؎ فٹ بال پاکستان میں بے شک تباہی کا شکار ہو لیکن باقی دنیا میں مقبولیت کے اعتبار سے اول نمبر پر کہی جاتی ہے ۔اس کھیل میں ارجنٹائن، برازیل، پرتگال، فرانس ،ا سپین، سوئیڈن ، کولمبیا ، نیدر لینڈ ، اٹلی ، جرمنی نمایاں ممالک کے نام ہیںجہاں سے دنیا کے بہترین فٹ بالر نکلے۔کرسٹیانو رونالڈو، پرتگال کاایک مایہ ناز فٹ بالر ہے جس کے بلاشبہ دنیا بھر میں لاکھوں چاہنے والے ہیں، سوشل میڈیا پر وہ دنیا کا پہلا مقبول تریناانسان کہلاتا ہے جس کے 511ملین مطلب 50کروڑ سے زائد فالوورز ہیں۔ان میں 148ملین صرف فیس بک پر جبکہ 271ملین انسٹاگرام پر ہیں جبکہ ٹوئٹر پر کوئی 92ملین سے زائد فالوورز ہیں جو کہ بہرحال کوئی معمولی اعداد و شمار نہیں ہیں ۔ان تمام فالوورز نے ایک عجیب عمل پیش کیا یا یوں کہہ لیں کہ ان فالوورز کی بنیاد پر ایک نیا تجزیہ سوشل میڈیا پر بطور Real Influencer کے اس لقب کے ساتھ سامنے آیا ۔اب کیا حقیقی اثر ڈالا یہ دیکھ لیں ۔کھیل بے شک انسان کی جسمانی صحت کے لیے ایک زبردست ٹانک ہے ، جس میں فٹ بال ہر لحاظ سے بہترین ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت اس وقت یہ بھی مال کمانے، مال بنانے اور مال کو ہی دین و ایمان و خدا بنانے کی مانند صورت اختیار کر چکا ہے۔ بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیز اشتہار کاری کے نام پر اس کھیل سے بلکہ ہر کھیل سے جڑی ہوئی ہیں ۔
پس منظر کے بعد اب چلتے ہیں موضوع کی جانب جو اس ہفتہ سماجی میڈیا پر یورپ سے لیکر پاکستان تک بلکہ دنیا بھر میں نمایاں رہا۔ ہوا یہ کہ فٹ بال کی یورپین چیمپئن شپ ۱۱ جون سے ۱۱ جولائی منعقد کی جا رہی ہے ۔24ممالک اس میں حصہ لے رہے ہیں اور پہلی مرتبہ یہ پورے بر اعظم کے ۱۱ ممالک میں کھیلی جارہی ہے ۔اس چیمپئن شپ کی ایک آفیشل اسپانسر مشہور زمانہ امریکی کمپنی ’کوکا کولا‘ ہے تو دوسری کمپنی بیئر و شراب بنانے والی کمپنی ’ ہینی کین‘ ہے ۔ٹورنامنٹ جاری ہے اس میں ایک میچ سے قبل کی پریس کانفرنس کے یہ دو واقعات ہیں ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آج بھی ایک نوجوان کھلاڑی کو بڑا بنانے کے لئے کسی سافٹ ڈرنک کمپنی کے ساتھ معاہدہ یقینی نشانی سمجھا جاتاہے۔نہ صرف ایتھلیٹ بلکہ شراب پینے والی کمپنیاں بھی لیگوں اور ورلڈ کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹس کو اسپانسر کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی مصنوعات کو ایک فعال طرز زندگی کے ساتھ منسلک کرسکیں۔اب ایسے پس منظر میں ایک مشہور کھلاڑی رونالڈو نے ایک پریس کانفرنس سے قبل جب اپنے سامنے موجود کوکا کولا کی دو بوتلیں رکھی دیکھیں تو اچانک اسے ناگواری کا احساس ہوا اور اس نے وہ دونوں بوتلیں اپنے سامنے سے ہٹائیں اور ساتھ رکھی پانی کی بوتل کو ہاتھ میں بلند کیا اور کہا کہ ’پانی پیئیں‘۔اس عمل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر زیربحث آگئی ۔