فائزہ جلدی جلدی چائے کے گھونٹ لینے لگی۔ منزہ بیگم نے ہمیشہ کی طرح ڈانٹتے ہوئے کہا ’’فائزہ! ناشتا ختم کرکے جائو، کوئی بات نہیں تھوڑا لیٹ بھی ہوجائو تو۔‘‘
’’نہیں ماما! پوائنٹ نکل گیا تو آپ کی بیٹی کو یونیورسٹی جانے کے لیے کئی بسوں کے دھکے کھانے پڑیں گے۔‘‘ فائزہ کندھے پر بیگ لٹکائے گیٹ کی طرف جاتے ہوئے بولی۔
منزہ بیگم اپنے میاں سے کہنے لگیں جو ناشتا مکمل کرکے اٹھنے ہی والے تھے: ’’سنیے! میں آپ سے کئی دنوں سے بات کرنا چاہ رہی تھی فائزہ کے حوالے سے۔‘‘
ظاہر صاحب چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولے: ’’ہاں کہو، میں سن رہا ہوں۔‘‘
منزہ بیگم دکھ سے کہنے لگیں: ’’آج طاہرہ باجی کا فون آیا تھا، سمجھ میں نہیں آرہا کیا جواب دوںِ؟ بہت دنوں سے ٹال رہی ہوں۔ فائزہ سے جب بھی بات کی اُس کا رویہ بہت عجیب سا ہوتا ہے، پتا نہیں کیا چاہتی ہے یہ لڑکی!‘‘
’’ہاں منزہ بیگم! فائزہ بہت سنجیدہ رہنے لگی ہے، میں بھی اس کی طرف سے بہت پریشان ہوں۔ نہ جانے کیا وجہ ہے پہلے کی طرح ہنستی کھیلتی بھی نہیں۔ یونیورسٹی سے واپس آکر زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی وقت گزارتی ہے، پہلے کتنی فرمائشیں کرتی تھی کہ ابو جی شام کو آتے ہوئے سموسے لے آیئے گا، چکن رول لے آیئے گا۔ کبھی دہی بھلے، تو کبھی چنا چاٹ کی فرمائش کرتی تھی۔ اور اب تو صرف ناشتے کی ٹیبل پر ہی ملاقات ہوتی ہے۔‘‘ ظاہر صاحب نے منزہ بیگم کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
فائزہ یونیورسٹی سے آگئی تھی، آج بھی وہ سیدھا اپنے کمرے میں جانے لگی کہ ایمان آپی (فائزہ کی شادی شدہ بڑی بہن) زور سے بولیں: ’’السلام علیکم فائزہ جانی… کیسی ہے میری پیاری سی چھوٹی گڑیا…‘‘
’’وعلیکم السلام آپی جان… کیسی ہیں آپ، کب آئیں؟‘‘ فائزہ پیچھے مڑتے ہوئے بھاگتے ہوئے آئی اور ایمان کے گلے لگ گئی۔
’’جناب! ہم تو دوپہر ایک بجے سے آپ کا انتظار کررہے ہیں، اور ایک آپ ہیں کہ آتے آتے پانچ بجا دیے۔‘‘ ایمان نے فائزہ کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔
’’بس آپی یونیورسٹی سے آتے آتے اتنا ہی ٹائم ہوجاتا ہے۔ آپ سنائیں شانی اور مہر کہاں ہیں؟‘‘ فائزہ نے اپنے چہیتے بھانجے اور بھانجی کا پوچھا۔
’’جی جناب…! یہاں آتے ہوئے انہیں اسکول سے ساتھ لے آئی تھی، دونوں ماموںکے ساتھ کھیل رہے ہیں۔‘‘
’’چلو کمرے میں فریش ہوجائو، میں چائے لے کر آتی ہوں۔ آج ہم بیٹھ کر خوب باتیں کریں گے۔‘‘ ایمان آپی بولیں۔
’’فائزہ! کیا بات ہے، تم آج کل اتنی پریشان کیوں ہو؟ کس بات نے تمہاری ہنسی چرا لی؟ کون سی چیز تمہیں اتنا بے چین کیے ہوئے ہے؟‘‘ ایمان چائے پیتے ہوئے بولی۔
