسلامی کو جیسا کچھ سمجھا ہے غایت درجہ دیانت اور نیک نیتی کے ساتھ ویسا ہی ظاہر فرما دیا ہے۔ مگر مجھے اعتراض دراصل ان کے مفہوم اور ان کی تعبیر ہی پر ہے۔ میں نے قانونِ اسلامی کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی روشنی میں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ خاص ان مسائل کی حد تک جو اوپر مذکور ہوئے ہیں‘ مولانا نے شریعت کے اصول اور احکام کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھا ہے۔ اس غلط فہمی کے دو وجوہ قرین قیاس ہیں۔
اولاً ائمہ مجتہدین نے جس زمانے میں سلطنتِ اسلامی کی دستوری قانون (Constitutional) اور بین الاقوامی معاملات کے متعلق کتاب و سنت کی ہدایات اور خود اپنے اجتہاد سے یہ احکام مدوّن کیے تھے‘ اس زمانے میں فقہاء کی حیثیت محض اصحابِ درس و تدریس ہی کی نہ تھی بلکہ وہی سلطنت کے قانونی مشیر اور عدالتوں کے صدر نشین بھی تھے۔ رات دن اسلامی سلطنت میں نئے نئے دستوری اور بین الاقوامی مسائل پیش آتے تھے اور ان میں انہی بزرگوں کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ ہمسایہ قوموں سے جنگ و صلح کے معاملات ہوتے رہتے تھے‘ اسلامی سلطنتوں کی رعایات کے درمیان معاملات اور تعلقات کی گونا گوں صورتیں پیش آتی تھی اور ان سے جو قانونی مسائل پیدا ہوتے تھے ان کا تصفیہ کرنے والے یہی حضرات تھے۔ یہ لوگ اپنے فیصلوں اور تجویزوں میں جو قانونی اصطلاحات و عبارات استعمال کرتے تھے‘ ان کے مفہومات کا تعین لفظی تشریحات پر منحصر نہ تھا بلکہ ان کی اصلی شرح وہ واقعی حالات تھے جن پر یہ اصطلاحات و عبارات منطبق ہوتی تھیں۔ پس اگر کسی اصطلاح یا عبارت میں کوئی ابہام رہ جاتا یا ایک چیز کے مختلف مدارج پر ایک ہی اصطلاح استعمال کی جاتی اور ظاہر الفاظ میں فرقِ مدارج پر دلالت کرنے والی کوئی چیز نہ ہوتی‘ یا ایک وسیع مفہوم پر ایک لفظ بولاجاتا اور صرف موقع و محل کے لحاظ سے اس کے مختلف مفہومات میں تمیز ہوتی‘ تو اس سے عملاً قانون کے انطباق اور استعمال میں کوئی قباحت واقع ہونے کا خطرہ نہ ہوتا۔ نہ یہ اندیشہ تھا کہ کوئی قانون داں شخص کسی حکم کو محض الفاظ کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے بالکل مختلف صورتِ حال پر چسپاں کر دے گا۔ اس لیے کہ اس وقت اسلامی قانون کی اصطلاحت اور مخصوص قانونی عبارات کی حیثیت رائج الوقت سکوں کی سی تھی‘ عملی دنیا میں ان کا چلن تھا۔ ان کے مفہومات کو سمجھنے اور ٹھیک موقع پر استعمال کرنے اور ہر ایک کی صحیح حد معلوم کرنے میں کوئی دقت نہ تھی۔ ہر قانون داں شخص کو شب روز ان حالات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ دوچار ہونا پڑتا تھا جن میں یہ زبان برتی جاتی تھی۔ مگر اب ایک مدت سے وہ صورتِ حال مفقود ہے۔ دستوری مسائل اور بین الاقوامی معاملات سے بالفعل علما کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ اسلامی سلطنتیں مٹ گئیں اور جو سلطنتیں باقی ہیں ان میں بھی یہ مسائل علمائے شریعت سے متعلق نہیں ہیں۔ عملی دنیا میں اسلامی قانون کی اصطلاحات وعبارات کا چلن بھی مدتوں سے بند ہو چکا ہے۔ اب یہ پرانے تاریخی سکے ہیں جن کی قیمت کا وہ حال نہیں کہ رواج کی وجہ سے بازار میں ہر آدمی کے لیے وہ ایک جانی پہچانی چیز ہو بلکہ ان کی پرانی قدر رائج معلوم کرنے کے لیے پرانے ریکارڈ کی چھان بین کرنا اور زمانۂ حال کے عملی برتائو قیاس کرکے اس زمانے کے واقعی حالات کو سمجھنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک مسائل سیاسی و دستوری کا تعلق ہے‘ فقہ اسلامی کے احکام کو سمجھنا‘ مسائلِ نکاح و وراثت وغیرہ کو سمجھنے کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے خصوصاً جہاں ہماری کتب فقہ میں عبارات مبہم رہ گئی ہیں یا اصطلاحات میں توسع پایا جاتا ہے وہاں علما کے لیے قانون کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس کی صحیح تعبیر کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ اب ان کے صرف الفاظ ہی الفاظ رہ گئے ہیں‘ کتابوں کے متون بھی لفظی ہیں اور ان کی شرع بھی لفظی۔
دوسری وجہ جس کی طرف خود مولانا نے بھی اشارہ کر دیا ہے‘ یہ ہے کہ گزشتہ صدی ڈیڑھ صدی سے مسلمانوں پر جو معاشی تباہی مسلط ہوگئی ہے اور جس طرح دیکھتے ہی دیکھتے ان کی کروڑوں اور اربوں روپے کی جائدادیں کوڑیوں کے مول نکلی ہیں اور جس طرح مسلمانوں کے بڑے بڑے خوش حال گھرانے روٹیوں کو محتاج ہو گئے ہیں‘ اس کو دیکھ کر ہر درد مند مسلمان کی طرح مولانا کا دل بھی دکھا ہے اور انہوں نے غایت درجہ دل سوزی کے ساتھ کوشش کی ہے کہ شریعت میں اس مصیبت کا کوئی حل تلاش کریں۔ اس جذبہ کے اثر سے اکثر مقامات پر ان کا قلم اعتدال اور فقیہانہ احتیاط سے ہٹ گیا ہے۔ مثلاً ان کا یہ ارشاد کہ ہندوستان میں سود نہ لینا گناہ ہے یا یہ بیان کہ عقودِ فاسدہ کی ممانعت کے جملہ احکام صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات تک محدود ہیں۔ جہاں تک مسلمانانِ ہند کی موجودہ روح فرسا حالات کا تعلق ہے کون مسلمان ایسا ہوگا جس کا دل ان کو دیکھ کر نہ دُکھتا ہو اور کون اس کا خواہش مند نہ ہوگا کہ ان مصائب سے مسلمان نجات پائیں۔ اس باب میں ہمارے اور ان کے درمیان ذرّہ برابر بھی اختلاف نہیں۔ مگر یہ ماننے سےقطعی انکار کرتا ہو کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی تباہی کسی حیثیت سے بھی‘ بالواسطہ یا بلاواسطہ سود نہ کھانے کی وجہ سے ہے اور اس حالت کا بدلنا سود کی تحلیل پر موقوف ہے‘ بلکہ میں یہ بھی تسلیم نہیں کرتا کہ تحریم سودکسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ میں بھی مسلمانوں کی معاشی ترقی میں مانع ہے جو شخص یمحق اﷲ الربوٰ ویربی الصدقات پر ایمان رکھتا ہو اور جو اس ارشاد ربانی کو معاش اور معاد دونوں میں ایک اٹل حقیقت سمجھتا ہو‘ اس کو کبھی اس اس قسم کے شبہات میں مبتلا نہ ہونا چاہیے۔ اگر مولانا غور فرمائیں گے توان پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ مسلمانوں کی معاشی تباہی کا اصلی سبب سود نہ کھانا نہیں ہے بلکہ سود کھلانا اور ادائے زکوٰۃ سے جی چرانا اور اسلامی نظم معیشت کو بالکل معطل کر دینا ہے۔ جن گناہوں کی سزا مسلمانوں کو مل رہی ہے وہ دراصل یہی ہیں۔ اگروہ ان گناہوں پر قائم رہے اور اس پر سود خواری کا اضافہ اور ہوگیا تو ممکن ہے کہ چند افراد قوم پر مالی آماس چڑھ جائے اور اس سے چند سیدھے سادے مسلمان دھوکا کھا جائیں لیکن درحقیقت اس سے بحیثیت مجموعی قوم کی معاشی حالت میں کوئی اصلاح نہ ہوگی اور دوسری طرف مسلمانوں کی اخلاقی حالت اور ان کی باہمی الفت و موانست اور ان کے تعاطف و تراحم اور تعاون و تناصر میں شدید انحطاط رونما ہوگا یہاں تک کہ ان کی قومیت مضمحل ہو جائے گی۔
آپ سود کا نام’’پھائو‘‘ رکھ دیجیے یا اسے مائدۃ من السماء کہہ کر پکارے‘ اس کی حقیقت اور فطری خاصیت میں بال برابر بھی تغیر واقع نہ ہوگا۔ سود اپنی عین فطرت کے لحاظ سے زکوٰۃ کی ضد ہے اور اس نفسیاتی حقیقت میں کسی ملک کے دارالحرب یا دارالالسلام ہونے سے کوئی تفاوت نہیں ہوتا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی معاشی زندگی میں یہ دونوں جمع ہو جائیں۔ ایک وہ ذہنیت ہے جس کو روپیہ گننے اور گن گن کر سبھالنے اور ہفتوں اور مہینوں کے حساب سے بڑھانے اور اس کو بڑھوتری کا حساب لگانے میں مزا آتا ہے۔ دوسری وہ ذہنیت ہے جس کو قوتِ بازو سے کمانے اور کما کر کھانے اور کھلانے اور راہِ خدا پر لٹا دینے میں مزا آتا ہے۔ کیا کوئی عاقل یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ دونوں ذہنیتیں ایک ہی دل و دماغ میں جمع ہو سکیں گی؟ یا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمان کو سود پر روپیہ لگانے اور یوماً فیوماً اس کے نشوونما پر نظر رکھنے کا چسکا لگ جائے گا تو اس کے بعد بھی اس کی جیب سے زکوٰۃ و صدقات کے لیے ایک پیسہ نکل سکے گا؟ کیا اس کے بعد بھی کوئی مسلمان کسی مسلمان کو قرض حسن دینا گوارا کرے گا؟ کیا اس کے بعد مسلمانوں کی حالت بھی اُس قوم کی سی نہ ہوجائے گی جس کے متعلق قرآن میں کہا گیا ہے ثم قست قلو بکم من بعد ذلک فہی کالحجارۃ اواشد قسو اور ولتجدنھم احرص الناس علی الحیوۃ چند قارون اور شائلاک پیدا کرنے کے لیے پوری قوم آخر کیوں خودکشی کرے اور اس خودکشی کو جائز ثابت کرنے کے لیے خدا اور رسولﷺ کے قانون کی غلط تاویل کیوں کی جائے اور امام اعظم ابو حنیفہؒ النعمان جیسے بزرگ کو اس ذمہ داری میں کیوں شریک کیا جائے۔
پھر میں کہتا ہوں کہ دنیا میں صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جو تیرہ سو برس سے نظام سرمایہ داری کی مخالفت پر قائم ہے اور جس نے عملاً اس فاسد نظام کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ اس قوم کو جو چیز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نظامِ سرمایہ داری کی عداوت پر قائم رکھنے والی اور اس میں جذب ہونے سے بچانے والی ہے وہ زکوٰۃ کی فرضیت اور سود کی تحریم ہی ہے۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ اور نشلسٹ سب سرمایہ دار سے سمجھوتہ کر سکتے ہیں‘ مگرجب تک یہ دو زبردست رکاوٹیں قائم ہیں‘ مسلمان کبھی اس سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں نظام سرمایہ داری میں جذب ہو گئیں جن کے مذہب نے سود سے منع کیا تھا‘ مگر مسلمان تیرہ صدیوں سے اس کے مقابلے میں جما ہوا ہے۔ اب کہ خود دنیا والوں میں بھی بصارت پیدا ہو رہی ہے اور وہ اس نظام کو مٹانے کے لیے فوج در فوج جمع ہو رہے ہیں‘ یہ کیسی بدبختی ہوگی کہ مسلمان خود میدانِ مقابلہ سے ہٹ جائے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے قلعہ کے مستحکم برجوں کو مسمار کرکے نظامِ سرمایہ داری کی طرف مصالحت کا ہاتھ بڑھانے لگے۔
اس ضروری تمہید کے بعد اب ہم اصل قانونی بحث کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
کیا عقود فاسدہ صرف مسلمانوں کے درمیان ممنوع ہیں:
مولانا کے پہلے دعوے کی بنا یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کسب مال کے ناجائز ذرائع سے روگا گیا ہے وہاں ’’بینکم‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہے کہ مسلمان آپس میں عقود فاسدہ پر معاملات نہ کیا کریں چنانچہ ارشاد ہے کہ یا ایھا الذین امنوا الا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم (النساء:29) اب یہ ظاہر ہے کہ سود بھی کسبِ مال کے ناجائز طریقوں سے ایک طریقہ ہی ہے۔ لہٰذا قرآن میں احل اﷲ البیع و حرم الربوٰ فرمایا گیا ہے‘ یہ بھی اگرچہ ظاہر الفاظ کے لحاظ سے عام حکم ہے‘ مگر جس اصطلاع کی فرع ہے اس کے ساتھ بالتبع اس کو بھی صرف مسلمان کے باہمی معاملات تک ہی محدود سمجھنا چاہیے۔ اس کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو محکول نے نبی ﷺسے روایت کی ہے لا ربوٰ بین المسلم و الحربی مسلمان اور حربی کافر کے درمیان تفاضل کے ساتھ جو لین دین ہو اس پر لفظ ’’سود‘‘ کا اطلاق ہی نہ ہوگا۔ بالفاظِ دیگر لاربوٰ کے معنی یہ ہیں کہ غیر ذمی کافر سے جو سود لیا جائے وہ سود ہی نہیں‘ پھر وہ حرام کیسے ہوا؟
یہ مولانا کے استدلال کا خلاصہ ہے۔ اس میں پہلی اور بنیادی غلطی یہ ہے کہ قرآن کے مقاصد سے قطع نظر کرکے صرف ظاہر الفاظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ قران کا عام اندازِ بیان یہ ہے کہ وہ اخلاق اور معاملات کے متعلق جتنی ہدایتیں دیتا ہے ان میں صرف اہل ایمان کو مخاطب کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ تم آپس میں ایسا کیا کرو یا نہ کیا کرو۔ اس طرز بیان میں کچھ دوسری حکمتیں ہیں جن کے ذکر کا یہ موقع نہیں یہاںصرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اس قسم کے انداز بیان میں اخلاق اور معاملات کے متعلق جتنے احکام اللہ تعالیٰ نے دیے ہیں ان کو فقہائے امت میں سے کسی نے بھی صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات تک محدود قرار نہیں دیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان اور مسلمان کے درمیان جو افعال حرام ہیں مسلمان اور کافر کے درمیان وہی حلال یا مستحب ہیں۔ اگر ایسا ہو تو درحقیقت اسلامی اخلاقیات اور اسلامی قانون تمدن کی جڑی ہی کٹ جائے۔

حصہ