کہنے کو تو یہ کھلاڑی کی جانب سے صحت عامہ کا ایک بنیادی پیغام تھا مگر یکایک اس واقعہ کو نوٹس میں لایا گیا اور سوشل میڈیا پر ایشو بنالیا گیا ، عالمی سطح پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑے نشریاتی اداروں نے رپورٹ کیا کہ کوکا کولا کمپنی کی 4ارب روپے کی شیئر مارکیٹ نیچے آگئی۔سوشل میڈیا پر کئی مداحوں نے اپنے محبوب کھلاڑی کے عمل کو سراہا اور اسے ہمت و جرأت والا قدم قرار دیا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ کمرشل ادارے کھلاڑیوں کو بھی بھاری رقوم ادا کرتے ہیں اپنی اشتہار کاری کے فروغ کے لیے، ایسے میں ایک معمولی سا عمل اور اس کے اتنے بڑے نتائج کا سامنے آجانا بہرحال سب بلکہ خود رونالڈو کے لیے بھی حیران کن ہی رہا ۔اسی ذیل میں چند ہی گھنٹوں کے وقفے کے بعد اِسی ٹورنامنٹ کی ایک اور میچ کی پریس کانفرنس میں فرانسیسی مسلمان فٹ بالر پال پوگبا نے اپنے سامنے سے ’بیئر‘ ( شراب) کی ڈسپلے بوتل ہٹا دی ۔ پوگبا بھی کوئی 8.6ملین فالوورز ٹوئٹر پر رکھتے ہیں ، گو کہ انہوں نے اس عمل پر کوئی وضاحت کی ٹوئیٹ نہیں کی ، البتہ ویڈیو لیک ہوئی اور پوگبا کا بھی ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔ عوام نے خود تشریح کی کہ وہ مسلمان ہے اور مسلمان کبھی شراب کی تشہیر نہیں کر سکتا اسلیے اس نے یہ جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔کوک کے بعد ہینی کین دوسری کمپنی ہے جو اس ٹورنامنٹ کی مرکزی اسپانسر ہے ۔لوگ خوب میمز بناتے رہے اورساتھ ساتھ اُن کھلاڑیوں کے اشتہارات شیئر کرتے رہے جو مختلف کولا ڈرنکس کی تشہیری مہم کا حصہ رہے تھے ، زیادہ تر بھارتی اداکاروں و کھلاڑیوں کا ان میں حصۃ نظر آیا۔مجموعی طور پر سوشل میڈیا پر لوگ کوکا کولا بمقابلہ پانی کی وجہ سے کوکا کولا کمپنی کو ہونے والے نقصان پر خوشی کا اظہار کرتے نظر آئے۔کسی نے یہ بھی کہا کہ کوکا کولا تو اتنی پرانی ہے کہ رونالڈو پیدا بھی نہیں ہوا تھا اسلیے یہ آٗندہ نسلوں تک جاری رہے گی ۔بھارتی میڈیا نے اس واقعہ کو ہلکا کرنے کے لیے توجیہہ پیش کی کہ اتفاقی طور پر، رونالڈو پہلا کھلاڑی نہیں ہے جس نے کھلے عام ایسے مشروبات کے بارے میں اپنی ناگواری کا اظہار کیا۔ موجودہ ہندوستانی بیڈمنٹن قومی کوچ’ پلیلا گوپی چند ‘ نے بھی ایک بار کسی کولاکمپنی کی جانب سے اشتہار کی پیش کش کو مسترد کردیا تھا، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ مصنوعات صحت کے لئے نقصان دہ ہیں۔اب اس عمل پر کوک کمپنی شیئر گرنے کی وجوہات پر خاموش رہتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی ’’مختلف ذوق اور ضروریات ہوتی ہیں، لوگ اپنی پسند کا مشروب پینے میں آزاد ہیں کھلاڑیوں کو ہماری پریس کانفرنسوں میں پہنچنے پر کوکا کولا اور کوکا کولا زیرو شوگر کے ساتھ ساتھ پانی بھی پیش کیا جاتا ہے۔‘‘ایک اور اہم بات دونوں کھلاڑیوں نے کسی مغربی یا لوکل میڈیا پر تاحال کوئی موقف دینے سے معذرت کر لی ہے ۔میری رائے میں یہ ایک مناسب قدم ہے کیونکہ جو پیغام جانا تھا وہ چلا گیا اب لکیر پیٹ کر معاملے کو خراب کرنا لا حاصل ہوگا، دیکھنا یہ ہے کہ کوک کی ساکھ مزید گرے گی؟بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سماجی میڈیا کی بدولت دو بڑے مشروب برانڈز نے دنیا کے سب سے مشہور کھیل کے ستاروں کی سادہ سی حرکت کی وجہ سے شدید جھٹکوں کو محسوس کیا ۔