’’میری عجیب سی کیفیت ہے، بس مجھے شادی نہیں کرنی… مجھے مرد پر اعتبار نہیں آتا، مجھے کسی کی غلامی نہیں کرنی، مجھے ڈر لگتا ہے مرد ذات سے۔‘‘ فائزہ روتے ہوئے کہنے لگی۔
’’یہ کیسی باتیں کررہی ہو فائزہ؟ تم ایسا کیوں سوچتی ہو؟ کون کہتا ہے غلامی کرنے کو…! ظاہرہ خالہ بہت اچھی ہیں، اور شامیر بھی بہت اچھا لڑکا ہے، میں کئی سال سے انہیں جانتی ہوں۔‘‘ ایمان، فائزہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولی۔
’’میں بہت پریشان ہوں، یونیورسٹی میں بھی ہر طرف یہ سننے کو ملتا ہے کہ فلاں کو طلاق ہوگئی، فلاں کو شوہر نے مارا، فلاں کو سسرال والوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر جلا دیا، فلاں عورت نے خودکشی کرلی۔ بس میں نے سوچ لیا ہے، میں پڑھوں گی، ملازمت کروں گی، اپنا سہارا خود بنوں گی۔ مجھے کسی شوہر نامی رشتے کی ضرورت نہیں جس پر بھروسہ نہ کیا جاسکے۔‘‘ فائزہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
’’ہوتا ہے، اس دنیا میں سب کچھ ہوتا ہے، لیکن سب کے ساتھ ایسا سب کچھ ہو یہ بھی ضروری تو نہیں۔‘‘ ایمان، فائزہ کے قریب ہوتے ہوئے بولی۔
’’آپی! کتنی عجیب بات ہے کہ اللہ کا حکم ہے مرد قوام ہے، عورت کو عزت اور تحفظ دینے کا ذمہ دار ہے۔ دوسری طرف عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے، پھر بھی گھر کیوں خراب ہوتے ہیں؟ رشتوں میں توازن کیوں نہیں ہے؟ اللہ اور شوہر کے حقوق کے درمیان کیا پیمانہ ہو کہ خدا بھی راضی ہوجائے اور مجازی خدا بھی… سب کچھ کرتی ہے عورت اپنے شوہر کے لیے… پھر بھی وہ خوش نہیں ہوتا… وہ عورت کو ہر طرح سے اپنے سانچے میں ڈھال لینا چاہتا ہے… اپنے حساب سے چلانا چاہتا ہے… یہاں تک کہ عورت کی اپنا اَنا، خودداری مٹی میں مل جاتی ہے، پھر بھی وہ اس گھر کو جس میں اسے نکاح کرکے لاتا ہے کہتا ہے کہ اس گھر کا مالک میں ہوں… وہ عورت کو طلاق کی دھمکی دیتا ہے، ڈراتا ہے، ایک بے نام سے خوف میں مبتلا رکھتا ہے۔ اور عورت اس خوف میں کبھی تو گھر بسا لیتی ہے اور کبھی اس خوف میں مبتلا ہوکر سب کچھ گنوا بیٹھتی ہے۔ آپی! مجھے پتا ہے آپ کس طرح گزارا کررہی ہیں، پھر بھی عادل بھائی کا دل نرم نہیں ہوتا، وہ اپنے خول میں اس طرح بند ہیں کہ آپ کی کوئی قربانی انہیں نظر نہیں آتی۔‘‘ فائزہ سب کچھ کہہ کر دھاڑیں مار کر رونے لگی…بہت دیر تک وہ روتی رہی۔
