مرزا غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
…٭…
سلیم احمد
افق پر جا ملیں گے آسماں سے
یہ کتنا فاصلہ ہو گا یہاں سے
اندھیرے کے گھنیرے حاشیوں میں
یکایک روشنی آئی کہاں سے
ہوا نے دی درِ ویراں پہ دستک
کئی پرچھائیاں نکلیں مکاں سے
سلیقہ جس کو مرنے کا نہیں ہے
وہ اُٹھ جائے ہمارے درمیاں سے
یقیں کی بات میں کچھ بھی نہیں تھا
نئے پہلو ہوئے پیدا گماں سے
خموشی اُس گرہ کو کھولتی ہے
جو کھل سکتی نہیں لفظ و بیاں سے
کبھی اپنی طرف بھی لوٹ آنا
اگر فرصت ملے کارِ جہاں سے
میں موسم کے تقاضے دیکھتا تھا
سفر کی فال لی ابرِ رواں سے
…٭…
افتخار عارف
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہو گا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا
چراغ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
زمیں جب عدل سے بھر جائے گی نور علیٰ نور
بنام مسلک و مذہب تماشا ختم ہو گا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا
دل نا مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا
جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہو گا
…٭…
ندیم صدیقی
گہرے سمندروں میں بالآخر اتر گئے
خوش فہمیوں کا زہر پیا اور مر گئے
ہم عہد نو کے لوگ بھی اللہ کی پناہ
کاسہ اٹھائے ہاتھ میں اپنے ہی گھر گئے
کچھ لوگ اڑ رہے تھے ہواؤں کے دوش پر
کیا جانے کس خیال سے ہم بھی ادھر گئے
کل رات پی پلا کے بڑی مستیاں ہوئیں
آخر کو تھک تھکا کے پھر اپنے ہی گھر گئے
کیا کیا نہ بن رہے تھے میاں حضرت ندیمؔ
سورج کو چھونے نکلے تھے سائے سے ڈر گئے
…٭…
آہ سنبھلی
یہاں مکینوں سے خالی مکان رہتے ہیں
محبتیں نہیں رہتیں گمان رہتے ہیں
خدا کرے کہ سنے تو زبان خاموشی
ترے پڑوس میں کچھ بے زبان رہتے ہیں
نہ کیجے تکیہ بزرگوں کی ڈھلتی چھاؤں پر
کہاں سروں پہ سدا سائبان رہتے ہیں
یہی جہاں ہے ہمارا جہان گمشدگی
یہی نشان کہ بس بے نشان رہتے ہیں
محبتیں جس افق سے طلوع ہوتی ہیں
وہیں پہ مل کے زمیں آسمان رہتے ہیں
ترے سلوک نے دھندلا دئے سب افسانے
ہم اپنے سے بھی بہت بد گمان رہتے ہیں
ہر ایک شخص کو مجبور آہؔ مت جانو
کہ شیشے بھی کہیں بن کر چٹان رہتے ہیں
…٭…
آنس معین
یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور
کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی
کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر
جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور
امید سحر بھی تو وراثت میں ہے شامل
شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور
کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور
اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور
اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور
شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور
…٭…
الطاف حسین حالی
صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
…٭…
افتخار عارف
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
…٭…
عبد العزیز خالد
بھولوں انہیں کیسے کیسے کیسے
وہ لمحے جو تیرے ساتھ گزرے
ہے راہنما جبلت ان کی
بے حس نہیں موسمی پرندے
اے دانشور مفر نہیں ہے
اقرار وجود کبریا سے
جانا کوئی کارساز بھی ہے
ٹوٹے بن بن کے جب ارادے
محراب عمود برج قوسیں
رس میں ڈوبے بھرے بھرے سے
بحر کافور میں تلاطم
بھونرا بیٹھا کنول کو چوسے
چاک افقی حریم زہرہ
رہ رہ کے مدن ترنگ جھلکے
جھلمل جھلمل بدن کا سونا
لہرائیں لٹیں کمر سے نیچے
کیا چاند سی صورتیں بنائیں
قربان اے نیلی چھتری والے
…٭…
ابھیشیک شکلا
سفر کے بعد بھی ذوق سفر نہ رہ جائے
خیال و خواب میں اب کے بھی گھر نہ رہ جائے
میں سوچتا ہوں بہت زندگی کے بارے میں
یہ زندگی بھی مجھے سوچ کر نہ رہ جائے
بس ایک خوف میں ہوتی ہے ہر سحر میری
نشان خواب کہیں آنکھ پر نہ رہ جائے
یہ بے حسی تو مری ضد تھی میرے اجزا سے
کہ مجھ میں اپنے تعاقب کا ڈر نہ رہ جائے
ہوائے شام ترا رقص ناگزیر سہی
یہ میری خاک ترے جسم پر نہ رہ جائے
اسی کی شکل لیا چاہتی ہے خاک مری
سو شہر جاں میں کوئی کوزہ گر نہ رہ جائے
گزر گیا ہو اگر قافلہ تو دیکھ آؤ
پس غبار کسی کی نظر نہ رہ جائے
میں ایک اور کھڑا ہوں حصار دنیا کے
وہ جس کی ضد میں کھڑا ہوں ادھر نہ رہ جائے
…٭…
یروشلم/نعیم صدیقی
یروشلم یروشلم تو ایک حریم محترم
تیرے ہی سنگ در پر آج منہ کے بل گرے ہیں ہم
تجھے دیا ہے ہاتھ سے بزخم دل بچشم نم
یروشلم یروشلم یروشلم یروشلم
…٭…