غزہ میں پچھلے ماہ جاری شدید بمباری ہفتہ بھر میں جنگ بندی کی صورت اختتام پذیر ہوئی۔ اس دوران ناجائز اسرائیل میں نئے صدر اور ایک نئے وزیر اعظم کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ نیتن یاہو کے 15 سالہ ظالمانہ اقتدار سے فراغت کے بعد اس کے نام ٹرینڈ ایک دن پاکستان میں بھی نظر آیا۔ناجائز اسرائیل میں اب اس کی جگہ اس سے بھی زیادہ سفاک و شدت پسند 49سالہ ’نفتالی بینیٹ ‘نے 13ویں وزیر اعظم کے طور پر لی ہے۔ اس کے بارے میں یہی بات سامنے آئی ہے کہ یہ نیتن یاہو سے زیادہ بدترین ثابت ہوگا۔ اس نے اقتدار سنبھالتے ہی غزہ پر دوبارہ شدید بمباری شروع کرا دی۔اس کی وجہ چند ایسے غبارے بتائے گئے کہ جو حماس کے زیر اثر علاقوں سے اڑتے ہوئے ناجائز اسرائیل کی حدود میں داخل ہوئے تھے اور کسی کمپاؤنڈ میں پھٹ گئے تھے۔یہی نہیں اس کے بعد ناجائز اسرائیل کے حامی شدت پسند یہودیوں نے یروشلم میں ایک احتجاجی مارچ بھی کیا جس میں عربوں کی موت اور فلسطینیوں کے خلاف نعرے لگائے ۔اس پر بھی احتجاجہوا کہ جو’اسرائیلی مذہبی تھیم پارک کی ایک راہداری بنانے کے لئے لگ بھگ 130 فلسطینی خاندانوں کو اپنے گھروں کی تباہی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ بائبل کے زمانے میں شاہ ڈیوڈ کا باغ تھا۔اب بھی مقبوضہ مشرقی یروشلم میں سلوان کے علاقے البستان میں 100 سے زیادہ عمارتوں میں مقیم تقریبا 1500 افراد کو خطرہ لاحق ہے، جنہیں خالی کرنے کانوٹس دیا جا چکا ہے۔‘ پاکستان میں اس وقت بلکہ عالم اسلام میں اس وقت سب خاموش ہی ہیں ، کسی بڑے نقصان کے بعد ضرور کوئی ہل جل ہوگی۔
کراچی میں ان دنوں لوڈ شیڈنگ کے ساتھ صفائی کے نام پر توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک جانب سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ناجائز تجاوزات و تعمیرات کو صاف کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد بے روزگار و بے گھر ہو رہے ہیں دوسری جانب ایسی کوئی پالیسی یا ان ساری تجاوزات کے ذمہ دار افراد کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی جا رہی ‘ ۔ انصاف کی اس عجیب کیفیت کی وجہ سے جو بے چینی ہے اس کا اظہار سوشل میڈیا پر مختلف انداز سے مسلسل جاری رہا۔ کوئی سیاسی جماعت بھی کھل کر عدلیہ کے فیصلے کے خلاف سامنے نہیں آ سکی ، سب کسی نہ کسی شکل میں سوشل میڈیا کی آڑ لیتے رہے ۔ ایسے میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی و ایم کیو ایم کے متعلقہ محکموں میں بھرتی شدہ کارکنان کی عید بدستور جاری رہی جنہوں نے اس ضمن میں کرڑوں نہیں اربوں روپے کی رشوتیں کھائی اور اوپر تک بانٹی اور اب بھی یہ سب جاری ہے ۔