اس کی باتیں سن کر ایمان بھی روتی رہی۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایمان آنسو صاف کرتے ہوئے بولی: ’’عورت بھی بہت عجیب ہے، جسے سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ ہزار عورتوںکی الگ الگ ہزار کہانیاں ہیں۔ وہ تم کہہ رہی تھیں نا فائزہ کہ کوئی ایسا پیمانہ ہو کہ خدا بھی راضی ہو اور مجازی خدا بھی… تو میری بات غور سے سنو، ہر انسان کو راضی کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں… بالکل بھی نہیں، ہمارے اندر اتنی استطاعت ہے ہی نہیں۔ یہ کام تو صرف اللہ کرسکتا ہے۔ سب رشتے اللہ کے بنائے ہوئے ہیں، دنیا میں کوئی کام کسی کی مرضی سے نہیں ہوتا… سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے، لیکن ایک دعا بہت کچھ بدل دیتی ہے۔ ہاں عادل تو میرا دل نہیں جیت سکے، میرے دل میں بھی اُن کے سخت رویّے کی وجہ سے ملال ہے۔ عقل مند عورت وہی ہے جو اپنی تدبیر اور دعا سے حالات بدلنے کی کوشش کرتی ہے، پھر اللہ اس کی محنت، ایثار اور اخلاص کو دیکھتا ہے اور اس کی دعائیں قبول کرلیتا ہے۔ ہر رشتے کا مقام اور مرتبہ خدا نے بتادیا ہے، اور ہمیں ویسے ہی ہر رشتے کو نبھانا ہے جیسے خدا نے طریقہ بتایا ہے… تم خود ہی تو کہہ رہی تھیں کہ عورت پر سب سے زیادہ حق اُس کے شوہر کا ہوتا ہے… ماں، باپ اور بھائی بہن کا رشتہ خونیں ہوتا ہے لیکن شوہر کا رشتہ قانونی ہوتا ہے، اس کو نبھانے پر جنت کا وعدہ ہے۔ لیکن عورت کو یہ حق بھی اللہ نے دیا ہے کہ اگر شوہر ظلم اور ناانصافی کرے تو وہ اس بندھن سے باہر بھی آسکتی ہے اور اللہ کی حدود کے آگے شوہر کی اطاعت نہیں۔‘‘ ایمان موبائل فون پر ٹائم دیکھتے ہوئے بولی۔
’’تو پھر کیسے طے کیا جائے کہ یہ اللہ کی حد ہے اور اس بات سے شوہر راضی ہوتا ہے؟ کیوں عورت اس کی محبت میں پاگل ہوکر خدا کو بھول جاتی ہے؟‘‘فائزہ نے آخری سوال پوچھا۔
ایمان کہنے لگی: ’’جو عورت شوہر جیسے رشتے کو خدا کے بتائے ہوئے طریقے سے نبھاتی ہے وہ کبھی شوہر کی محبت میں خدا کو نہیں بھولتی، بلکہ وہ رشتوں میں محبت گھولتی ہی اللہ کے لیے ہے۔ وہ عورت ہر کام کرنے سے پہلے سوچتی ہے کہ اللہ کی رضا کس میں ہے؟ شوہر کی اطاعت کرنے کا حکم ہے، اس میں اپنی اَنا کو مارنا پڑتا ہے، اپنی پسند کو چھوڑنا پڑتا ہے، تاکہ اپنا گھر بس جائے اور اللہ بھی راضی ہوجائے۔ اوکے فائزہ! عادل نے مجھے مغرب سے پہلے گھر آنے کا کہا تھا، اس لیے اب مجھے جانا ہوگا۔‘‘
فائزہ ایمان کے گلے لگتے ہوئے روہانسی ہوگئی۔
’’اللہ حافظ… اورہاں سنو ،ظاہرہ آنٹی کو کیا جواب دوں… کہہ دوں کہ نکاح کی تاریخ لینے آجائیں؟‘‘ ایمان شرارتی لہجے میں بولی، اور فائزہ شرما کر مسکرانے لگی۔