سوشل میڈیا پر اس ہفتہ ایک اور موضوع ’اخلاقیات اور قومی اسمبلی ‘ تھا ، اس کے ذیل میں بہر حال جہاں ہمارے سیاستدانوں کے افعال و اخلاقی پستی کا پول کھولا گیا وہاں سیاسی کارکنان نے بھی اپنی جماعت کے دفاع میں حصہ ملایا۔یہ ٹرینڈ تحریک لبیک کی جانب سے پیش کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عوام الناس میں قبول ہو گیا ۔ بجٹ کاپیوں کو ایک دوسرے پرپھینکنے کے عمل میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ان بجٹ کاپیوں میں اللہ و رسول ﷺ کا نام ابتدا ء میں نمایاں طور پر درج ہوتا ہے ، چنانچہ یہ حرکت سخت ترین بے ادبی کے زمرے میں آتی ہے ۔عوام اس سنگین و سنجیدہ معاملے میں جانے کے بجائے اخلاقی درس دینے میں لگ گئی۔ ٹاک شوز کے کلپس شیئر کیے گئے ۔ سندھ اسمبلی کے کلپس بھی انتہائی شرمناک تھے جس میں اپوزیشن اراکین سیٹیاں و غبارے پھلاتے احتجاج کرتے دکھائی دیئے۔معروف صحافی انصار عباسی لکھتے ہیںکہ ’جو ماحول قومی اسمبلی کا بن چکا، اُس میں تو کسی عزت دار شخص کے لئے وہاں جانا ہی اپنی عزت کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ پہلے تو ایک دوسرے کو چور چور کہتے تھے، اب بدتمیزی، گالم گلوچ، خواتین پر پھبتیاں کسنا عام ہو چکا۔ یاد رہے ان کو میں نے آپ نے منتخب کیا۔‘معروف پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی نے دکھ کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ،’جو طوفان بدتمیزی اسمبلی میں برپا کیا گیا ، غلیظ زبان اور الفاظ استعمال کئے گئے اس سب کو دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا ہے۔ یہ ہیں ہمارے حکمران اور نمائندے؟ یہ لوگ تو تمیز سے بات نہیں کر سکتے ایک دوسرے سے، ہماری نمائندگی اور ملک کی ترقی کے لیے کیا کام کریں گے۔ ہوش کے ناخن لیں۔‘ یہ سارا طوفان قومی بجٹ سیشن کے ضمن میں پیش آیا ، حکومت نے اپنا بجٹ پیش کیا جس کو اپوزیشن نے احتجاج میں گزارا پھر جب بحث کا موقع آیا تو حکومتی اراکین نے بدلہ اتارا۔یہ سارا عمل دنیابھرکے میڈیا میں ملکی ’شان‘ بڑھانے کا سبب بنا کیونکہ سب نے اپنے انداز سے رپورٹ کیا۔ بجٹ کی آمد پر سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنے ۔ ’بجٹ جعلی غریب خالی ‘سے چلتے چلتے ’نیشنل اسمبلی‘ اور پھر اخلاقیات والے طویل ہیش ٹیگ نے جگہ بنائے رکھی۔اس دوران عوام پر پیٹرول بم بھی گرایا گیا جبکہ حکومتی دعوے تھے کہ اب ہر چیز سستی ہوگی کہ اب معاشی ترقی کا سفر شروع ہو گیا ہے۔
اس کے علاوہ جو اہم موضوعات سوشل میڈیا پر زیر بحث رہے اس میں طلبہ کی جانب سے امتحانات موخر کرنے کا مطالبہ اس ہفتہ بھی جاری رہا، الیکٹرانک ووٹنگ، عزیزالرحمٰن ، اسلام آباد، زلزلہ، یو ٹیوب بمقابلہ ٹک ٹاکرز، بین ٹک ٹاک ان پاکستان، ماڈل ٹاؤن پر خاموشی، سعد رضوی کو رہا کرو، کراچی ڈیمانڈز ، گالیوں کاکلچر بھی جاری رہا۔